وفاقی جامعہ اردو،بابائے اردو کے خواب کی خوفناک تعبیر

پاکستان جس طرح مسلمہ طور پر ایک نظریاتی مملکت ہے اور اس کے قیام کے پس پشت جہاں اسلام اس کی اصل و بنیاد ہے، وہیں اسلام کے ساتھ ساتھ اردو زبان بھی پاکستان کے قیام کی ایک بڑی محرک ہے، کہ اسلام کا پاکستان کے قیام اور مطالبے کی ایک بنیاد ہونا تو مسلمہ یا غیر متنازع ہے اور ہمیشہ سے ہے، لیکن واضح طور پر 1867ء میں جب ہندو قوم پرستی نے اردو زبان کی کھل کر مخالفت شروع کی، اور جسے دیکھ کر ہندوؤں کے عزائم و مقاصد اور کوششوں کے مقابلے میں سرسید احمد خان کا یہ اعلان کہ اب ہندوستان میں ہندو اور مسلمان ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، راقم الحروف اس اعلان کو تحریکِ پاکستان یا مطالبۂ پاکستان کی بنیاد سمجھتا ہے۔ چناں چہ اپنے اسی خیال کو ملحوظ رکھتے ہوئے راقم نے 1969ء میں اپنے ایک مطالعے کا آغاز بعنوان: ”تحریکِ پاکستان کا لسانی پس منظر“ برائے حصولِ سند ایم اے، شعبۂ اردو جامعہ کراچی میں کیا، اور اپنے اس خیال کو مزید وسعت دے کر اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ: ”تحریک ِ آزادی میں اردو کا حصہ“ (مطبوعہ انجمن ترقی اردو، کراچی1976ء اور مجلس ترقی ادب، لاہور، 2010ء) تحریر کیا اور قیام پاکستان کے پسِ پشت اور مسلمانوں کی تحریک آزادی و مطالبۂ قیامِ پاکستان میں اردو زبان کے کردار کو نمایاں کیا۔ دراصل اردو زبان کا دفاع اور اس کے لیے تاریخ کی طویل ترین جدوجہد بھی مسلمانوں کو مطالبہ پاکستان کے مرحلے تک لے آئی تھی، جو قیام پاکستان پر منتج ہوئی تھی۔ چناں چہ اردو زبان کا دفاع اور پھر اردو زبان و ادب کا فروغ اور وسعت و پھیلاؤ بھی مسلمانوں کا ایک بڑا مقصد رہا ہے جو پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان کی قومی زبان کے طور پر اعلانیہ تسلیم کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کے فروغ اور مسلمانوں کی قومیت کے استحکام کے لیے اردو کا مکمل نفاذ اور بطور ذریعۂ تعلیم اس کا رواج ہمارے مخلص و دردمند رہنماؤں اور قائدین اور جماعتوں اور اداروں کا مطمح ِنظر رہا، جن میں بابائے اردو مولوی عبدالحق پاکستان بننے سے پہلے ہی سے پیش پیش اور مستعد و سرگرم رہے۔
یہی پس منظر تھا کہ مخلص و مستعد رہنماؤں اور عوام کی ایک بڑی تعداد نے پاکستان کے قیام سے پہلے اور قیام کے فوری بعد ملک میں اردو کے نفاذ کی کوششیں شروع کردیں جن کے پس پشت قائداعظم کے واضح اعلانات اور مسلم لیگ کے عزائم و ارادے متحرک رہے جو قیام پاکستان سے پہلے ہی سے ظاہر ہونے لگے تھے۔ اس ضمن میں اردو ذریعہ ٔتعلیم کو ”انجمن ترقی اردو پاکستان“ کی پچاس سالہ جدوجہد اور بالآخر مولوی عبدالحق کی جانب سے ایک ”اردو یونیورسٹی“ کے قیام کے مطالبات نے واضح صورت اختیار کی، لیکن بدقسمتی سے قائداعظم کے انتقال اور ملک میں سیاسی بحرانوں اور قیادت کی تبدیلیوں نے اردو کے نفاذ اور ”اردو یونیورسٹی“ کے قیام کے ارادوں کو پس پشت ڈالے رکھا جو عوام کے مسلسل مطالبات کے نتیجے میں آخرکار 2002ء میں کراچی میں واقع ”اردو کالج“ کو ”اردو یونیورسٹی“ کی حیثیت دینے پر منتج ہوئی۔
