امریکا کا ناکام ریاستوں سے کھلواڑ

نائن الیون کو دو عشرے گزرچکے ہیں۔ یہ اچھا موقع ہے کہ اُن اسباق پر غور کیا جائے جو امریکہ نے اِن سنگین واقعات سے سیکھے۔ نائن الیون کے بعد ایک تصور کو خوب پروان چڑھایا اور ابھارا گیا کہ امریکہ اور باقی دنیا کی سلامتی کو حقیقی خطرات اگر لاحق ہیں تو کمزور اور ناکام ریاستوں سے۔ اس متنازع تصور نے امریکہ کی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے تصورات کو بدل کر رکھ دیا۔ اس کے نتیجے میں امریکہ کے وسائل پس ماندہ و غریب ممالک کے معاملات بہتر بنانے اور انہیں زندگی کی بنیادی سہولتوں سے استفادہ کرنے کے قابل بنانے کے بجائے مزید خرابیوں کی افزائش میں کھپ گئے۔ امریکہ اور یورپ کو مل کر باقی دنیا کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے تھا جو کہ اُن کے لیے اخلاقی ذمہ داری کا درجہ رکھتا تھا، مگر اس کے بجائے عسکریت پسندی کو پروان چڑھانے پر دھیان دیا گیا۔ کئی خطوں میں جنگوں اور خانہ جنگیوں کی راہ ہموار کی گئی۔ اس کے نتیجے میں پس ماندہ و ناکام ریاستوں کے لیے کچھ کرنے کی گنجائش برائے نام بھی نہ بچی۔ اُن کی ترقی کے حوالے سے کچھ کرنا تو درکنار، انہیں بنیادی سہولتوں کی فراہمی بھی ممکن نہ رہی۔
2001ء کے موسمِ گرما کے دوران امریکہ واحد سپر پاور کی حیثیت سے انتہائی قابلِ رشک پوزیشن میں تھا۔ دور دور تک اس کا کوئی مدِمقابل دکھائی نہیں دیتا تھا۔ تب تک چین بھی اتنا مضبوط نہیں ہوا تھا کہ امریکہ اور یورپ کو کھل کر منہ دے سکتا۔ ایسے میں نیویارک کے ٹوئن ٹاورز کی تباہی اور امریکی محکمۂ دفاع (پنٹاگان) کی عمارت پر القاعدہ کے نام نہاد جاں بازوں کے حملوں نے امریکہ سمیت پوری دنیا کو چونکا دیا۔ یہ حملے بظاہر افغانستان کی سرزمین سے کیے گئے جو اُس وقت انتہائی پس ماندہ ممالک میں سے ایک تھا۔ نائن الیون کے واقعات نے امریکیوں کو پرل ہاربر پر جاپانیوں کے حملوں سے بھی زیادہ چونکادیا۔
جون 2002ء میں اُس وقت کے امریکی صدر جارج واکر بش نے اپنی پہلی نیشنل سیکورٹی اسٹریٹجی شائع کی جس کے ذریعے امریکہ کے پالیسی میکنگ حلقوں میں ایک نئی رائے ابھری کہ امریکہ کو اب فاتح ممالک سے زیادہ ناکام اور مفتوح ممالک سے خطرہ ہے۔ 2005ء میں شائع ہونے والی مشہور کتاب ’’دی پنٹاگانز نیو میپ‘‘ کے مصنف ٹامس پی ایم بارنیٹ نے لکھا کہ نائن الیون کے اثرات کے طور پر یہ سوچ ابھری کہ انتشار سے خطرات جنم لیتے ہیں۔
خطرات کے حوالے سے یہ نیا تصور بہت تیزی سے سرکاری حکام، صحافیوں اور تجزیہ کاروں میں مقبولیت کا حامل ہوگیا۔ جنوری 2002ء میں بین الاقوامی ترقی سے متعلق امریکی ادارے یو ایس ایڈ نے اعلان کیا کہ جب کسی ملک میں ترقیاتی عمل رک جاتا ہے اور ریاستی عمل داری کمزور پڑ جاتی ہے تب پیدا ہونے والے منفی اثرات متعلقہ خطے یا چند خطوں تک محدود نہیں رہتے بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ یو ایس ایڈ کے مطابق یہ اثرات مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ کمزور اور ناکام ریاستوں کی سرحدیں محفوظ نہیں رہتیں، وہاں سے دہشت گردی، سیاسی تشدد، خانہ جنگیاں، منظم جرائم، منشیات، وبائی امراض، ماحول کو لاحق بحران، پناہ گزینوں کا سیلاب اور بڑے پیمانے پر ترکِ وطن جیسی علتیں ایک دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔
صدر جارج واکر بش اور اُن کی انتظامیہ کی طرف سے پیش کیے جانے والے ناکام ریاستوں سے لاحق خطرات کے تصور کو دائیں اور بائیں دونوں بازوؤں میں خوب مقبولیت حاصل ہوئی۔ اپریل 2007ء میں ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار بارک اوباما نے اپنے پہلے کلیدی خطاب میں کہا کہ غریب، کمزور اور موثر حکمرانی سے محروم ریاستیں اب دہشت گردی، وبائی امراض اور خطرناک ہتھیاروں کی اسمگلنگ جیسے بین الاقوامی خطرات کو پروان چڑھانے والے علاقوں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔
ناکام ریاستوں سے ابھرنے والے بحرانوں کے نظریے کو بنیاد بناکر امریکہ میں صرف پالیسیاں تبدیل نہیں کی گئیں بلکہ اداروں کی تشکیلِ نو بھی ہوئی، اور بعض نئے ادارے بھی قائم کیے گئے۔ نائن الیون کے بعد امریکی محکمۂ خارجہ، محکمۂ دفاع، یو ایس ایڈ، انٹیلی جنس کمیونٹی اور دیگر وفاقی امریکی اداروں نے دنیا بھر میں اُن علاقوں کو نظر میں رکھنا شروع کیا جہاں حکمرانی کمزور یا برائے نام ہے۔ امریکی سفارت کاری، ترقیاتی عمل اور دفاعی پالیسیوں کے ذریعے ان کمزور اور جنگ سے تباہ حال ریاستوں کو مضبوط بنانے کی حکمتِ عملی تیار کی گئی۔ کہنے کو یہ بہت اچھا عمل تھا مگر اس کے نتائج خاصے مایوس کن نکلے۔
افغانستان اور عراق پر لشکر کشی کے بعد ان دونوں ممالک میں اداروں کو پروان چڑھانے اور مضبوط بنانے کا عمل امریکی پالیسی میکرز اور حکمتِ عملی تیار کرنے والوں کے اندازوں سے کہیں زیادہ دشوار ثابت ہوا۔ امریکی محکمۂ دفاع کی پالیسیوں نے ثابت کیا کہ افغانستان اور عراق جیسے ممالک کو ترقی اور استحکام سے ہم کنار کرنے کی تمام کوششوں کا مدار اگر دفاعی صلاحیتوں پر ہوگا تو مطلوبہ نتائج کبھی یقینی نہیں بنائے جاسکیں گے۔
ناکام ریاستوں سے عالمی امن و استحکام کو لاحق خطرات سے متعلق نظریہ اس لیے تیزی سے مقبول ہوا کہ امریکہ اور یورپ کے لیے نائن الیون کے بعد کے ماحول میں اپنے دشمنوں سے نمٹنے کا اور کوئی معقول راستہ نہ تھا۔ کسی بھی طاقتور ریاست کو چیلنج کرنے میں بہت سے خطرات لاحق ہوسکتے تھے۔ کمزور ریاستوں کے ساتھ بہانہ بناکر کچھ بھی کیا جاسکتا تھا، کیونکہ ان ریاستوں میں جوابی کارروائی کی سکت برائے نام بھی نہ تھی۔
میں نے 2011ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’’ویک لنکز: فریجائل اسٹیٹس، گلوبل تھریٹس ان انٹرنیشنل سیکیورٹی‘‘ میں لکھا تھا کہ ناکام ریاستوں سے لاحق خطرات کے تصور کی بنیاد پر شروع کی جانے والی مہم جوئی کو تحریک دینے والے تمام مفروضے غلط یا غلط اندازوں پر مبنی تھے۔ بعد میں رفتہ رفتہ یہ ثابت ہوا کہ ریاستوں کی کمزوری اور بین الاقوامی سطح پر ابھرنے والے خطرات کے درمیان تعلق کچھ زیادہ مضبوط نہیں، یا اندازوں سے کہیں کم ہے۔
