جموں وکشمیر کونسل برائے انسانی حقوق نے 13 ستمبر سے یکم اکتوبر تک منعقد ہونے والے اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے اڑتالیسویں اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں محصور آزادکشمیر کی خواتین کی حالتِ زار سے متعلق ایک رپورٹ جمع کرائی ہے۔ یہ دستاویز ہیومن رائٹس کونسل کے ایجنڈا آئٹم تین کے تحت جمع کی گئی ہے۔ یہ شق انسانی حقوق کے فروغ اورتحفظ سے متعلق ہے۔ اس رپورٹ میں اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ہیومن رائٹس کونسل اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق یہ معاملہ بھارت کے سامنے اُٹھائیں۔ اس معاملے میں انٹرنیشنل کمیٹی فار ریڈ کراس سے مدد لینے کے علاوہ دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن سے بھی تعاون لیا جائے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں پھنسی ہوئی خواتین کو پاکستان واپس لوٹنے کے لیے عارضی سفری دستاویزات فراہم کی جاسکیں۔
جموں وکشمیر کونسل برائے انسانی حقوق لندن میں مقیم معروف کشمیری دانشور، صحافی اور قانون دان ڈاکٹر سید نذیر گیلانی کی سربراہی میں قائم تنظیم ہے، جو تین دہائیوں سے اقوام متحدہ میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف بھرپور جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے، اور اس حوالے سے اقوام متحدہ میں کئی تاریخی دستاویزات جمع کرائی گئی ہیں جن میں بھارتی فوج کی کارستانیوں سے دنیا کو باخبر رکھا گیا ہے۔
آزادکشمیر کی مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں سے بیاہی جانے والی خواتین مقبوضہ کشمیر میں شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ ان خواتین کے لواحقین آزادکشمیر میں پریشانی اور اضطراب کا شکار ہیں، جبکہ یہ خواتین اپنوں سے بچھڑ کر کئی بیماریوں اور سماجی مسائل کا شکار ہوچکی ہیں۔ یہ خواتین آئے روز سری نگر کی گلیوں میں اپنے حقوق کے لیے احتجاج کررہی ہیں، مگر بھارتی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ تنازع کشمیر سے جڑی ہوئی ایک نئی المناک کہانی اور جہت ہے۔ جموں وکشمیر کونسل برائے انسانی حقوق نے اس موقع پر ان مظلوم خواتین اور ان کے مسائل زدہ عزیر واقارب کے دکھ کو سمجھتے ہوئے اِسے انسانی حقوق سے متعلق دنیا کے سب سے بڑے فورم پر اُٹھایا ہے، جس سے ایک بار پھر یہ امید بندھ چلی ہے کہ یہ خواتین مسائل کے بھنور سے نکل آئیں گی۔
اس وقت آزادکشمیر اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی 350 سے400خواتین مقبوضہ کشمیر میں ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے قیدی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ ان خواتین کا شمار Stateless citizensیعنی بے وطن شہریوں میں ہوتا ہے۔ المیہ در المیہ یہ کہ یہ خواتین اپنے ہی وطن میں بے وطن ہوکر رہ گئی ہیں۔ یہ خواتین اُن عسکری نوجوانوں کی بیویاں ہیں جو آزادیِ وطن کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے کنٹرول لائن عبور کر گئے تھے، مگر بہت سی وجوہات کی وجہ سے یہ لوگ عسکریت سے الگ ہوکر معمول کی زندگی کی طرف لوٹ گئے۔ اس دوران بھارتی اور مقبوضہ کشمیر کی حکومت نے ان نوجوانوں کی بحالی کے لیے غالباً کسی فارن ایجنسی کے تعاون سے بحالی کی پالیسی اور پروجیکٹ تشکیل دیا، جس کے تحت ان افراد کی اہلِ خانہ سمیت واپسی کی حوصلہ افزائی کی جانے لگی، اور یوں سابق عسکری نوجوان نیپال اور دوسرے راستوں سے مقبوضہ کشمیر چلے گئے۔ مقبوضہ کشمیر پہنچے تو بھارتی حکومت نے اپنی پالیسی سے یوٹرن لیا اور عمر عبداللہ بے بسی کی تصویر بن گئے۔ آزادکشمیر سے جانے والی خواتین کو شہریت دینے سے انکار کیا گیا، جس کی وجہ سے ان کی پوری زندگی متاثر ہوگئی۔ حقِ شہریت نہ ملنے سے ان سے حقِ سفر اور حق ملازمت اور جائداد کی خرید کا حق بھی چھن گیا۔ یوں یہ خواتین ہوا میں معلق ہوکر رہ گئی ہیں۔ مودی نے شہریت ترمیمی ایکٹ لاکر ان خواتین کی زندگی بد سے بدتر کردی۔ اب انہیں غیر قانونی مقیم قرار دے کر کسی بھی وقت گرفتار ہونے کا خوف بھی تنگ کرنے لگا۔ ان میں کئی خواتین بیوہ ہوگئیں، کئی کو طلاق ہوئی،کئی خواتین اِس جہانِ فانی سے کوچ کرگئیں۔ آزادکشمیر میں ان کے عزیز واقارب اِس دنیا سے رخصت ہوتے چلے گئے، مگر یہ اپنوں کو پُرسہ دینے کی پوزیشن میں بھی نہ رہیں، کیونکہ سفری دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے یہ خواتین آزادکشمیر نہیں آسکتی تھیں۔ آزاد کشمیر سے جانے والی ایک خاتون کا دو برس پہلے انتقال بھی ہوا۔ اس کے گھر والے بیٹی کی موت سے زیادہ اس بات پر ملول تھے کہ وہ دوبارہ اسے دیکھ اور مل نہ سکے۔ اس سے بھی زیادہ دلدوز کہانی یہ ہے کہ ایک خاتون کی دوبیٹیاں سابق عسکری نوجوانوں کے ساتھ بیاہ کر سری نگر چلی گئی تھیں۔ یہ بزرگ خاتون جو آزادکشمیر مسلم لیگ (ن) کے ایک معروف سیاسی کارکن طارق رسول بٹ کی والدہ تھیں، سری نگر مظفرآباد بس کے ذریعے بیٹیوں سے ملنے گئیں۔ قیام کی مقررہ مدت ختم ہونے کے دن قریب آتے گئے اور ایک روز یہ خاتون بیٹیوں کے ہاتھوں میں دم دے بیٹھیں، اور ان کی بیٹے مظفرآباد میں بیٹھ کر ماتم کرتے رہے۔ بعد میں ماں کی اس انداز سے موت نے طارق بٹ کو بھی دل کا مریض بنادیا، اور وہ ہارٹ اٹیک کے باعث یہ عارضی دنیا چھوڑ گئے۔ اس اذیت اور کرب نے خواتین کو بے پناہ سماجی اور نفسیاتی مسائل کا شکار بنادیا ہے۔گزشتہ برس ایک خاتون نے اپنی زندگی کی عکاسی کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہاں کی زندگی نہ ختم ہونے والی سزا ہے۔ اگر ہم ناپسندیدہ اور غیر قانونی ہیں تو ہمیں واپس پاکستان بھیج دیا جائے۔
ان خواتین نے سری نگر ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن بھی دائر کررکھی ہے، مگر بھارتی عدالتوں کا حال یہ ہے کہ مودی کا موڈ دیکھ کر فیصلے سناتی ہیں۔ 5 اگست2019ء کو کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد اس کیس کی نوعیت ہی بدل گئی۔ اب یہ خواتین اسٹیٹ سبجیکٹ کی بنیاد پر اپنا دعویٰ آگے بڑھا ہی نہیں سکتیں۔ اس طرح معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔ چند برس قبل ایک ایسے ہی فرد نے اپنے بیوی بچوں کے لیے حقِ سفر مانگ مانگ کر تھک جانے کے بعد چوک میں خودسوزی کی تھی۔ ایسے میں جموں وکشمیر کونسل برائے انسانی حقوق کے سربراہ سید نذیر گیلانی نے دنیا کے ایک بڑے فورم پر اس مسئلے کو انسانی بنیاد پر اُٹھایا ہے۔ اس کام کو اب ایک منظم مہم کے طور پر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ وزارتِ خارجہ کو بھی اس کام میں سید نذیر گیلانی کے ساتھ بھرپور تعاون کرکے اپنی شہری خواتین کو اس عذاب سے نجات دلانے میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