٭لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا، جس میں چغل خور کے سوا کوئی مقربِ سلطان نہ ہوگا، اور بدکار کے سوا کسی کو عالی ظرف نہیں سمجھا جائے گا، اور انصاف پرور کے سوا کسی کو کمزور نہیں سمجھا جائے گا۔ اس زمانے میں لوگ زکوٰۃ کو تاوان سمجھیں گے اور صلہ رحمی کرکے احسان جتلائیں گے۔ عبادت اس لیے کریں گے کہ فضیلت میں دوسروں سے بالاتر سمجھے جائیں۔ چنانچہ جب وہ زمانہ آئے گا، تو حکومت عورتوں کے مشورے، لڑکوں کی امارت اور ہیجڑوں کی تدبیر پر عمل پیرا ہوگی۔
٭ اس انسان کی ایک رگ کے ساتھ گوشت کا ایک ٹکڑا لٹکا دیا گیا ہے جو اس کے اندر کی ہر شے سے زیادہ عجیب ہے، اور وہ ہے دل۔ اس سے حکمت کے سرچشمے بھی پھوٹتے ہیں اور خلافِ حکمت اضداد بھی، چنانچہ جہاں اسے امید کی کرن سجھائی دیتی ہے، وہاں لالچ اسے ذلیل بھی کردیتا ہے، اور اگر طمع اسے بھڑکاتا ہے تو حرص ہلاک کردیتی ہے، اور اگر ناامیدی اس پر غالب آجاتی ہے تو غم و اندوہ اسے موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔ اور جب غضب اس کے سامنے آتا ہے، تو پرہیز میں مشغول ہوجاتا ہے، اور اگر کسی مال سے مستفید ہوتا ہے تو دولت سرکش بنا دیتی ہے۔ اگر اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو بے صبری اسے رسوا کردیتی ہے۔ اگر فاقہ کے دانتوں میں جکڑا جاتا ہے تو بلا میں مشغول ہوجاتا ہے، اور جب بھوک تنگ کرتی ہے تو ناتوانی زمین گیر کردیتی ہے، اور اگر ضرورت سے زیادہ پیٹ بھر لیتا ہے تو بدہضمی بے چین کردیتی ہے۔ غرض ہر کمی بھی اس کے لیے مضر، اور ہر زیادتی بھی اس کے بگاڑ کا موجب ہے۔