محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان فانی دنیا سے رخصت ہوکر بارگاہِ رب العزت میں حاضر ہوگئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک سچے عاشقِ رسول اور تصوف سے شغف رکھنے والے مسلمان ایٹمی سائنس دان تھے۔ اسلام کے متعلق ان کا وژن بہت واضح تھا۔ ہمارا دشمن ملک اُن کے کارنامے کی وجہ سے ہماری پاک سرزمینِ کو چھو تک نہیں سکتا۔ ہر پاکستانی اُن کی وفات پر سکتے میں آگیا، بائیس کروڑ لوگوں کی آنکھیں اشکبار ہیں اور ہر دل سوگوار۔ ایمان ہے کہ زندہ کسی کو بھی نہیں رہنا، ہم سب کو جان دینی ہے، کل کوئی اور سفرِ آخرت پر روانہ ہوا تو دنیا دیکھ لے گی کہ چراغ کتنی آنکھوں میں جلتے ہیں اور جنازہ کتنے دلوں میں پڑھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر قدیر خان کے جنازے کے حوالے سے پاکستان کے لوگ سمجھ دارہیں، سب کو معلوم ہے کہ حقیقت کیا تھی اور دکھایا کیا گیا؟ زبانیں خاموش سہی مگر تاریخ خاموش نہیں رہے گی۔ دنیا میں اپنی زندگی میں وہ اسلام آباد کے سیکٹر ای سیون میں رہائش پذیر تھے اور آخری ایام میں یہیں نظربند تھے، مگر اب وہ جنت کے باغوں میں آزادانہ گھوم رہے ہوں گے۔ وہ خود تو رخصت ہوگئے مگر اپنے پیچھے ناقابلِ تسخیر دفاعی نظام اور نہ مٹنے والی تاریخ چھوڑ گئے ہیں۔
فخرِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان یکم اپریل 1936ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے، اور تقسیم ہند کے بعد 1947ء میں اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان آگئے۔ 1960ء کی دہائی میں وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ چلے گئے، جہاں انہوں نے 15برس برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، نیدرلینڈکی ڈیلیفٹ یونیورسٹی اور بیلجیم کی آف لیوئون یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ ہالینڈ سے ماسٹرآف سائنس، جبکہ بیلجیم سے میٹلرجیکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی سند پائی۔ مئی 1976ء میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں شرکت کی اور اپنی اَن تھک محنت اور بے لوث جذبے سے قلیل مدت میں یورینیم افزودگی کا وہ کارنامہ سرانجام دیا جو ناممکن نظر آتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کو اعلیٰ ترین قومی اعزازات سے نوازا گیا، ڈاکٹر صاحب کی خدمات کے اعتراف میں انہیں دو مرتبہ نشان امتیاز اور ایک مرتبہ ہلال امتیاز بھی دیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان بلاشبہ پاکستانی قوم کا سرمایۂ افتخار تھے، ان کے جنازے میں کسی بھی حکومتی عہدیدار کی عدم شرکت پر بہت سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں، ان کا جواب صرف یہی ہے کہ جو خوش قسمت تھا اسے جنازے میں شریک ہونے کا موقع اللہ نے عطا کردیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی زندگی کے آخری سترہ سال نظربندی میں گزارے تو تعجب کی کیا بات ہے؟ بحیثیت مسلمان ہمیں اپنا اپنا گریبان جھانکنا چاہیے۔ یہ غیر معمولی بات ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان کی زندگی کے آخری دو عشرے اذیت میں گزرے اور انہیں مسلسل نظربند رکھا گیا، آج وہ ہم میں نہیں رہے۔
