میرے زرد رو ساتھی، خوف زدہ چہرے، جو لایعنی بحث میں الجھے ہوئے تھے، ان کے بیچ اچانک کھلبلی مچ گئی۔ ہم ایک بار پھر ایس ایس گارڈز کی ناگوار آواز سُن رہے تھے، جو چلّاچلّا کر ہمیں بڑے حمام کی طرف دھکیل رہے تھے۔ جب ہمیں ایک جگہ قطار میں کھڑا کردیا گیا تو ایک ایس ایس آفیسر نمودار ہوا اورحکم دیا کہ ’’دو منٹ میں سب مکمل طور پر بے لباس ہوجاؤ! جسم پر ایک بھی چیتھڑا باقی نہیں رہنا چاہیے! صرف جوتے اور بیلٹ یا پیٹی ساتھ رکھ سکتے ہو، باقی سب فرش پر ڈھیر کردو!‘‘ اور پھرگنتی شروع ہوگئی۔
ناقابلِ تصور عجلت کے ساتھ سب نے اپنے کپڑے تقریباً پھاڑ ہی ڈالے۔ جوں جوں وقت گزرا، قیدیوں کی گڑبڑاہٹ بڑھتی چلی گئی۔ بہت سے جوتوں کے تسمے، بیلٹوں، اور انڈروئیرز میں ہی الجھ کر رہ گئے، اور پھر ہمیں چمڑے کی چابک ننگے جسموں پر پڑتی سنائی دیں۔ اس کے بعد ہمیں ایک اور ساتھ والے کمرے میں کھدیڑ دیا گیا۔ وہاں ہماری شیوکی گئی، صرف سر پرہی استرا نہ چلا بلکہ جسم پر ایک بال بھی باقی نہ چھوڑا گیا۔ اس کے بعد ہمیں شاورز کے نیچے کھڑا کردیا گیا۔ اب ہم بہ مشکل ہی ایک دوسرے کو پہچان پارہے تھے۔ ایک عرصے بعد پانی کے قطرے پڑتے ہی بہت سے جسموں نے قدرے سکون محسوس کیا۔
جب ہم شاور کا انتظار کررہے تھے، کچھ وقت کے لیے سراپا برہنہ پن ہمیں گھروں تک لے گیا، ہمار ے پاس اب سوائے اس ننگے وجود کے کچھ نہ بچا تھا۔ ہماری ملکیت بس اب یہی وجود ِننگ تھا۔ زندگی کی کسی شے سے اب ہمارا کوئی تعلق باقی نہ رہ گیا تھا۔ تاہم میرے لیے چشمہ اور بیلٹ ابھی باقی تھے۔ بیلٹ کا سودا بھی کچھ عرصے بعد روٹی کے ایک ٹکڑے سے کرلیا تھا۔
جن کے پاس پیٹیاں تھیں، اس افتاد میں بھی اُن کے لیے یہ دلچسپی کا سامان تھا۔ شام میں ہمارے ہٹ کے انچارج سینئر قیدی نے خیرمقدمی تقریر میں حلفیہ دھمکایا کہ اگر کسی کی پیٹی میں سلا ہوا کوئی نوٹ یا قیمتی پتھر ملا تو اُسے اپنے ہاتھوں سے پھانسی دے گا۔ اُس نے پُرزور انداز میں جتایا کہ کیمپ کا قانون اُسے ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
جہاں تک ہمارے جوتوں کا معاملہ تھا، یہ اتنا سادہ نہ تھا۔ اگرچہ ہم انہیں اپنے پاس رکھ سکتے تھے، لیکن جن کے جوتوں کی حالت ذرا بھی بہتر تھی، انہیں ایسے جوتوں سے بدل دیا گیا تھا کہ جو پیروں میں پوری طرح آتے بھی نہ تھے۔
ایک اور مصیبت ان قیدیوں پر یہ آپڑی کہ سینئر قیدیوں کے مشوروں پر جوتوں کے اوپری حصے کو کئی جگہ سے کاٹ دیا کہ شاید اس طرح پیر پوری طرح جوتوں میں آجائیں، اور اس پر بدنمائی چھپانے کے لیے کٹے ہوئے کناروں پر صابن مَل دیا۔ ایس ایس گارڈز جیسے اُن کی اس حرکت کے انتظار میں تھے۔ ان تمام قیدیوں کو ساتھ والے چھوٹے کمرے میں لے گئے اور پھر ہم نے بہت دیر تک جسموں پر چابک پڑتے سنے، چیخیں سُنیں۔
یوں ایک ایک کرکے ہماری خام خیالیاں دم توڑتی چلی گئیں۔ پھر یکایک غیر متوقع طور پر ہماری اکثریت پر وحشت انگیز حسِ مزاح طاری ہوگئی۔ ہم جانتے تھے کہ اب سوائے وجودِ ننگ کچھ ہمارے پلے باقی نہیں رہا، اب اس حقیر وجود کے سوا کھونے کو کچھ نہیں بچا۔ جب ہم پر شاورز کھلے تھے، ہم بہ مشکل ہی خود سے یا ایک دوسرے سے کسی خوش مزاجی کا کوئی اظہار کرسکے تھے۔ اس وحشت انگیزی کے علاوہ بھی ایک سنسنی خیزی ہماری منتظر تھی۔ یہ ایک خاص قسم کا تجسس تھا۔ میں ذاتی طور پر اس تجسس کا تجربہ کرچکا تھا۔ یہ یقینی طور پر ایک انوکھی صورت حال پر پیدا ہونے والا بنیادی ردعمل تھا۔ ایک بار پہاڑ پر چڑھائی کے دوران جب میری جان خطرے میں پڑگئی تھی، مجھ میں یہ تجسس پیدا ہوا تھا کہ آیا میں اس صورت حال سے بچ پاؤں گا یا میری کھوپڑی پاش پاش ہوجائے گی؟ یا میں زخمی ہوجاؤں گا؟
آشوٹزکے ماحول پر ایک سرد مہر تجسس بھی طاری رہتا تھا، یہ کسی حد تک ذہن کو ماحول سے لاتعلق سا بھی کردیتا تھا۔ اسے کچھ لوگوں نے ایک قسم کی خارجیت(objectivity) بھی باور کیا۔ اُس وقت یہ ذہنی کیفیت ایک طرح کا احساسِ تحفظ معلوم ہوئی۔ ہم پریشان ہی رہتے تھے کہ اب آگے کیا ہوگا؟ اور آخرکار ان حالات کا کیا نتیجہ سامنے آئے گا؟
غرض، بہت انوکھے حالات سامنے آنے لگے۔ مثال کے طور پر خزاں کے آخری دنوں کی کھلی سرد فضا میں جب بالکل برہنہ، اور شاورز سے بھیگے ہوئے ہوتے تھے، اور سمجھتے تھے کہ سردی سے ہی مرجائیں گے، ہم پرگزرتے دنوں کے ساتھ ایک انکشاف ہوا جو تجسس سے تعجب میں ڈھل گیا، وہ یہ کہ ہمیں اب سردی نہیں لگ رہی تھی۔
یہاں حیران کردینے والی بہت سی باتیں اب بھی ہماری منتظر تھیں۔ ہمارے درمیان شعبہ طب سے متعلق جتنے لوگ تھے، سب نے ایک بات جو سب سے پہلے سیکھی وہ یہ تھی کہ: ’’نصاب کی کتابیں جھوٹ بولتی ہیں!‘‘ عموماً کہا جاتا ہے کہ آدمی نیند کے بغیر، یا مقرر گھنٹوں کی نیند کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، قطعی غلط ہے… میں یہاں اس بات کا قائل ہوا کہ کئی ایسی چیزیں ممکن ہیں جنہیںمیں اس سے قبل ناممکن سمجھتا تھا، جیساکہ میں فلاں چیز کے بغیر سو نہیں سکتا، فلاں چیز کے بغیر جی نہیں سکتا وغیرہ وغیرہ۔ آشوٹز کی پہلی رات ہم جن بستروں پر سوئے وہ ٹائر سے بنے ہوئے تھے۔ ہر ٹائر (تقریباً چھ بائی آٹھ فٹ کا تھا)۔ بستر پر 9 افراد سوئے ، 2 لحاف فی بستر دیے گئے ۔ ہم ایک دوسرے کے اندر سمٹ سمٹاکر صرف ایک ہی کروٹ بہ مشکل سوسکتے تھے، سو سوئے۔ مگر یہ صورت حال شدید ٹھنڈ میں غنیمت تھی۔ اگرچہ سونے کے تختوں پرجوتے لے جانا منع تھا مگر کچھ قیدیوں نے چھپ چھپا کرکیچڑ سے بھرے جوتے بطور تکیہ استعمال کرہی لیے۔ باقی لوگوں کے لیے تڑی مڑی کہنی ہی واحد تکیہ تھی۔آخر نیند آگئی اور چند گھنٹوں کے لیے اذیت سے جان چھوٹی۔
میں یہاں چند اور ایسی چونکا دینے والی باتوں کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ جن سے ہم گزرے: ہم اپنے دانت صاف نہیں کرسکتے تھے، یہ اور وٹامن کی شدید کمی کے باوجود ہمارے مسوڑے ہمیشہ سے زیادہ مضبوط ہوگئے تھے۔ ہم چھ چھ ماہ ایک ہی قمیص پہنے رہتے تھے، یہاں تک کہ وہ چیتھڑے بن جاتی تھی۔ (باقی صفحہ 41 پر)
کئی کئی روز ہم انہیں دھو بھی نہیں پاتے تھے، جس کی ایک وجہ جمے ہوئے پانی کے پائپ بھی تھے، اور مٹی میں کام اور گندگی سے پڑنے والی خراشیں اور لگنے والے زخم خراب نہ ہوتے تھے، پیپ نہ بہتی تھی، اِلاّ یہ کہ کسی کو فروسٹ بائٹ ہوجائے۔ وہ ذرا سی نیند جوکبھی برابر والے کمرے کی ذرا سی کھٹ پٹ سے خراب ہوجاتی تھی، اب کمر سے لگے قیدی کے خراٹوں سے بھی نہ ٹوٹتی تھی۔
اگر اب ہم سے کوئی پوچھتا کہ دوستوفسکی کا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ ’’انسان وہ ہستی ہے جوکسی بھی صورت حال میں گزارہ کرسکتا ہے‘‘؟ ہم جواب میں یہی کہتے کہ بالکل، دوستو فسکی نے درست کہا ہے، ’’آدمی کسی بھی صورت حال میں جی سکتا ہے، بس یہ مت پوچھنا کہ کیسے؟‘‘
(جاری ہے)