قدرت کا شاہکار ،انسانی مدافعتی نظام

غور کریں، کتنی چیزیں آپ کے اردگرد ہیں جو آپ کو بیمار کرنے کے درپے ہیں، بچوں کو تو خاص طور پر… جبکہ بچے کو ابھی اس بات کا پتا ہی نہیں کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا۔ ایسے میں قدرت کا شاہکار مدافعتی نظام بچے کو محفوظ رکھنے کے لیے کیا کیا جتن کرتا ہے، کس طرح حملہ آور دشمن جراثیم سے اس کو بچاتا ہے… اس پورے نظام کی معلومات آپ کو چونکنے پر مجبور کردیتی ہیں، اور بے اختیار انسان بول اٹھتا ہے ”سبحان تیری قدرت“۔
کبھی آپ نے سوچا انسانی جلد سب سے پہلی دفاعی لائن.. خشک اور ٹائٹ، جو عام طور پر کسی جرثومے یا ایسے مادے کو جسم میں داخل نہیں ہونے دیتی جو کہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔
پھر جسم کے وہ حصے جن کا رابطہ بیرونی دنیا سے ہے، وہاں پر موجود وہ چکنا مادہ (Mucus) جو ایسا ماحول وہاں رکھتا ہے کہ بیرونی جراثیم کا داخلہ بہت ہی مشکل ہے، پھر اس کے ساتھ ناک میں موجود بال اور پھیپھڑوں میں موجود وہ باریک دھاگے جو مسلسل حرکت میں رہتے ہیں، اور اگر کوئی جرثومہ داخل بھی ہوگیا تو اس کو پکڑ کر حلق تک لے آتے ہیں، جہاں سے اسے باہر نکال دیا جاتا ہے۔ اگر ان رکاوٹوں کے باوجود بھی جراثیم بچے کے جسم میں داخل ہوجائیں تو انسانی جسم میں موجود مختلف اقسام کے سیلز (Cells) ہیں جو کہ جسم کے مدافعتی نظام کا حصہ (Immune System) ہیں۔
یہ امیون سسٹم کیا ہے، اس پر تھوڑی بات کرتے ہیں۔
ہڈیوں میں موجود گودہ جس کو بون میرو (Bone Marrow) کہتے ہیں، انسانی جسم میں مدافعتی نظام کی تیاری کا ذمہ دار ہے۔ اس میں موجود اسٹیم سیل (Stem Cell) مختلف اقسام کے سیلز بناتے ہیں جو کہ بنیادی طور پر جسم میں دفاع کا کام کرتے ہیں، مثلاً خون کے سفید ذرات (WBC, Macrophages) اور دیگر اہم دفاعی فوج، جیسا کہ اینٹی باڈیز، Cells T، NK cells وغیرہ۔
بچے کو مدافعتی نظام اس کی ماں سے اینٹی باڈیز کی صورت میں ملتا ہے۔ یہ اینٹی باڈیز شروع کے چند مہینوں میں اسے جراثیم سے بچانے کا کام کرتی ہیں تاوقتیکہ بچے کا جسم اپنی اینٹی باڈیز اور دیگر مدافعتی نظام کے حصوں کو بنانے میں کامیاب ہوجائے۔
یہ جو ماں سے ملنے والا نظام ہے اس کو پیدائشی (Innate immunity) کہا جاتا ہے۔ مگر جوں جوں بچہ بڑھنے لگتا ہے اُس کا واسطہ مختلف اقسام کے جراثیم سے پڑتا ہے، جو اس پر ماحول، ہوا، غذا کے ذریعے حملہ آور ہوتے ہیں… اور جیسے جیسے بچہ مختلف اقسام کے جراثیم سے نبرد آزما ہوتا ہے اُس کے جسم میں موجود دفاعی نظام فعال ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
اس کو اس طرح سمجھتے ہیں کہ دفاعی نظام پولیس فورس کی طرح جسم میں مسلسل پیٹرولنگ پر مامور ہے۔ جہاں کسی نئے سیل کو دیکھا، فوری طور پر وہاں پہنچ کر اس کو پکڑ لیا۔ مثلاً Macrophages نےجسم میں پیٹرولنگ پر جراثیم کو شناخت کیا اور گرفتار کرلیا۔ ایسے ہی جسم میں WBC کام کرتے ہیں، جوں ہی کوئی بیکٹیریا نظر آیا یعنی دشمن… وہاں پہنچ کر اس کا گھیراؤ کیا، اور ساتھ ساتھ مدد کے لیے مزید نفری بلوا لی، جس کے نتیجے میں اس مخصوص جگہ پر بہت سارے WBC جمع ہوگئے یا Macrophages آگئے، اور جسم نے اپنا ردعمل بخار، سوجن، گرمی اور درد کی صورت میں ظاہر کرنا شروع کردیا۔ اب ایسے ماحول میں بیکٹیریا کہاں پنپ سکے گا! نتیجتاً بیکٹیریا ختم۔
مگر بیکٹیریا اگر بہت زیادہ تعداد میں پہنچ گئے اور ان کے نمبر بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں تو دفاعی نظام کمزور پڑ جاتا ہے، نتیجتاً بچہ بیمار۔
