سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا ایک یادگار انٹریو

شورش کاشمیری ایک بے باک اور جید صحافی، شعلہ بیاں مقرر، بلند پایہ مصنف اور عمدہ شاعر تھے۔ ہفت روزہ ’چٹان‘ لاہور کے مالک اور بانی مدیر تھے۔ اسلام، تحریکِ اسلامی اور سید مودودیؒ کے پرستار تھے۔
انہوں نے ہفت روزہ ’چٹان‘ کے لیے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے ایک یادگار انٹرویو لیا تھا جس میں انہوں نے مولانا سے 31 سوالات کیے تھے۔ شورش کاشمیری اس انٹرویو سے پہلے ابتدا میں فرماتے ہیں کہ ’’علامہ اقبال نوراللہ مرقدہ نے فرمایا تھا کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا انحصار اس پر نہیں کہ ہم یورپ کی تقلید میں کہاں تک آگے بڑھ سکتے ہیں، اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا انحصار اس پر ہے کہ ہم کہاں تک یورپ کے فکری غلبے سے نجات پاسکتے ہیں … مزید فرمایا کہ مشرق میں مسلمانوں کی ذہنی قیادت اُس شخص کے ہاتھ میں ہوگی جو یورپ کی علمی قیادت کو چیلنج کرسکتا ہو اور جرأت سے یہ کہہ سکے کہ انسانی مصائب کی بوقلمونیوں کا ایک ہی حل ہے، اسلام … مولانا مودودی بلاشبہ اسلام کے ایک عظیم اسکالر ہیں، انہوں نے یورپی نظریات کے سحر پر بڑے یقین و اعتماد کے ساتھ بحث کی، اور ان خیالات کے طلسم کو توڑا ہے جو نئی پود کے ذہن کو مسخر کرچکے ہیں۔ مولانا کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے یورپ کے عالمانہ زعم کا تاروپود بکھیرا، اور نئی پود کو فکر و نظر کی گمراہیوں سے اٹھاکر صراط مستقیم کی دعوت دی ہے۔
ان جوابات سے جو ذیل میں درج ہیں، مولانا کے فہم و نظر کی وسعتوں اور فکر و عقل کا اندازہ ہوتا ہے… یہ انٹرویو ہفت روزہ ’چٹان‘ کے شمارہ نمبر 9 (14 ۔20 اپریل 1969ء) میں شائع ہوا تھا۔
…٭…٭…٭…٭…
سوال نمبر 1: ملک میں آمریت کے خلاف عوامی تحریک کی جو شکلیں پچھلے دنوں پیدا ہوئیں ان سے آپ کلی طور پر یا جزوی طور پر متفق ہیں؟ آپ کے نزدیک ان کا کون سا حصہ اصلح اور کون سا غیراصلح ہے؟
جواب: ملک میں آمریت کے خلاف تحریکِ جمہوریت کے تحت جو عوامی جدوجہد شروع کی گئی تھی وہ بالکل صحیح طور پر جاری تھی۔ اگست 1968ء کے آخر میں جب میں علاج کے لیے ملک سے باہر گیا اُس وقت تک مجھے پورا اطمینان تھا کہ تحریک بالکل آئینی، جمہوری اور شائستہ طریقوں سے چل رہی ہے۔ بعد میں میرے پیچھے جو حالات پیش آئے ان کے متعلق میں نہیں کہہ سکتا کہ کس وقت اس میں غلط رنگ داخل ہونا شروع ہوا۔ دسمبر 1968ء کے آخر میں انگلستان سے واپس آکر میں نے دیکھا کہ تحریک جمہوریت اور اس کے ساتھ شامل ہونے والی جماعتیں، جن کو ملاکر جمہوری مجلسِ عمل بنائی گئی تھی، تحریک کو پُرامن آئینی طریقوں سے جاری رکھنے کی انتہائی کوشش کررہی ہیں لیکن کچھ دوسرے لوگ اس کو زبردستی تشدد کے راستے پر دھکیلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہی دوسرا حصہ غیراصلح تھا۔ اس کو میں غیراصلح اس وجہ سے کہتا ہوں کہ جو لوگ اس تحریک کو تشدد کی راہ پر دھکیلنا چاہتے تھے اُن میں سے ایک گروہ کا مقصد یہ تھا کہ حکومت کے لیے تحریک کو کچل دینے کا بہانہ مل جائے، اور دوسرے لوگوں کا مقصد وہ تھا جسے میں آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں بیان کروں گا۔
سوال نمبر 2: کیا آپ اس سے متفق ہیں کہ تحریک سے فائدہ اٹھاکر کمیونسٹوں کی واضح اقلیت نے عوام الناس بالخصوص نئی پود کے دل و دماغ میں اپنی مخصوص اصطلاحات اور مخصوص نعرے ثبت کرنے کے علاوہ اس ