اپنی زبان سنبھالیے

برسوں پہلے ایک سلسلے وار پُرمزاح انگریزی نشریہ نظر سے گزرا کرتا تھا۔ عنوان تھا: “Mind your language” عنوان کی اُردو زبان میں بامحاورہ ترجمانی شاید یوں ہوسکتی ہو: ’’اپنی زبان سنبھالیے‘‘۔ ان دلچسپ فکاہیہ خاکوں میں غلط انگریزی بولنے والوں پر ہنسنے کا موقع فراہم کیا جاتا تھا اور ’تعلیمِ بالغان‘ کے شاگردان کودرست انگریزی سکھائی جاتی تھی۔ یہ مقبول نشریات بہت سے لوگوں نے دیکھی ہوں گی۔ یہ برطانوی ادارے ITVکی نشریات تھیں۔ خود ہمارے ملک کے انگریزی روزنامہ ’ڈان‘ میں ایسے کئی مستقل سلسلے شائع ہوتے ہیں جن کی مدد سے نہ صرف درست انگریزی لکھنے کی مشق کروائی جاتی ہے، بلکہ قارئین کو اپنے انگریزی ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ کرنے کی رغبت بھی دلائی جاتی ہے۔ نیز نامانوس انگریزی الفاظ کے مانوس انگریزی میں معانی بھی بتائے جاتے ہیں۔
صاحبو! ہمارا تو ’خامہ انگشت بہ دنداں‘ اور ’ناطقہ سر بہ گریباں‘ ہوکر رہ گیا ہے۔ انگریزی درست کرنے کی اِن کوششوں پر، یا انگریزی ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ کرنے کی اِن رغبتوں پر، یا نت نئے انگریزی الفاظ کے معانی و مطالب بتانے کے ان مستقل سلسلوں پر کسی کو ہنسی نہیں آتی۔ کوئی طنز کے تیر چلاتا ہے نہ ان کا مذاق اُڑاتا ہے۔ ’ڈان‘ والوں کو سمجھانے بُجھانے کے لیے کوئی ناصحِ مشفق اپنی تقریری و تحریری توانائیاں بھی صرف نہیں کرتا کہ ’جو جیسی انگریزی بولے اُسے بولنے دیجیے۔ داروغہ بن کر اُس پر مسلط ہونے کی کوشش نہ کیجیے‘۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ’ڈان‘ کو انگریزی زبان میں سمجھانا پڑے گا اور… ’اُردو بولی پائی نا، انگریزی بولی آئی نا‘۔
خیر، اب ہم کسی طرح سے اپنے ناطقے کا سر اُس کے گریبان سے نکالنے اور اپنے خامے کی انگشت اس کے دندان سے چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسے چُمکارتے، پُچکارتے اور ہُشکارتے ہیں کہ ’کب تک ضبط کروں میں آہ… چل مرے خامے بسم اللہ‘۔ لہٰذا:
دریں دریائے بے پایاں، دریں موجِ نشاط افزا
دل افگندیم بسم اللہ مَجریہا و مُرسٰہا
’غلطی ہائے مضامین‘ کے قارئین اور اردو زبان کے اکابر بلکہ ’اکابرین‘ کی طرف سے حوصلہ افزائی کے نتیجے میں ہمارے حوصلوں کی خوب افزائش ہوگئی ہے۔ ’کم کم سہی، بہار کے ساماں ہوئے تو ہیں‘۔ لوگ پوچھنے لگے ہیں کہ فلاں لفظ کا درست املا کیا ہے؟ یا فلاں لفظ کس موقع پر استعمال کرنا چاہیے۔ مثلاً کیا یہ جملہ ٹھیک ہے:’’اُن کے چہرے کی چمک اُن کی خوشی کی غمازی کررہی تھی‘‘۔ نہیں صاحب، ٹھیک نہیں ہے۔ ’غماز‘ کہتے ہیں چُغل خور کو، جاسوس کو، طعنہ زن کو، آنکھ سے اشارے کرنے والے کو۔ ’غمزہ‘ بھی محبوب کی چشم و ابرو کے اشاروں اور اداؤں کو کہا جاتا ہے۔ ’شترغمزہ‘ اونٹ کی اٹکھیلیاں یا اُس کی شوخی و چنچل پن ہے۔ مجازاً بے جا ناز و نخرے کو کہا جاتا ہے۔ ’غمازی‘ کا مطلب ہوا چغل خوری، جاسوسی اور طعنہ زنی وغیرہ۔ لہٰذا درست جملہ یہ ہوگا: ’’اُن کے لہجے کی لکنت اور چہرے کی گھبراہٹ اُن کی دروغ گوئی کی غمازی کررہی تھی‘‘۔ ملک کے ایک مؤقر روزنامے کے صحافی جو اپنے اخبار کے مقبول کالم نگار بھی ہیں، فون کرکے صحافت کی اُن انگریزی اصطلاحات کے اُردو متبادل دریافت کرلیتے ہیں، جو اُردو اصطلاحات کو بے دخل کرکے ہماری اُردو صحافت میں دخیل ہوگئی ہیں۔
ایک صحافی بھائی نے سوال کیا ہے:
’’اُردو صحافت کو آدھی انگریزی، آدھی اُردو سے کیسے نجات دلائی جائے؟ تمام اُردو اصطلاحات سے تو قارئین مانوس بھی نہیں‘‘۔
بالکل بجا فرمایا۔ نشریاتی طوفان نے قارئین کی سماعتوں پر انگریزی اصطلاحات کا ڈنکا اتنے تواتر سے بجایا ہے کہ اردو اصطلاحات اس کے ریلے میں بَہ گئی ہیں۔ لوگ سب کچھ بھول گئے ہیں۔ مگر کہیں سے توآغاز کرنا ہوگا۔ آغاز یہاں سے کیجیے کہ جو اردو الفاظ و اصطلاحات آج بھی جانی پہچانی اورسمجھی بوجھی ہیں ان کامقام انگریزی الفاظ کو نہ دیجیے۔ اردو جملے میں انگریزی اصطلاحات بے جگہ یعنی بے جا محسوس ہوتی ہیں۔ آسان اور عام فہم اردو اصطلاحات کی جگہ مغربی ذرائع ابلاغ کی اصطلاحات کو گھسیڑنا اَوگھٹ معلوم ہوتا ہے۔ مدتوں سے ہماری گلیوں اور ہمارے چوک چوراہوں پر گھوم پھر کر بیچنے والے اخبار فروش خریداروں کو متوجہ کرنے کے لیے آواز لگایا کرتے تھے: ’آج کی تازہ خبر…آج کی تازہ خبر‘۔ پڑھے لکھے اخبار فروش اُس روز کے اخبار کی کسی سنسنی خیز خبر کی سُرخی بھی چِلّا چِلّا کر سنایا کرتے تھے۔ ’تازہ خبر‘ کی مانوس اصطلاح کی موجودگی میں Breaking News کہنا کیوں ضروری ہے؟ اسی طرح Ticker انگریزی میں تو ’ٹِک ٹِک ‘ یا ’کھٹ کھٹ‘ کی آواز نکالنے والے کو کہتے ہیں۔ ہمارے اخبارات میں ’مختصر مختصر‘ کی اصطلاح پہلے بھی استعمال ہوتی رہی ہے اور اس اصطلاح سے ہر شخص مانوس ہے۔ ’خبروں کی جھلکیاں‘ بھی نامانوس اصطلاح نہیں ہے۔ صرف ’جھلکیاں‘ بھی لکھ سکتے ہیں۔
ایک خبر کی سُرخی ہے: ’’پنجاب کے چیف منسٹر نے ڈرگ ڈیلرز کے خلاف ایکشن لینے کا آرڈر دے دیا‘‘۔
اسی سُرخی کو اگر یوں لکھ دیا جائے کہ ’’وزیراعلیٰ پنجاب نے مُنَشّیات فروشوں کے خلاف اِقدام کا حکم دے دیا‘‘۔
تو کیا قارئین یا ناظرین کی سمجھ میں نہیں آئے گا کہ کس نے کیا کر دیا ہے؟
پہلا کام یہی ہونا چاہیے کہ جن انگریزی اصطلاحات کے اُردو متبادل عام اور عام فہم ہیں، اُن اصطلاحات کو قارئین پر بالجبر تھوپنے کے بجائے وہ الفاظ استعمال کیے جائیں جن سے اُن کے کان مانوس ہیں۔ ’اپوزیشن‘ کی جگہ حزبِ اختلاف، ’پرائم منسٹر‘ کی جگہ وزیراعظم، اور ’آرمی چیف‘ کی جگہ سپہ سالار کہنے میں کیا قباحت ہے؟ کچھ اصطلاحات کو خود ذرائع ابلاغ کے عدم استعمال نے نامانوس کر دیا ہے۔ مثلاً وقائع نگار، خبرنگار، نامہ نگار، خبر رساں اور خبر رساں ادارے وغیرہ۔ شہ سُرخی کو Headline کہنے سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟ اور اُردو میں پیش کی جانے والی ’خاص خاص خبروں‘ کو اگرHeadline Newsکہہ دیجیے یا ’خبرنامہ‘ کہنے کے بجائے News Bulletin کہا کیجیے تو اس سے کس کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے؟ محفلِ مذاکرہ کو آپ Talk Show کہہ کر خوش ہوتے ہیں اور اس کے درمیان میں اگر خبروں کا وقفہ کرنا پڑجائے تو اُس کو News Break بتایا کرتے ہیں۔وقفے کے بعد ملنے کو کہتے ہیں کہ ’پھر ملیں گے ایک Breakکے بعد‘۔
قصہ مختصر یہ کہ اگر آپ اُردو میں صحافت کرنا چاہتے ہیں تو اُردو ہی کے الفاظ کو اُردو سے بے دخل کردینے پر کیوں تُل گئے ہیں؟ اُردو کے قارئین اور ناظرین کے سروں پر نامانوس انگریزی الفاظ کی بمباری کی مہم کیوں چلا رہے ہیں؟ ’بمباری‘ پر یاد آیا کہ جن انگریزی الفاظ کو اُردو نے اپنے مزاج کے مطابق ڈھال لیا ہے، یا جن انگریزی الفاظ کو جوں کا توں قبول کرلیا ہے مثلاً ریڈیو، ٹیلی فون، ٹیلی وژن اور جج وغیرہ اُن سے تعارُض نہیں۔ اسی طرح اسمائے معرفہ کا بھی ترجمہ نہیں کیا جاتا۔ فیس بک کو ’کتاب چہرہ‘ اور ٹوئیٹر کو ’چہچہاتی چڑیا‘ کہنا ٹھیک نہیں۔
حاصلِ کلام یہ کہ اُردو صحافت کو آدھی انگریزی، آدھی اُردوکے دوغلے پن سے نجات دلانے کے لیے سب سے پہلے تو اپنی زبان سنبھالیے۔ اردو کے مانوس الفاظ کو بے دخل نہ کیجیے اور انگریزی کے نامانوس الفاظ کو دخیل نہ کیجیے۔ اردو میں صرف اور صرف انگریزی ہی کو فروغ دینے کی مسلسل اور متواتر کوششوں میں اپنا منہ ٹیڑھا نہ کیجیے۔ زبان سنبھالنے کے ساتھ ساتھ منہ بھی سنبھالیے۔ کیوں کہ انگریزی کی خاطر اُردو زبان میں ’تلخ نوائی‘ کا اظہار کرنے والوں کو خواجہ حیدر علی آتشؔ پہلے ہی یہ مشورہ دے چکے ہیں:
لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب؟
زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجے دہن بگڑا