دوسرا دفاعی نظام حاصل کردہ امیونٹی (Adaptive immunity) ہے، یعنی کوئی جرثومہ جسم میں داخل ہوا اور جسم نے اس کو ختم تو کردیا مگر اس کے بارے میں معلومات اپنے سسٹم میں محفوظ کرلیں۔ اب جب کبھی دوبارہ وہ جرثومہ جسم میں داخل ہوگا تو سسٹم میں موجود وہ یادداشت اس کی بنیاد پر فوراً اپنا ردعمل دے گی اور بڑی مقدار میں اینٹی باڈیز پیدا کرکے اس جرثومے کو ختم کرنے کے لیے اپنا کام شروع کردے گی۔ اس قسم کے سیلز کو T cell کہا جاتا ہے، جس کی کئی اقسام ہیں اور ان کے مختلف کام ہیں۔ ویکسین جب بچوں کو لگائی جاتی ہے تو وہ اسی میموری سسٹم کی بنیاد پر کام کرتی ہے۔ ویکسین کی وجہ سے جسم اس بیماری کے بارے میں معلومات رکھتا ہے، اور جوں ہی وہ مخصوص بیماری جسم میں داخل ہوتی ہے، میموری سیلز اس کو یاد دلاتے ہیں کہ ہم پہلے بھی اس کے خلاف کام کرچکے ہیں، اس لیے فوری طور پر فورس کو باہر بھیجو تاکہ مقابلہ کیا جائے۔
ان دو بڑے سسٹم کے علاؤہ جسم میں ایک اور نظام بھی ہے جسے Lymphatic system کہتے ہیں۔ اس کے تحت ایک خاص قسم کا مادہ جسم سے مختلف جراثیم کو اپنے اندر سمو کر ختم کرتا رہتا ہے، اور یہ پورا نظام نوڈز (Lymph nodes) کے ذریعے چلتا ہے۔ یہ نوڈز پورے جسم میں ہر اہم جگہ موجود ہیں۔ جب ان تک وہ جراثیم پہنچتے ہیں Lymph کے ذریعے، تو یہ نوڈز ان جراثیم کی موجودگی میں سوج جاتے ہیں۔ دراصل یہ جراثیم کُش کا کردار ادا کررہے ہوتے ہیں۔
اگر آپ کو یاد ہو تو گلے کی خرابی میں ٹانسلز بڑھ جاتے ہیں جو کہ Lymph nodes ہیں۔ اس طرح کان کے انفیکشن میں کان کے پیچھے کے نوڈز اور ٹائیفائیڈ بخار میں پیٹ میں موجود نوڈز، جن کو Payers Patches کہا جاتا ہے۔ اسی لیے اکثر جب مائیں آکر پوچھتی ہیں کہ بچے کی گردن میں سر کے پچھلے حصے میں یہ کیا گلٹیاں سی بنی ہوئی ہیں تو ڈاکٹر چیک اپ کے بعد بتاتے ہیں کہ اگر نوڈز، گرم نہیں، سرخ نہیں، درد نہیں کرتے یا ان میں سے پانی نہیں نکلتا تو عام طور پر کسی انفیکشن کے جواب میں بڑھے ہیں جو خود ہی ٹھیک ہوجائیں گے، وغیرہ۔
انسانی جسم میں اسی مدافعتی نظام کا ایک اور خاص جزو سائٹوکائنز (Cytokines) کہلاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو مدد پہنچاتے مختلف اقسام کے یہ کیمیکلز جسم میں مدافعتی نظام کے تحت سگنلز بھیجنے اور جراثیم پر حملہ آور ہوکر ختم کرنے کا کام کرتے ہیں، کبھی کبھی یہ Cytokines ضرورت سے زیادہ فعال کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے جسم کے بہتر حصوں کو بھی نقصان پہنچا دیتے ہیں۔ اس قسم کے عمل یا ردعمل کو Cytokines Strom کہا جاتا ہے جس کا ذکر آپ نے کورونا کے مرض میں سنا ہوگا۔
بچوں میں چونکہ یہ عمل بڑوں کی نسبت کم ہوتا ہے اس لیے بچوں میں کورونا سے زیادہ نقصانات نظر نہیں آتے۔
یعنی اگر آپ غور کریں تو اللہ تعالیٰ کے اس شاہکار نظام میں کتنا ربط ہے… ایک دوسرے کی مدد کرتے سیلز مسلسل گردش میں رہتے ہیں تاکہ کسی قسم کےجراثیم بچ کر جانے نہ پائیں۔
اگر بخار بھی ہے تو وہ انسان کے لیے فائدہ مند ہے کہ جراثیم کی مجموعی افزائش کو سست کرتا ہے۔ اینٹی باڈیز جراثیم کے ساتھ جڑ کر ان کو ناکارہ بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔
حاصل کردہ امیونٹی (Adaptive immunity) کے ذریعے میموری سیلز ہزاروں جراثیم کو یاد رکھتے ہیں اور وقت پر فوراً ردعمل ظاہر کرکے ان کو ختم کردیتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ پورا نظام ”اپنوں“ اور ”غیروں“ کے درمیان تمیز عام طور ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے کام کرتا ہے۔ کبھی کبھی اپنے خلاف بھی، مگر کم کم۔
اب ایسے سسٹم کو قدرت کا شاہکار نہ کہیں تو کیا کہیں!
ہر بچے میں یہ نظام موجود ہوتا ہے۔ ابھی جب کہ وہ ماں کے پیٹ میں ہی ہوتا ہے مگر ماں کے نظام میں مداخلت نہیں کرتا، ماں سے قوت ِمدافعت پیدائش کے وقت لے کر آتا ہے اور اپنے نظام کو فعال کرکے اپنی قوتِ مدافعت خود بناتا ہے، مگر کوئی گڑبڑ نہیں ہوتی۔ کوئی اونچ نیچ عام طور پر نہیں ہوتی۔ سبحان اللہ العظیم