جماعت اسلامی پاکستان کے پُرعزم اور متحرک سیکرٹری جنرل جناب امیرالعظیم کا کہنا ہے کہ ہمارے خیر خواہ بار بار یہ سوال کرتے ہیں کہ جماعت اسلامی اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی جماعت ہے جو زمین پر اللہ کے دین کے نفاذ کے لیے 80 سال سے کوشاں ہیں، اس کی قیادت متوسط طبقے سے ہے، یہاں موروثیت بھی نہیں ہے، جماعت کی قیادت اور کارکنوں کا کردار بھی اجلا اور صاف ستھرا ہے، اس جماعت پر کرپشن کا الزام ہے نہ اس کا کوئی لیڈر نیب کو مطلوب ہے، اس کے باوجود یہ عوامی حمایت حاصل نہیں کرسکی یا عام پاکستانی اس کو ووٹ نہیں دیتے۔ایسا کیوں ہے؟ میرا جواب یہ ہے کہ جن کو لوگ ووٹ دیتے ہیں، جن کو عرفِ عام میں عوامی حمایت حاصل ہوتی ہے، وہ جو کام کرتے ہیں اگر ہم بھی وہی کام کرنے لگیں تو شاید انتخابی کامیابی تو ہمیں مل جائے، لیکن پھر ہمارے یہی بہی خواہ سوال کریں گے کہ آپ میں اور اُن میں کیا فرق ہے؟ جو وہ کرتے ہیں وہی آپ بھی کررہے ہیں۔ ہم اُن سے کہتے ہیں کہ ہمیں محض انتخابی کامیابی کے لیے ایسے کام کرنے کی ترغیب نہ دیں جس کے آپ خود ناقد ہیں۔ البتہ عوامی حمایت کے حامل، انتخابی معرکے سر کرنے والے الیکٹ ایبلز وہ کام کریں جو ہم کرتے ہیں، یا جن کی دعوت دیتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مقبول سیاسی جماعتوں کی جو بظاہر عوامی حمایت نظر آتی ہے وہ الیکٹ ایبلز کے سر ہے۔ یہ اِدھر سے اُدھر ہوجائیں یا ان کو اسٹیبلشمنٹ ایک پارٹی سے دوسری پارٹی کی طرف دھکیل دے تو پہلی جماعت کی حمایت دھڑام سے نیچے آگرتی ہے۔ اس اعتبار سے ہماری حمایت مستقل اور ٹھوس ہے۔
جناب امیرالعظیم نے یہ باتیں مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ لاہور میں بطلِ حریت سید علی گیلانی کے تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ تقریب کی صدارت ٹرسٹ کے چیئرمین جناب خالد محمود نے کی، اس تعزیتی ریفرنس سے آزاد جموں و کشمیر مسلم کانفرنس پنجاب کے صدر وحید الحق ہاشمی ایڈووکیٹ، گورنر پنجاب کے مشیر میاں وحید، کشمیری دانشور مرتضیٰ شبلی، لاہور ہائی کورٹ بار کے نمائندے چودھری نصیر احمد ایڈووکیٹ نے خطاب کیا، جبکہ معروف شاعر شہباز انور خان نے سید علی گیلانی کو منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا۔
جناب امیر العظیم نے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ سید علی گیلانی کشمیر ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں خصوصاً پاکستانی عوام کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔ انہوں نے بھارت کے تمام تر جبر کے باوجود کشمیر کی آزادی کی بات ببانگِ دہل کی۔ وہ اپنی جرأت اور جہدِ مسلسل کے باعث مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی آواز تھے۔ اُن کا یہ نعرہ پورے مقبوضہ کشمیر میں گونجتا تھا کہ ’’ہم سب پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے‘‘۔ انہوں نے اس جرم میں مجموعی طور پر 14 سال جیل کاٹی۔ اُن کے لیے ایک بڑی جیل (مقبوضہ کشمیر اُن کے لیے ایک جیل تھا) سے کسی چھوٹی جیل (کشمیر یا بھارت کے کسی علاقے کی جیل) میں جانا معمول تھا۔ وہ تین بار مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور بھارت کے زیر تسلط اس ایوان میں کشمیر کی آزادی اور الحاقِ پاکستان کی بات کرتے رہے۔ وہ گزشتہ اور موجودہ صدی کے آزادی کے ایک بڑے رہنما تھے اور ہمیشہ کشمیریوں اور پاکستانیوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔
آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس پنجاب کے صدر وحید الحق ایڈووکیٹ نے کہا کہ بھارت نے نہ صرف انہیں زندگی بھر ظلم و ستم کا نشانہ بنائے رکھا بلکہ مرنے کے بعد بھی بھارتی سورما خوف کے باعث ان کی میت بھی چھین کر لے گئے، لیکن علی گیلانی کی میت پاکستانی پرچم ہی میں سپردِ خاک ہوئی۔ مرتضیٰ شبلی نے علی گیلانی کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے دیپ جلاتے ہوئے بتایا کہ علی گیلانی کشمیر میں بے حد مقبول تھے، عوام ان کا احترام کرتے تھے اور جابر بھارتی حکمران ہمیشہ اُن سے خوف زدہ رہتے تھے۔ انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ کشمیر کو تو آزاد ہونا ہی ہے، اگر آزادی کے بعد کشمیریوں نے آزاد حیثیت میں رہنے کا فیصلہ کیا تو وہ ایک جمہوری انسان کے طور پر اس فیصلے کو قبول کرلیں گے لیکن خود پاکستان چلے جائیں گے۔
گورنر پنجاب کے مشیر میاں وحید نے کہا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہی نہیں بلکہ پاکستانی عوام کے دل بھی کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ علی گیلانی کشمیری عوام ہی نہیں پاکستانی عوام کے بھی مقبول لیڈر تھے۔ چودھری نصیر احمد ایڈووکیٹ اور ڈاکٹر طارق شریف نے سید علی گیلانی کے ساتھ لندن، دہلی اور جدہ میں اپنی ملاقاتوں کا احوال سنایا، جبکہ صدرِ مجلس خالد محمود نے کہا کہ کشمیر کے بارے میں، اُس کے مستقبل کے بارے میں پاکستانی عوام بہت سے سوالات کرتے ہیں، لیکن ہمیں سوال نہیں کرنے بلکہ ان کے جوابات دینے ہیں۔ ہمیں بطور قوم ان جوابات کے لیے تیار رہنا چاہیے اور کشمیر اور کشمیریوں کے لیے اپنے کردار پر غور کرنا چاہیے۔