’’رَحْمَۃُ لِلّعَالمْین اتھارٹی‘‘ کا قیام وزیراعظم کا ایک قابلِ ستائش اقدام

وزیراعظم عمران خان نے سیرت النبیؐ اور مدینہ کی ریاست کے مختلف پہلوئوں پر تحقیق کے لیے اپنی سربراہی میں ’’رحمۃ للعالمین اتھارٹی‘‘ کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ آقائے دوجہاں، خاتم النبیین، محسنِ انسانیت، رسولِ مکرم، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ حکومت ربیع الاوّل کے حوالے سے ’’عشرہ شانِ رحمۃ للعالمین‘‘ سرکاری سطح پر منارہی ہے تاکہ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیۂ عقیدت پیش کیا جاسکے۔ اسی سلسلے میں وزیراعظم ہائوس میں اتوار کو منعقدہ مرکزی تقریب سے خطاب کے دوران وزیراعظم عمران خان نے اتھارٹی کے قیام کا اعلان کیا جس کی باقاعدہ منظوری منگل 12 اکتوبر کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی دے دی گئی۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں بتایا کہ یہ اتھارٹی نہ صرف اسکولوں کے نصاب بلکہ سوشل میڈیا پر نازیبا مواد کی نگرانی بھی کرے گی، ہم اس اتھارٹی کے ذریعے بچوں اور بڑوں کو ’’سیرت النبیؐ‘‘ پڑھانے کا طریقہ کار طے کریں گے، ہم نے اتھارٹی کے چیئرمین کی تلاش شروع کردی ہے، بہترین مذہبی اسکالر کو چیئرمین بنایا جائے گا، ہم اپنے ملک کو اس جانب لے کر جائیں گے جس کی بنیاد پر 74 سال قبل پاکستان بنا تھا، موجودہ دور میں نوجوان نسل دبائو کا شکار ہے، ہم مدینہ کی ریاست کے اصولوں پر چلیں گے تو ملک ترقی کرے گا، مدینہ کی ریاست کی بنیاد انسانیت اور انصاف کا نظام تھا۔
وزیراعظم نے اس موقع پر اپنے خطاب میں مزید توجہ دلائی کہ دنیا میں جو ممالک خوشحال ہیں وہاں قانون کی بالادستی ہے، انصاف انسان کو آزاد کرتا ہے، ہمارے ملک میں کمزور انصاف اور طاقت ور این آر او مانگتا ہے۔ ’’عشرۂ رحمۃ للعالمینؐ‘‘ کے آغاز پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے جناب عمران خان نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ ہمیں اپنے بچوں کو یہ پڑھانا ہے کہ ان کے رول ماڈل کون ہونے چاہئیں۔ اگر ہمیں اپنے ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنا ہوگی، ہمیں قرآن پاک کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کے لیے رحمت بن کر آئے، اُس دور میں انصاف کا اِس قدر بول بالا تھا کہ خلیفۂ وقت حضرت علیؓ ایک یہودی سے مقدمہ ہار گئے، نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ زور تعلیم پر دیا جس میں خواتین کی تعلیم بھی شامل تھی، پانچ سو سال تک دنیا کے بڑے سائنس دان مسلمان تھے، ان کے پاس دینی اور دنیاوی دونوں علوم تھے۔
وزیراعظم نے فحاشی کو اہم معاشرتی برائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب ہم فحاشی کی بات کرتے ہیں تو خود کو لبرل کہنے والا ایک طبقہ اس پر شور مچاتا ہے، فحاشی کے اثرات خاندانی نظام پر پڑتے ہیں، معاشرے میں خاندانی نظام کو بچانے کے لیے ہمارے اہلِ دانش کو اس پر بات کرنا ہوگی۔
وزیراعظم نے اپنے طویل خطاب کے آخر میں زور دیا کہ ہمیں اس بات پر تحقیق کرنا چاہیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں کیا صفات تھیں کہ نہایت مختصر وقت میں انہوں نے اتنے بڑے بڑے لیڈر پیدا کردیئے، اور لوگوں کی سیرت و کردار میں ایک عظیم انقلاب برپا کردیا۔
اس میں شک نہیں کہ اس وقت مسلمانوں کو انفرادی طور پر اور امتِ مسلمہ کو اجتماعی سطح پر جن بے شمار مسائل و مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا ہے ان سب کا حل اور علاج رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے مطالعے اور پھر اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھال لینے ہی میں پنہاں ہے۔ قرآن حکیم میں خود خالقِ کائنات کا فرمان ہے کہ ’’تمہارے لیے رسولؐ اللہ کی ہستی میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔ مگر ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو فراموش کردیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک کے مطالعے اور اس میں اپنے لیے رہنمائی تلاش کرنے کے بجائے دوسرے لوگوں کو اپنے لیے نمونہ قرار دے لیا ہے، اور ان سے رہنمائی حاصل کرنے ہی کا نتیجہ ہے کہ ہم پے در پے ناکامیوں سے دوچار ہیں۔ ہم آج بھی اگر دنیا میں کامیاب اور سرخرو ہونا چاہتے ہیں تو اس کا واحد راستہ رسول کریم و امین ؐ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی ہی سے ممکن ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کا ’’رحمۃ للعالمین اتھارٹی‘‘ کے قیام کا اعلان بلاشبہ قابلِ تحسین ہے۔ اس موقع پر انہوں نے جن خیالات اور عزائم کا اعلان کیا ہے وہ بھی یقیناً قابلِ ستائش ہیں، تاہم وزیراعظم کو بھی اس ضمن میں ’محسنِ انسانیتؐ‘ کے اسوہ کی پیروی کرتے ہوئے اس نیک کام کا آغاز اپنے قریبی ساتھیوں سے کرنا ہوگا، خصوصاً اپنی کابینہ کے ارکان اور فیصلہ سازوں کو اپنی اوّلین توجہ کا مرکز و محور بنانا ہوگا، اور انہیں اس بات پر آمادہ بھی کرنا ہو گا اور پابند بھی بنانا ہوگا کہ وہ سیرتِ سرورِ عالمؐ کا مطالعہ بھی کریں اور اپنی سیرت و کردار کو اس کی روشنی میں استوار کرنے پر بھی توجہ دیں… وزیراعظم عمران خان یقین رکھیں کہ جس روز انہوں نے اپنی کابینہ کے ارکان اور دیگر فیصلہ سازوں کو اس پر آمادہ کر لیا تو وہ عظیم انقلاب برپا ہوتے بالکل دیر نہیں لگے گی جس کے وہ شدت سے متمنی دکھائی دیتے ہیں… ورنہ جناب وزیراعظم ’’گریہ نہیں تو بابا سب کہانیاں ہیں…‘‘
(حامد ریاض ڈوگر)