یورپین یونین سےعلیحدگی برطانوی معیشت پر شدید دباؤ میں

پوری دنیا میں جہاں بھی غیر ملکی باشندے جاتے ہیں وہاں ان کو زیادہ تر ناپسند کیا جاتا ہے، خاص طور پر برطانیہ میں ان کو معیشت پر بوجھ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ برطانیہ کا ایک عرصے تک آدھی دنیا پر تسلط ہے، جس کی وجہ سے ان کے اندر ایک خاص قسم کا تکبر ہے جو کہ ان کے اندر نسلی تفاخر کو جنم دیتا ہے۔ اسی وجہ سے یورپین یونین سے الحاق برطانیہ نے اپنی چند شرائط کے ساتھ کیا تھا، جس میں الگ کرنسی یعنی پاؤنڈ کی حیثیت برقرار رہے گی،اور یورپین یونین کا ویزا ”شین جن“ برطانیہ کے لیے کارآمد نہیں ہوگا۔ کچھ ہی عرصے بعد برطانیہ کی اس نسلی تفاخر کی عادت نے ان کے اندر ایک احساسِ محرومی کو جنم دیا جس کی بنیاد پر دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے الزام عائد کیا کہ یورپین یونین سے الحاق کی وجہ سے برطانوی معیشت دباؤ کا شکار ہے، اور برطانوی عوام کی بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے، مقامی لوگوں کی دولت میں کمی آرہی ہے، اور اجڈ، جاہل، گنوار لوگ مشرقی یورپ سے آکر ہماری معیشت اور معاشرے کو تباہ کررہے ہیں۔ ان نعروں کی بنیاد پر برطانیہ نے ایک ریفرنڈم کروایا، جس میں اس بات کا ووٹ مانگا گیا تھا کہ آپ یورپ کے ساتھ الحاق کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، یا پھر علیحدگی؟
23 جون 2016ء کو ہونے والے اس ریفرنڈم کے نتائج کے مطابق 51.9 فیصد نے یورپین یونین سے علیحدگی، اور 48.1 فیصد نے یورپین یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں رائے دی، اور یوں جمہوری اصولوں کے مطابق کثرتِ رائے (قطعی اکثریت نہ ہونے کے باوجود) سے فیصلہ یورپین یونین سے علیحدگی کے حق میں ہوگیا، جس پر برطانیہ میں جشن منایا گیا، لیکن ایک بڑی تعداد (تقریباً نصف) اس فیصلے کے خلاف رہی۔ یہ بڑی اہم بات ہے کہ مہاجروں کی بڑی تعداد جو کہ یورپین یونین کے علاوہ آکر برطانیہ میں آباد ہوئی ہے، اس نے بھی یورپین یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ ڈالا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اس سے ان کے ممالک سے.. جو کہ یورپین یونین کے علاؤہ ہیں.. افراد کے امکانات بڑھیں گے۔ برگزٹ یعنی یورپین یونین سے اخراج کا گوکہ فیصلہ عوامی سطح پر تو 23 جون 2016ء کو ہوگیا لیکن اس پر عمل درآمد کرنا حکومت کی ذمہ داری تھی کہ جس کو یورپین یونین سے علیحدگی کے معاہدے کو بھی حتمی شکل دینی تھی۔ یہ معاملہ اس قدر پیچیدہ اور نازک تھا کہ اس ڈیل کو کرنے میں دو برطانوی وزیراعظم عہدے سے فارغ ہوگئے، اور بالآخر موجودہ وزیراعظم بورس جانسن نے اس ڈیل کو حتمی شکل دی۔ لیکن اصل مسئلہ تو یورپین یونین سے اخراج کے بعد شروع ہوا۔ وہ یورپی باشندے جو اپنے ملک سے تلاش روزگار کے لیے برطانیہ آئے تھے اُن کو اختیار دیا گیا کہ وہ اگر برطانیہ میں رہنا چاہیں تو ان کو برطانوی شہریت دی جائے گی۔ لیکن ان کی اکثریت نے اپنے ممالک میں واپس جانے کو ترجیح دی۔ یہ افراد برطانوی معیشت کا ایک بڑا حصہ تھے اور لازمی خدمات میں امور سر انجام دیتے تھے۔ ان کے واپس جانے سے برطانوی معیشت شدید دباؤ کا شکار ہے۔ اس وقت برطانیہ میں گیارہ لاکھ ملازمتیں خالی ہیں کہ جہاں فوری طور پر ملازمین کی ضرورت ہے۔ صرف شعبہ صحت میں ایک لاکھ گیارہ ہزار ملازمتیں خالی ہیں۔ کیئر ورکرز کی شدید ضرورت ہے کہ جو بزرگوں کا خیال ان کے گھر میں یا پھر نرسنگ ہوم میں رکھ سکیں۔ ڈرائیوروں کی قلت آہستہ آہستہ برطانوی معیشت کو بٹھا رہی ہے۔ پورے برطانیہ میں اس وقت ٹرک ڈرائیوروں کی شدید ترین قلت ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء موجود ہونے کے باوجود ان کی اسٹورز تک ترسیل نہیں ہو پارہی، جس کی وجہ سے اسٹورز خالی ہورہے ہیں۔ گوکہ یہ بحران ابھی پوری شدت سے نہیں آیا، لیکن آئندہ تین ماہ میں یہ عروج پر ہوگا۔ ٹرانسپورٹ کی قلت کی وجہ سے کرائے بڑھ رہے ہیں، جس کا لامحالہ نقصان بنیادی صارف کو ہورہا ہے اور مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے۔ برطانیہ کی فوڈ چین سے وابستہ تنظیموں کی انجمن نے گزشتہ دنوں مشترکہ طور پر برطانوی حکومت سے اپیل کی کہ ٹرک ڈائیوروں کے بحران سے نمٹنے کے لیے پورپین یونین کے افراد کے لیے ایک سال کا ایمرجنسی ورک ویزا جاری کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی ٹرک ڈرائیوروں کے لائسنس کے حصول کے ٹیسٹ کو آسان بنایا جائے تاکہ لوگوں کو ملازمتیں دی جاسکیں۔ اس بحران کی شدت اتنی ہے کہ ٹرک ڈرائیوروں کو کمپنیاں 85 ہزار پائونڈ سالانہ تک تنخواہ دینے کو تیار ہیں جوکہ تنخواہ کی ایک انتہائی بلند سطح ہے، لیکن ڈرائیور تاحال ناپید ہیں۔ اس ضمن میں گزشتہ ہفتے برطانوی حکومت نے کچھ پیش رفت کی ہے اور ٹرک ڈرائیوروں کے لائسنس کے حصول کے لیے قوانین میں پانچ ترامیم کرکے اس کے حصول کو مزید آسان بنایا گیا ہے۔ لیکن تاحال اس کا اثر نظر نہیں آرہا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ یورپین یونین کے مزدور اب شاید اس غیر یقینی صورت حال میں برطانیہ کا دوبارہ رخ کرنے کو تیار نہیں۔ یہی صورت حال محکمہ صحت کی بھی ہے کہ جہاں ڈاکٹروں سے لے کر نرسنگ اسٹاف تک کی شدید ترین قلت ہے، اور اب یہ بحران سنگین صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے حکومت نے ملازمتوں کے قوانین اور ویزا کے حصول میں کچھ نرمی کی ہے۔ (باقی صفحہ 41پر)
اسی طرح برطانوی مزدوروں کا ایک بڑا حصہ انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس پر مشتمل ہوتا ہے، جوکہ یہاں تعلیم کے دوران اپنے اخراجات اور فیس کے لیے ملازمتیں کرتے ہیں۔ اس ضمن میں برطانوی حکومت نے ان افراد کو تعلیم کے بعد روکنے کے لیے دو سالہ پوسٹ اسٹڈی ورک ویزا کا پروگرام دوبارہ شروع کردیا ہے تاکہ برطانوی معیشت کو مزید کچھ افراد میسر آسکیں۔
برطانیہ اپنی تاریخ کے ایک بدترین بحران سے گزر رہا ہے، اس سے یہ کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں، یہ ایک سوال ہے۔ لیکن جو سبق برطانوی عوام نے اس سے حاصل کیا وہ یہ ہے کہ جن کو وہ برطانوی معیشت پر بوجھ تصور کرکے نکال دینا چاہتے تھے، اور بالآخر نکال دیا، وہی ان کی معیشت کا پہیہ چلا رہے تھے۔ پوری دنیا میں مہاجروں کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے، لیکن ان کی وجہ سے پیدا شدہ معاشی ترقی اور مواقع پر گفتگو نہیں کی جاتی۔ برطانوی معیشت کا ایک بڑا حصہ اب بھی ان غیر ملکی آبادکاروں یا مہاجرین پر ہی انحصار کرتا ہے جوکہ برصغیر، یورپ اور دیگر ممالک سے آئے ہیں۔ اگر ان کو بھی نکال دیا جائے تو برطانیہ اور اس کی معیشت کے غبارے کی ہوا چند دن میں ہی نکل جائے گی۔