مجھے اردو زبان کے مطالعے اور تصنیف و تالیف، اور ساتھ ہی اردو کے فروغ اور بطور قومی زبان نفاذ سے ہمیشہ سے ہی دل چسپی رہی ہے۔ میرے مذکورہ بالا دونوں مقالات میرے مذکورہ جذبات و خواہشات کے ترجمان کے طور پر دیکھے جاسکتے ہیں جو میرے زمانۂ طالب علمی کی ابتدائی یادگار ہیں۔ اسی ضمن میں کراچی میں قائم کردہ ”وفاقی اردو یونیورسٹی“ بھی میری خواہشات کے عین مطابق رہی ہے، جس کے بنیادی یا ابتدائی وجود ”اردو کالج“ کراچی سے میری اولین رسمی یا تدریسی وابستگی بحیثیت طالب علم 1963ء سے 1965ء تک انٹرمیڈیٹ کی تکمیل کے لیے رہی، لیکن پھر اُس وقت سے اب تک ایک نظریاتی و جذباتی وابستگی قائم ہے، اور یقین ہے کہ دم ِآخر تک قائم رہے گی۔ مذکورہ دو سالوں میں ”اردو کالج“ کا جو مثالی ماحول دیکھا اور جن اساتذہ سے اکتساب ِفیض کیا، اور اپنے موضوعات اورمضمون میں عالمی شہرت و وقعت کے حامل چند مثالی اساتذہ کی قربت نصیب رہی (جن کی علمی و تصنیفی خدمات کے تذکرے پر میرا ایک مضمون: ”مصنفین اردو کالج“، مطبوعہ ”قومی زبان“، کراچی، جولائی 1975ء، نیز مشمولہ:”پاکستانی زبان وادب،مسائل و مناظر“، مطبوعہ: الوقار پبلی کشنز، لاہور، 1999ء، اس حوالے سے شائقین کے لیے شاید پُرکشش ہو)، ان اساتذہ کے طفیل ”اردو کالج“ سے استفادے کے تعلق سے ایک فخر و انبساط کا جو احساس زندگی میں شامل ہوا، وہ اب تک باقی ہے۔ اس احساس کے پسِ پشت بابائے اردو مولوی عبدالحق سے ”انجمن ترقی اردو“ کی عمارات سے ملحق ایک عمارت میں 1962ء میں اپنے اسکول کے مشفق ترین استاد اقتدار احمد اکبر کی معیت میں ایک نوعمری کی متاثر کن سرسری سی ملاقات، پھر ”انجمن ترقی اردو“ سے ایک جذباتی تعلق اور ساتھ ہی کاغذ اور قلم کے ساتھ اس سے عملی وابستگی بھی شامل و کارگر رہی ہے، جو اب تک بھی ایک فاصلے کے ساتھ برقرار ہے۔ میری اولین اہم اور یادگار تصانیف بھی اس سے وابستہ قابلِ قدر و نامور بزرگوں کی سرپرستی کے سبب یہیں سے شائع ہوئیں۔
پھر میں نے ”انجمن ترقی اردو“ کے ایک دیرینہ خواب کے تحت ”اردو کالج“ کو خوشی خوشی یونیورسٹی بنتا بھی دیکھا، لیکن خوشیوں کے ساتھ ساتھ اسی دوران اندیشوں نے بھی گھیرا جو اَب تک گھیرے ہوئے ہیں۔ کیوں کہ یہ اندیشے کوتاہ نظر ذمے داروں اور نااہل انتظامیہ کی ذاتی اغراض، مفاد پرستی اور تنگ نظری کے باعث اس ”یونیورسٹی“ کا جو مقدر بنے ہیں ان سے لگتا ہے کہ یہ ”یونیورسٹی“ کبھی فراغ نہ پاسکے گی، کہ اب بھی جو ذمےدار اساتذہ یا ان کے منصب دار ہیں اُن کی اکثریت بھی ان ہی کے قماش سے تعلق رکھتی ہے، جسے نہ اپنی علمی واخلاقی حالت کے بہتر بنانے کا کوئی خیال ہے، نہ ”یونیورسٹی“ کا مفاد و معیار عزیز ہے، اور نہ ہی ان میں سے اکثریت وہ اہلیت و فضیلت رکھتی ہے جو یونیورسٹی کے اساتذہ میں ہونی چاہیے۔ اس لیے بصد افسوس کہ یہ ”یونیورسٹی“ اپنی موجودہ تعلیمی و علمی سرگرمیوں کے حوالے سے پچاس ساٹھ سال پہلے کے اپنے ”اردو کالج“ کی سی عزت و توقیر کی حامل بھی مجھے نظر نہیں آتی!
اپنے زمانہ ٔطالب علمی کے بعد سے اب تک میں ایک فاصلے ہی سے ”اردو یونیورسٹی“ کے قیام اور پیش رفت کو دیکھتا اور غیر مطمئن ہوتا رہا ہوں۔ بس موجودہ یہ تین سال کا عرصہ مجھے کچھ ایسا میسر آیا ہے کہ میں اس کا رکنِ سینیٹ نامزد ہوا اور اس کے اجلاسوں میں شریک رہا ہوں۔ لیکن اس کے سابقہ دور میں اس کی ”تلاش کمیٹی“ کے رکن کی حیثیت میں بھی شرکت کا موقع ملا تھا کہ جب وائس چانسلر کی تلاش کے مرحلے کو نہایت شفاف اور دیانت دارانہ طریقے سے ہوتا ہوا دیکھا اور اپنا ممکنہ کردار بھی ادا کیا۔ پھر اس کمیٹی کے منتخب کردہ وائس چانسلر الطاف حسین صاحب کی خواہش و فرمائش پر میں نے ”مسندِ بابائے اردو“ (Baba-e Urdu Chair)کے لیے ایک منصوبہ و خاکہ بناکر ان کی خدمت میں پیش کیا کہ اس مسند کو کیوں اور کن حدود وقیود اور کن شرائط پر قائم ہونا چاہیے، اور اس کی سرگرمیاں کیا ہوں اور اس مسند پر فائز شخص کو کن اہلیتوں اور فضیلتوں کا حامل ہونا چاہیے؟ یہ بہت عمدہ منصوبہ تھا، لیکن اس کی تکمیل کے لیے الطاف حسین صاحب کو موقع و مہلت نہ مل سکی کہ وہ اپنے ایسے ارادوں و منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچا سکتے۔ افسوس! بہرحال اس مسند کے لیے میرا پیش کردہ منصوبہ اور لائحہ عمل یقیناً وائس چانسلر کے دفتر کی فائلوں میں کہیں گُم ہوگا۔ یہ منصوبہ خود ایک صاحبِ بصیرت و روشن خیال شیخ الجامعہ ہی کا ہوسکتا تھا جو سامنے آیا، لیکن افسوس کہ یہ منصوبہ ناتمام رہ گیا۔
اس مذکورہ ”تلاش کمیٹی“ کے بعد حالیہ عرصے میں جو ”تلاش کمیٹی“ جامعہ کی سینڈیکیٹ نے وضع کی ہے اور سینیٹ نے منظور کی ہے، اس میں تو اساتذہ کی جانب سے ایسے اراکین بھی نامزد کیے گئے، جو محض لیکچرر اور اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت و اہلیت سے زیادہ کے نہ تھے، اور جو قطعی اس ”تلاش کمیٹی“ میں شامل نہ ہونے چاہیے تھے، لیکن شامل کیے گئے، چناں چہ اس کمیٹی کا ویسا ہی فیصلہ بھی سامنے آیا جیسا ممکن تھا کہ جس ”وائس چانسلر“ کا انتخاب عمل میں آیا اُن کے اوصاف چاہے کچھ رہے ہوں اور ان میں فضیلت کیا کچھ دیکھی گئی ہو، لیکن وہ اپنی سندی لیاقت میں محض ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، جب کہ شاید ہی قومی سطح کی کسی اور وفاقی یونیورسٹی میں کسی ”تلاش کمیٹی“ نے محض ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر کا اس اعلیٰ ترین منصب کے لیے انتخاب کیا ہو، اور اس کمیٹی کے سربراہ نے اس فیصلے پر صاد بھی کیا ہو! اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ اس کمیٹی کے سربراہ تعلیمی و تدریسی تجربہ خود ایسا نہیں رکھتے کہ اعلیٰ ترین تعلیمی منصب کا فیصلہ کرسکتے! لہٰذا طریقۂ کار ایسا رہا کہ سینڈیکیٹ نے اور مزید افسوس ناک صورت حال یہ بنی کہ سینیٹ نے بھی کمیٹی کے اس فیصلے پر صاد کیا! اس انتخاب سے اساتذہ کی اکثریت کی اہلیت و معیار اور ان کی باہمی گروہ بندی کی خباثتوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے! افسوس۔ اس صورتِ حال میں تو خود اس کمیٹی کے سربراہ کو اعتراض کرکے ان اراکین کو قبول کرنے سے انکار کردینا چاہیے تھا، بلکہ چانسلرصاحب کو مداخلت کرکے اس کے کیے ہوئےفیصلے کو روکنا یا کم از کم اس کی مذمت کرنی چاہیے تھی، جو نہ کی گئی۔ جب کہ میں نے اس فیصلے کو سینیٹ میں زیرغور لائےجانے پر شدید احتجاج کیا اورایک شدید احتجاجی خط اراکینِ سینیٹ اور چانسلر کی خدمت میں تحریرکرکے اس فیصلے کو رد کرکے سینڈیکیٹ میں بارِدیگر غور کی خاطر بھیجنے کی درخواست کی تھی، جو حسبِ توقع صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ جس کے نتیجے میں ”تلاش کمیٹی“ نے ناموزوں اراکین کی موجودگی میں بالآخرایک ایسوسی ایٹ پروفیسر وائس چانسلر کے تقرر کا فیصلہ کرلیا جواب حتمی مرحلے میں ہے!
ایک اور تلخ تجربہ مجھے بحیثیت رکن سینیٹ، سینییٹ کی وضع کردہ ”لائبریری کمیٹی“ میں شمولیت کے بعد ہوا جسے یونیورسٹی کے تینوں کیمپس میں واقع لائبریریوں کی حالت و کیفیت اور معیار کو جانچنا اور اپنی رائے دینا تھا، تاکہ ان میں ممکنہ بہتری لائی جاسکے۔ میری وابستگی کے عرصے میں محض ایک کراچی کے آرٹس کیمپس کی لائبریری کا معائنہ ممکن ہوا جو کمیٹی کے ایک دیگر رکن ڈاکٹر توصیف احمد خان کے ساتھ کیا، لیکن معائنہ کرکے مجھے نہایت منغض ہونا پڑا کہ ایک بڑے سے کمرے میں جو کاٹھ کباڑ کا منظر پیش کررہا تھا، جس میں نہ سلیقے سے الماریاں جمی تھیں، نہ ان میں کتابیں رکھی تھیں! کتابوں کو بھی جس حد تک دیکھا ان میں موضوعاتی ترتیب بہت نمایاں اور سائنٹفک نہ تھی۔ ایک بظاہر لائبریرین موجود تھے لیکن وہ پیشہ ور نہ تھے، بلکہ کسی کو یہ منصب عارضی طور پر دے دیا گیا تھا جو بظاہر مخلص تھے لیکن فنی تقاضوں اور ضرورتوں سے ناآشنا تھے، اور لگتا تھا کہ لائبریری ان کے قابو میں نہ تھی، اس لیے لائبریری اورکتابوں کی جمع و ترتیب کا کماحقہ کام وہ نہ کرسکے تھے۔ نہ کتابوں کی ترتیب کے لیے فنی تقاضے پورے کیے گئے تھے، نہ ان کی موضوعاتی تقسیم اور درجہ بندی ڈیوی کے مسلمہ اعشاریائی نظام کے تحت بہت سائنٹفک طریقے سے کی گئی تھی، یہاں تک کہ کیٹیلاگ کارڈ بھی شاید ساری کتابوں کے نہ بنے تھے۔ جب کارڈوں کے ایک دو باکس کو کھول کر دیکھا تو ان میں کارڈوں کے بجائے کچرا سا بھرا ہوا تھا۔ گویا لائبریری میں آنے اور استفادہ کرنے والے کبھی کارڈ دیکھتے ہی نہ ہوں، اور طلبہ تو ایک طرف شاید اساتذہ بھی لائبریری جانے اور استفادہ کرنے کو کارِ فضول ہی سمجھتے ہوں! پھر اس معائنے کے دوران میری نظریں اُن کتابوں کو بھی تلاش کرتی رہیں جو میں اپنے زمانہؑ طالبِ علمی میں دیکھتا رہا، لیکن اس دور کی کتابیں مجھے کہیں نظر نہ آئیں۔ گویا نکال باہر کردی گئیں یا فروخت و ضائع کردی گئیں! ان میں جامعہ عثمانیہ اور دارالترجمۂ عثمانیہ کی کتابیں اور تراجم بکثرت موجود تھے اور بہت قیمتی اور نادر و نایاب تھے، لیکن وائے افسوس!لائبریری کا یہ معائنہ میرے لیے اتنا تکلیف دہ اور افسوس ناک تھا کہ جس کی توقع نہ ہوسکتی تھی۔ کوئی معمولی سے معمولی اور خراب سے خراب لائبریری مجھے ایسی کہیں نظر نہ آئی تھی، جب کہ یہ صدرِ مملکت کے ماتحت ایک ”وفاقی یونیورسٹی“ کی لائبریری تھی! اسے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کے فرائض یا اس کی ترجیحات میں لائبریری کی قطعی کوئی حیثیت ہی نہیں رہی، اور لگتا ہے اس جانب کبھی کسی نے سوچا ہی نہیں تو توجہ کیا دیتے اور بہتری کیا لاتے!
بحیثیت رکن سینیٹ میری نظر میں اگرچہ امکانات اور توقعات کچھ ضرور تھیں لیکن یونیورسٹی کی فلاح و بہتری اور اصلاح و ترقی کی بابت میری وابستگی کے دوران نہ کوئی منصوبہ سینیٹ میں کسی طرف سے پیش ہوا، نہ ہی اس کے کسی اجلاس میں کبھی ایسا کچھ سوچا گیا۔ یہاں تک کہ یونیورسٹی کے قواعد و ضوابط کی فرسودگی کو ختم کرکے انھیں موجودہ تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے جو ایک کوشش سینیٹ کی جانب سے اراکینِ سینیٹ پر مشتمل ایک کمیٹی کی تشکیل کی صورت میں سینیٹ میں میرے زمانے میں دیکھنے میں آئی، اس کے قیام اور کارکردگی میں کچھ ایسے سقم سامنے آئے کہ جو کچھ کوشش اس ضمن میں مذکورہ کمیٹی نے سینیٹر ڈاکٹر جعفر احمد صاحب کی سربراہی میں بڑے ذوق وشوق سے انجام دی، وہ بوجوہ رائیگاں گئی!
یہ صورت حال اور اس صورت حال کی یہ نوعیت و کیفیت جو بحیثیت رکن سینیٹ میرے تجربے و مشاہدے میں آئی، وہ میری زندگی کے مایوس ترین تجربات میں اضافے کا سبب بنی ہے۔ میں اس یونیورسٹی سے اپنی ساری وابستگیوں اور اس سے متعلقہ ان سارے تجربات کی روشنی میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ واقعتاً یہ ”یونیورسٹی“ ایک ”سرکاری وفاقی یونیورسٹی“ کا احساس دلانے میں قطعی ناکام رہی ہے۔ اور اگر مجھ سے کوئی اس کا بنیادی سبب پوچھے اور مجھے بتانا ہو تو میں بلاتامل یہ عرض کروں گا کہ دراصل اس ”یونیورسٹی“ کے قیام کا فیصلہ، اگرچہ بہت صائب اور قومی تقاضوں اور قومی امنگوں کے مطابق تھا، لیکن اس کا قیام اور اس کی منصوبہ بندی و تیاری کسی ماہرانہ حکمت عملی، دیدہ وری اور روشن خیالی کے ساتھ نہیں ہوئی۔ ایک دیرینہ قومی مطالبے کے تحت یہ ”یونیورسٹی“ قائم تو کردی گئی لیکن ”اردو کالج“ ہی کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا جو بہت نامناسب فیصلہ تھا، اور بظاہر لگتا تھا کہ یہ اقدام بہ عجلت کیا گیا تھا۔ اس اقدام کے پسِ پشت جمیل الدین عالی صاحب بظاہر نمایاں اور پیش پیش رہے، اور کسی قانونی، علمی اور تعلیمی نسبتوں کے بغیر محض ”انجمن ترقی اردو“ کے کرتا دھرتا بنے رہنے کی وجہ سے ”یونیورسٹی“ کے قیام کے معاملات میں دخیل رہے، اس لیے ان کے پیش نظر کوئی ٹھوس علمی و تعلیمی منصوبہ شاید نہیں رہا، یا وہ اس کی اہلیت نہ رکھتے تھے، اس لیے انھوں نے جو ہورہا ہے ہونے دیا لیکن خود کو کوئی حیثیت دلانے میں سرگرم اور کامیاب رہے۔ چناں چہ ”یونیورسٹی“ کے نظم و نسق اور ہیئت و حاکمیت کی بابت خود پیش پیش رہ کر اس ”یونیورسٹی“ کو اپنے رجواڑے کا حصہ سمجھ کر اپنے فیصلے کرتے اور ان پر عمل درآمد کے لیے مُصر رہے۔ ایک عرصے تک وائس چانسلر جیسے عہدے پر ان ہی کے فیصلے لاگو ہوتے رہے اور وائس چانسلر وہی تعینات ہوتے رہے جو ان سے قریب یا مشاعروں میں ان کے شریک رہے۔ جناب اقبال محسن صاحب اور محمد قیصر صاحب دو مستثنیات میں رہے، یا ان کے بعد سید الطاف حسین صاحب کے دور تک کوئی خود کو اس منصب کا اہل ثابت نہ کرسکا تھا۔
مزید ستم یہ ہوا کہ ”اردو کالج“ کو یونیورسٹی کا درجہ دیتے ہوئے یونیورسٹی کی حکمت و تقاضوں کے مطابق اساتذہ کا نئے سرے سے تقرر کرنے کے بجائے ”اردو کالج“ کے اساتذہ ہی کو ”یونیوسٹی“ کے اساتذہ تسلیم کرلیا گیا جو قطعی مناسب نہ تھا، کہ صرف ایم اے، ایم ایس سی، بلکہ اکا دکا کے پی ایچ ڈی ہونے کا مطلب یہ نہ تھا کہ ان میں یونیورسٹی کا استاد ہونے کی اہلیت بھی موجود تھی اور انھیں یونیورسٹی کا استاد بھی تسلیم کرلیا جاتا! چناں چہ ”اردو یونیورسٹی“ میں علمی و تدریسی معاملات میں جس قدر بے وقعتی اور جتنے مسائل پیدا ہوئے اور اب تک ہورہے ہیں وہ بیشتر شاید ان اساتذہ ہی کے باعث ہیں، جن کی اصل و بنیاد اور شناخت ”اردو کالج“ ہی سے منسلک رہی ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اردو یونیورسٹی قائم کی جاتی تو اردو کالج سے یکسر الگ یا مختلف قائم کی جاتی، اور اردو کالج کو اس میں شامل نہ کیا جاتا۔ اور اردو کالج کے اساتذہ اگر لیے جاتے تو اُن شرائط کے ساتھ جانچ پرکھ کر لیے جاتے جو یونیورسٹی کے اساتذہ کے لیے یو جی سی یا ایچ ای سی کی طے کردہ اور ضروری اور مسلمہ ہیں۔ جب کہ یہاں ایسا نہ ہوا، اور محض کالج کی سطح و معیار کے اساتذہ کو قبول کرلیا گیا۔ چناں اب ایسی ہی سطح و معیار کے اساتذہ سینڈیکیٹ و سینیٹ کے رکن بھی بن جاتے ہیں، اور سلیکشن بورڈ اور وائس چانسلر کے لیے قائم ”تلاش کمیٹی“ کے رکن بھی بن کر خود 19-20 درجے میں رہ کر 21-22 درجے کے اعلیٰ مناصب کے لیے فیصلے کرکے یونیورسٹی کو اُس معیار پر لے جاتے ہیں جو محض عام کالجوں کا معیار ہوتا ہے۔ اس لیے فوری طور پر تو سینیٹ اور سینڈیکیٹ میں تشکیل پانے والی کمیٹیوں کے لیے قانون اور ضوابط میں یہ تبدیلی لائی جانی چاہیے کہ ان کمیٹیوں میں اساتذہ کی نمائندگی نہ ہو۔ یا اگر یہ ناگزیر ہو تو یہ لازم کیا جانا چاہیے کہ منتخب اساتذہ کی اہلیت ایک مکمل پروفیسر کے لیے ایچ ای سی کی مقرر کردہ اہلیت سے ہرگز کم نہ ہو۔ مزید یہ کہ اس یونیورسٹی کے اس وقت جو قوانین نافذالعمل ہیں وہ خاصے فرسودہ ہیں، اور آج کی جدید علمی و انتظامی ضرورتوں کے مطابق نہیں ہیں، جنھیں تبدیل کیا جانا ضروری ہے۔ یونیورسٹی کے کلیۂ سائنس کی تجربہ گاہوں اور تینوں کیمپس کے کتب خانوں کی اصلاح و بہتری کے لیے مناسب اقدامات کا اختیار کیا جانا بھی اشد ضروری ہے، کہ لگتا ہے خصوصاً کتب خانوں کی بہتری متعلقہ انتظامیہ کی ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہی۔ اس کوتاہی کی مذمت کی جانی چاہیے اور بہتری کے لیے اقدامات کی بابت منصوبہ سازی کی جانی چاہیے۔
ان کوتاہیوں اور کمزوریوں ہی کا سبب ہے کہ علمی و مطالعاتی میدانوں میں اس یونیورسٹی کا نام خود اس ملک کی معمولی سے معمولی یونیورسٹیوں کی صف میں بھی نظر نہیں آتا، اور نہ ہی یہاں سے ایسا کوئی علمی و تحقیقی مجلہ نکلتا ہے جس کو اپنے معیار کی مناسبت سے کوئی شہرت ملی ہو۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ سوال تو یہاں کے اُن اساتذہ کو خود اپنے آپ سے کرنا چاہیے جو طرح طرح کے احتجاجات اورمطالبات کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں، اور جو جلسے جلوسوں اور خطابات اور تقریروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور ہمیشہ اسی طرح نمایاں رہتے اور نمایاں رہنا چاہتےہیں۔
ان مذکورہ حالات اور اس صورت حال میں کہ یہ یونیورسٹی بابائے اردو مولوی عبدالحق کے خواب اور انجمن ترقی اردو کی کوششوں اور مقاصد کے مطابق نہیں، اس لیے اس کے انتظامی معاملات کو درست راہ پر لانے کے لیے جو بھی سنجیدہ و مخلصانہ اقدامات ممکن ہوں ضرور کیے جانے چاہئیں، لیکن آج اس یونیورسٹی کو وہ یونیورسٹی نہیں سمجھنا چاہیے جو بابائے اردو کا خواب تھی۔ جب کہ اردو زبان کے لیے بابائے اردو کی ساری عمر کی خدمات کا تقاضا ہے کہ ان کے ”اردو یونیورسٹی“ کے سو سالہ پرانے خواب کے مطابق موجودہ ”وفاقی اردو یونیورسٹی“ کو اس کے حال پر چھوڑ کر ایک علیحدہ نئی ”بابائے اردو یونیورسٹی“ کے قیام کی بابت سوچا جانا چاہیے اور جدید علمی و تعلیمی تصورات کے مطابق عین علمی و تحقیقی اور تعلیمی معیار کو پیش نظر رکھ کر نئی منصوبہ بندی کی جانی چاہیے، اور ایک متوازی ”بابائے اردو یونیورسٹی“ قائم کی جانی چاہیے، جو اس سلسلے کے سابقہ ناکام تجربے کے بجائے خلوصِ نیت کے ساتھ دراصل ایک مستعدانہ کوشش ہو، جو اپنی حیثیت و معیار کے مطابق ہمارے بزرگوں کا خواب اور ان کا ایک عین مقصدِ حیات تھی۔