ان کے داغِ مفارقت دینے پر پورا ملک سوگوار ہے۔ پوری قوم، بلکہ ملّت ِ اسلامیہ ان کی راہ میں آنکھیں بچھاتی رہی۔ جنرل پرویزمشرف کے دور میں ان کے ساتھ جو کچھ ہوا، یہ سب ڈراؤنا خواب تھا، جسے قوم کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔ انہیں جنرل پرویزمشرف کے دور میں عین اس لمحے نظربند کیا گیا جب پانچ فروری کو قوم کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا دن منارہی تھی، اور انہیں پی ٹی وی پر ایک لکھا ہوا بیان پڑھنے پر مجبور کیا گیا۔ یہ بیان اُس وقت کے سیکرٹری اطلاعات و نشریات کی نگرانی میں لکھا گیا تھا اور اُس وقت بھی وزیر اطلاعات شیخ رشید احمد تھے۔ انہیں امریکہ کے حوالے کرنے کے معاملے پر جنرل پرویزمشرف اور اُس وقت کے وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی میں اختلافات بھی پیدا ہوئے۔ میر ظفر اللہ جمالی نے انہیں امریکہ کے حوالے کرنے کی سخت مخالفت کی۔ تب سے اپنی وفات تک ڈاکٹر قدیر اپنے گھر میں ہی نظربند رہے، بلکہ ان کی رہائی اور نقل و حرکت کے لیے ابھی تک سپریم کورٹ میں ایک درخواست زیر سماعت ہے۔ ملک کو انہوں نے دشمن سے محفوظ بنایا، مگر عدلیہ انہیں انصاف نہ دے سکی۔ دسمبر 2019ء میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی اور اپنے بنیادی حقوق کی بحالی کی استدعا کی تھی تاکہ ملک میں آزادانہ گھوم پھر سکیں۔ سپریم کورٹ میں تین برسوں میں صرف پانچ سماعتیں ہوسکیں۔ ساری عمر اس ملک کی خدمت میں صرف کرنے والے عظیم سائنس دان کی زندگی کے آخری ایام سپریم کورٹ کے ترازو کی طرف دیکھتے ہوئے گزر گئے۔
ڈاکٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا، اگر ملک کی معاشی ترقی کے لیے انہیں استعمال کیا جاتا تو وہ کارہائیِ نمایاں انجام دے سکتے تھے، پاکستان کی سائنسی بنیاد کو مضبوط بنا سکتے تھے۔ لیکن ایسا ممکن نہ ہوا۔ اربابِ اختیار کی کوتاہ نظری نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی۔
ڈاکٹر صاحب کورونا کا شکار ہوئے تھے، ویکسین کی دو خوراکیں لگوا چکے تھے، پھر بھی موذی وائرس حملہ آور ہوا۔ کئی دن ہسپتال میں رہے۔ انہوں نے بسترِ علالت سے قوم کے نام ایک اپیل بھی جاری کی تھی، جس میں کہا گیا تھا:
’’ہم سب کو اللہ رب العزت نے پیدا کیا ہے، اور سب کو ایک دن موت کا مزہ چکھنا ہے۔ خالق حقیقی کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کرنا ہے۔ میں چند دنوں سے سخت بیمار ہوں، علاج جاری ہے گناہ گار ہوں، دُعائے مغفرت کرتا رہتا ہوں۔ آپ سب سے میری درخواست ہے کہ میری صحت یابی کی دُعا کریں۔ میری وفات کے بعد پورے پاکستان کے ہر شہر، ہر گاؤں، ہر گلی کوچے میں آپ کو میرے لیے نمازِ جنازہ پڑھنا ہے، اور دُعائے مغفرت کرنا ہے۔‘‘
انہوں نے اپنے اسی پیغام میں کہا تھا: ’’میں نے دِل و جان اور خون پسینے سے ملک و قوم کی خدمت کی ہے۔ جو کہا گیا اس پر عمل کیا۔ کوئی غلط کام نہیں کیا، اور نہ ہی میرے محب وطن ساتھیوں نے کوئی غلط کام کیا۔ میرا اللہ میرا گواہ ہے۔ میں جہاں چاہتا چلا جاتا، کھرب پتی ہوجاتا۔ لیکن مجھے پاکستان عزیز تھا۔آپ عزیز تھے۔آپ کی حفاظت و سلامتی میرا فرض تھا۔ میں دسمبر1971ء کو کبھی نہ بھلا سکا۔‘‘