عمومی طور پر کہیے تو اداروں کی طاقت کے اعتبار سے دنیا کی کمزور ترین اقوام بین الاقوامی سطح پر پائے جانے والے خطرات کا بنیادی مآخذ نہیں ہیں، اور اس کا سبب یہ ہے کہ یہ اقوام باقی دنیا سے زیادہ اور عمدگی سے جُڑی ہوئی نہیں ہیں۔ غیر ریاستی عناصر اِن اقوام کے ذریعے منظم طریقے سے اور بڑے پیمانے پر تسلسل کے ساتھ کچھ نہیں کرسکتے۔ ہاں، کبھی کبھی کوئی ایسی صورتِ حال پیدا ہوجاتی ہے جس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی بڑی واردات کردی جاتی ہے، کسی بڑے دشمن کو بڑے پیمانے پر نقصان سے دوچار کردیا جاتا ہے۔ صومالیہ میں القاعدہ کی کارکردگی اس بات کا ثبوت ہے کہ مکمل ناکام ریاستوں کے مقابلے میں انتہا پسندوں کے لیے ایسے ممالک زیادہ پُرکشش ہیں جہاں مالیاتی استحکام ہو، معیشت بہتر انداز سے کام کررہی ہو، اور ریاستی ادارے مجموعی طور پر مستحکم ہوں۔ ایسے میں حکمرانی کے حوالے سے پائے جانے والے چند ایک سقم ان انتہا پسند گروپوں کے لیے زیادہ کام کے ثابت ہوتے ہیں، جن کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ اپنا کام کر گزرتے ہیں۔ صومالیہ کے مقابلے میں اُس کے پڑوس میں واقع کینیا زیادہ کام کا نکلا۔ علاوہ ازیں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جہادی عناصر کو کمزور اور ناکام ریاستوں کے مقابلے میں بڑے، طاقتور اور منظم ممالک میں محفوظ ٹھکانے زیادہ آسانی سے میسر ہوتے ہیں۔ ان میں فرانس، جرمنی اور اسپین کے علاوہ خود امریکہ بھی شامل ہے۔
بہت سے ماہرین کا یہ خیال ہے کہ کمزور اور ناکام ریاستیں وبائی امراض کے حوالے سے پوری دنیا کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں۔ یہ بات وہ اس بنیاد پر کہتے ہیں کہ ان ممالک میں صحتِ عامہ کا انتہائی پس ماندہ معیار باقی دنیا کو بھی یوں لپیٹ میں لیتا ہے کہ ان ممالک کے لوگ سفر کرکے بیماریاں پھیلاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کمزور ممالک اپنے ہاں صحتِ عامہ کا قابلِ رشک معیار یقینی بنانے میں ناکام رہتے ہیں۔ شہریوں کی صحت برقرار رکھنے کے حوالے سے معقول یا مطلوب سرمایہ کاری نہیں ہوپاتی، اور کسی بیماری یا وباء کے پھوٹ پڑنے کی صورت میں اُس کی نگرانی اور تدارک دونوں ہی معاملات میں کچھ زیادہ کرنے کی گنجائش پیدا نہیں ہوپاتی۔ ایسی ریاستوں کے بارے میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ یہ باقی دنیا کو شدید خطرات سے دوچار رکھتی ہیں۔ حقیقت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 2014ء اور 2016ء کے دوران مغربی افریقا میں تباہی پھیلانے والی ایبولا کی وباء لائبیریا، گنی اور سیرالیون میں پیدا ہوئی، مگر حقیقت یہ ہے کہ کورونا وائرس کی وباء، 2003ء میں سارس کی وباء، اور 2009ء میں ایچ ون این ون کی وباء کا ریاستوں کے کمزور ڈھانچوں سے کوئی تعلق نہ تھا جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے۔ کورونا وائرس چین میں پیدا ہوا جو کسی بھی اعتبار سے کوئی کمزور ریاست نہیں۔ اس وباء نے امریکہ اور برطانیہ دونوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے، جبکہ ان دونوں کو بھی کسی اعتبار سے کمزور ریاستیں قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مغرب میں کسی وباء کے پھوٹنے کی صورت میں بھرپور تیاری کی حالت پائی جاتی ہے، کیونکہ صحتِ عامہ کا عمومی معیار بھی اتنا بلند ہے کہ باقی دنیا میں اس کا تصور بھی مشکل ہے۔
یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ نائن الیون کے بعد کمزور ریاستوں کو عالمی امن کے لیے لاحق خطرات کی کھیتی قرار دینے کا تصور انتہائی بے بنیاد تھا، اور یہ بے بنیاد تصور امریکہ کو کئی خطوں میں امن و سلامتی اور ترقی و خوش حالی کا انتہائی بنیادی فریضہ انجام دینے سے دور رکھنے کا سبب بنا۔ سوچ بدلی تو امریکہ میں وسائل کو نامناسب انداز سے خرچ کرنے کا رجحان بھی پیدا ہوا۔ اکیسویں صدی میں امریکہ کو جن بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ان سے امریکی پالیسی میکرز کی توجہ ہٹ گئی۔ امریکہ کو ایک طرف تو چین اور دیگر ابھرتی ہوئی ریاستوں سے شدید نوعیت کے اسٹرے ٹیجک خطرات لاحق تھے اور دوسری طرف ماحول کو پہنچنے والے نقصان کے تدارک کے حوالے سے بھی بہت کچھ کرنا تھا جو نہ کیا جاسکا۔
جارج واکر بش اور بارک اوباما دونوں ہی کا یہ خیال تھا کہ چین اور روس کو رفتہ رفتہ اس نظام کا حصہ بنایا جاسکتا ہے جس میں مرکزی حیثیت امریکہ کی ہے اور تمام بنیادی فیصلے اُسی کی مرضی سے ہوتے ہیں۔ امریکی پالیسی میکرز کا یہ خیال تھا کہ چین اور روس کو اپنی مرضی کے نظام کا حصہ بناکر امریکہ کمزور ریاستوں اور خطوں کو دبانے کے حوالے سے اپنی پالیسی پر بخوبی عمل کرتا رہے گا اور اپنی طاقت میں اضافہ کرتے رہنے کی پوزیشن میں رہے گا۔
بارک اوباما کی دوسری میعادِ صدارت کے اختتام تک یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ چین اور روس عالی نظام کے حوالے
سے امریکہ کے تصور کے حامی نہیں۔ انہیں ساتھ ملانے کی امریکہ کی کوششیں ناکام ہوچکی تھیں۔ دونوں ہی کی یہ خواہش شدت اختیار کرچکی تھی کہ انہیں علاقائی اور عالمی سطح پر زیادہ نمایاں حیثیت دی جائے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے حصے میں کمی چاہتے تھے۔
افغانستان سے امریکہ کا انخلا اس بات کا مظہر ہے کہ ناکام ریاستوں کے حوالے سے امریکہ اپنی رائے سے رجوع کرچکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیشتر ناکام ریاستوں کی ناکامی کا بنیادی سبب آمریت پر مبنی نظامِ حکمرانی ہے، مگر اس کے باوجود یہ تصور غلط ثابت ہوچکا ہے کہ دنیا کو کمزور ریاستوں سے خطرات لاحق ہیں۔
………
WPR
The U.S. Obsession With Failed States After 9/11 Was a Costly Distraction
Stewart M. Patrick Monday, Sept. 13, 2021