ڈاکٹر صاحب ہسپتال میں کئی روز زیر علاج رہنے کے بعد صحت یاب ہوگئے، انہیں گھر منتقل کردیا گیا، جہاں ان کی خدمت کے لیے ہسپتال انتظامیہ نے تربیت یافتہ خدمت گزار بھی مقرر کردیئے۔ ہر آنے والا دن ان کی صحت میں بہتری کی خبر لا رہا تھا، ان کے کروڑوں مداح اپنے رب کے حضور سربہ سجود تھے کہ ان کی دُعائیں قبول ہوں گی، اور ڈاکٹر صاحب بہت جلد اپنے رفاہی اداروں کی نگرانی کرنے لگیں گے۔ ان کے معمولات بحال ہوتے نظر آرہے تھے۔ لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ان کی طبیعت بگڑی، انہیں ہسپتال لے جایا گیا، لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔
ڈاکٹر صاحب کی نمازِ جنازہ فیصل مسجد اسلام آباد میں ادا کی گئی، اُنہیں قومی اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیا، پاکستانی پرچم سرنگوں ہوا، اور قومی سوگ کا بھی اعلان کیا گیا۔ پوری قوم نے یک آواز ہوکر انہیں خراجِ تحسین پیش کیا، اور الوداع کہا۔ ڈاکٹر صاحب کی خواہش کے مطابق شہر شہر، اور بستی بستی ان کے لیے دُعائے مغفرت کا اہتمام جاری ہے، ہر شخص ان کے لیے محو ِ دُعا ہے۔ انہوں نے پاکستان کو وہ کچھ دیا جو کوئی دوسرا نہ دے سکتا ہے، نہ دے سکے گا۔ وہ بیمار ہوکر ہسپتال پہنچے تو اربابِ اقتدار میں سے کسی کو ان کی مزاج پرسی کی توفیق نہیں ہوئی، یہ بے حسی ان کے دِل کا داغ تھی، لیکن اس سے اُن کی عظمت کم نہیں ہوئی، اربابِ اقتدار ہی کی سبکی ہوئی۔ اس سے قطع نظر وہ پوری قوم کے ہیرو تھے، ہیرو ہیں اور ہیرو رہیں گے۔ اُنہیں ہر ہر پاکستانی کا سلام پہنچے، ہم سب ان کے لیے دُعاگو رہیں گے۔
ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انتقال کی خبر بھی چند گھنٹے تک چھپائی گئی، اور ان کے جنازے کے لیے حکومت نے کوئی مناسب بندوبست نہیں کیا، اس کے باوجود شہری اپنے طور پر جنازے کے لیے پہنچے اور کسی حکومتی عہدیدار کو جنازے میں شریک ہونے کی توفیق نہیں ہوئی۔ سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ جنازے میں شرکت کے لیے کراچی سے آئے، جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ، ڈاکٹر فرید پراچہ، میاں اسلم، میاں محمد رمضان، کاشف چودھری، نیشنل لیبر فیڈریشن کے صدر شمس الرحمٰن سواتی اور واپڈا یونین کے رہنما عاشق حسین جنازے میں شرکت کرنے والے سیاسی رہنمائوں میں نمایاں تھے۔ تاہم اسلام آباد اور راولپنڈی میں موجود سیاسی قیادت اور حکومتی عہدیدار گھروں میں سوئے رہے۔ بیشتر تاجر رہنما اپنے گھروں میں رہے۔ محسنِ پاکستان کی نماز جنازہ فیصل مسجد اسلام آباد میں ادا کی گئی جہاں بارش کے باوجود شرکت کے لیے عوام کا ہجوم اُمنڈ آیا۔ نماز جنازہ پروفیسر ڈاکٹر احمد الغزالی نے پڑھائی۔ ڈاکٹر قدیر خان کا جسد خاکی قومی پرچم میں لپیٹا گیا تھا۔
ڈاکٹر قدیر خان نے زندگی میں بہت نشیب و فراز دیکھے۔ انہوں نے ایک کتابچے میں خود لکھا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا سنگِ بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا اور بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اس پروگرام کو پروان چڑھایا۔ ڈاکٹر قدیر خان پر ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات چرانے کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی دائر کیا، لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسرز نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے ڈاکٹر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام ہیں اور کتابوں میں موجود ہیں۔ جس کے بعد ہالینڈ کی عدالتِ عالیہ نے ان کو باعزت بری کردیا تھا۔ ڈاکٹر قدیر خان نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب کہوٹہ میں ریسرچ لیبارٹری زیر تعمیر تھی تو وہ سہالہ میں پائلٹ پروجیکٹ چلارہے تھے اور اُس وقت فرانسیسی فرسٹ سیکرٹری فوکو کہوٹہ کے ممنوع علاقے میں بغیر اجازت گھس آئے تھے جس پر ان کی مارکٹائی ہوئی اور پتا چلا کہ وہ سی آئی اے کے لیے کام کرتے تھے، انہوں نے تہران میں اپنے سی آئی اے باس کو لکھا کہ ’کہوٹہ میں کچھ عجیب و غریب ہورہا ہے۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ وہ ایک بار اس حد تک مایوس ہوئے کہ اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھا اور اپنے تحفظات بتائے کہ کام سست رفتاری سے ہورہا ہے۔ حتیٰ کہ خط میں اس قدر مایوسی کا اظہار کیاکہ وہ واپس جانا چاہتے ہیں۔ اس خط کے بعد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے آغاشاہی، امتیاز احمد، اے جی این قاضی، غلام اسحاق خان کے علاوہ سیکرٹری دفاع اور دیگر اہم افراد کو ہدایت کی کہ وہ ڈاکٹر قدیر خان کے تحفظات سنیں اور انہیں دور کرنے کی ہر ممکن عملی کوشش کی جائے۔ بہرحال متعدد ملاقاتوں میں یہ بات طے ہوگئی کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک خودمختار ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے کام کریں گے اور کوئی مداخلت نہیں ہوگی۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق سے ان کی ایک خصوصی ملاقات ہوئی، اس ملاقات کے بعد جنرل صاحب نے سینئر آرمی آفیسر زاہد علی اکبر کو ڈاکٹر صاحب کے پاس بھیجا، یوں ڈاکٹر صاحب کے کام میں نکھار بھی آگیا، تحفظات بھی دور ہوئے اور دفاع پاکستان کی کہانی آگے بڑھنے لگی، اور ایک دن آیا کہ سب کچھ خاموشی کے ساتھ تیار کرلیا گیا اور محض اعلان باقی تھا۔ یہ منزل پاکستان نے جنرل محمد ضیاء الحق کے زمانے میں عبور کرلی تھی اور انہی کے زمانے میں کولڈ ٹیسٹ بھی کرلیا گیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہمارے پڑوس میں افغان جہاد جاری تھا، پوری دنیا کی نظریں اس جہاد پر تھیں۔ یوں افغان جہاد بھی ہمارے ایٹمی پروگرام میں کسی نہ کسی حد تک حصہ دار بنا۔ جنرل ضیا الحق نے اسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ ان کے دور میں ایٹم بم تیار ہوچکا تھا، نوازشریف کے دور میں اس کا دھماکہ ہوا۔ 1987ء میں ایک اخبار کے مدیر مشاہد حسین نے ممتاز بھارتی صحافی کلدیپ نیر کا ڈاکٹر اے کیو خان سے انٹرویو کروایا، جس میں ڈاکٹر خان نے بتایا کہ پاکستان ایٹم بم بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ خبر دنیا بالخصوص بھارت کے لیے کسی دھماکے سے کم نہ تھی۔ ضیاء الحق کے بعد بے نظیر اور پھر نوازشریف کی حکومتیں آئیں تو بھی ڈاکٹر اے کیو خان کا کام جاری رہا۔ 11 مئی 1998ء کو بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد 28 مئی1998ء کو اُس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کے حکم پر بلوچستان میں چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکے کیے گئے۔ اس موقع پر ڈاکٹر اے کیو خان کا نام پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے کی حیثیت سے باضابطہ طور پر سامنے آیا، انہیں محسنِ پاکستان کا لقب دیا گیا۔
نائن الیون ہوا تو دنیا ہی بدل گئی۔ امریکہ نے لیبیا، ایران اور شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام شروع کرانے میں مدد سے متعلق تحقیقات کیں تو اس میں ڈاکٹر اے کیو خان پر بھی الزام عائد ہوا۔ پرویزمشرف نے ڈاکٹر اے کیو خان کو نظربند کردیا، جس کے خلاف انہوں نے اعلیٰ عدالتوں سے فیصلے حاصل کیے، تاہم ان کی غیر معمولی اہمیت کے پیشِ نظر انہیں تادم مرگ ہائی سیکورٹی میں رکھا گیا۔ پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر بنانے پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام قومی ہیرو کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے سابق چیئرمین ظفر حجازی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’ڈاکٹر صاحب نے ایک بار بتایا کہ انہیں سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو نے بلایا اور ایک دھمکی آمیز خط پڑھایا جو امریکی صدر کی طرف سے تھا، جب ملاقات کے بعد ڈاکٹر صاحب اٹھ کر جانے لگے تو جونیجو مرحوم نے دھیرے سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب اگر ملک پہ کوئی افتاد پڑ جائے تو کتنے وقت میں ہم تجربہ کرسکتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: وزیراعظم صاحب آپ حکم کیجیے، ہم آپ کو حکم واپس لینے کا وقت بھی نہیں دیں گے، اور جونیجو مرحوم کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔‘‘ ظفر حجازی کے مطابق ڈاکٹر عبدالقدیر کے پائے کا محب وطن کون ہوگا؟ انہیں کہا گیا کہ اگر ایک ملک کو ایٹمی ٹیکنالوجی ٹرانسفر کرنے کا الزام اپنے سر
لے لیں تو پاکستان بہت بڑی مصیبت سے بچ سکتا ہے۔ محسنِ پاکستان نے الزام اپنے سر لے لیا۔ کہاں سے لاؤ گے اتنے عظیم لوگ؟ ڈاکٹر صاحب سے اقبالی بیان دلانے کے بعد جنرل پرویزمشرف نے کہا کہ دولت کے لیے ٹیکنالوجی منتقل کی ہے تو وہ اب دولت انجوائے کریں، اور ڈاکٹر عبدالقدیر کو نظربند کردیا۔ ظفر حجازی نے سوال اٹھایا کہ کہاں گئی وہ دولت؟ دنیا نے دیکھا کہ ڈاکٹر قدیر نے باقی زندگی کسمپرسی میں بسر کی۔ پاکستان کے اربابِ اختیار نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم سے ان کی صلاحیتوں کے مطابق کام نہیں لیا، اگر ان سے کام لیا جاتا تو پاکستان بہت سی ایجادات کرسکتا تھا۔ ابھی حال ہی میں جب نوکیا نے موبائل فون بناکر اربوں ڈالر کمائے تو ان سے پوچھا گیاکہ آپ اتنے بڑے سائنسدان ہیں کیا آپ موبائل فون نہیں بنا سکتے؟ اس پر ڈاکٹر عبدالقدیر نے کہا کہ اگر ملک میں میزائل اور ایٹم بم بن سکتے ہیں تو موبائل فون تو بہت چھوٹی چیز ہے۔ وہ تو گاڑیاں، جہاز اور ٹرک بھی بنانا چاہتے تھے لیکن ان کی بات نہیں مانی گئی۔14 اگست 1996ء کو صدر فاروق لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز نشانِ امتیاز دیا، جبکہ 1989ء میں ہلال امتیاز بھی ان کو عطا کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر قدیر خان نے ایک این جی او بھی بنائی جو تعلیمی اور دیگر فلاحی کاموں میں سرگرم ہے۔ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے، آمین۔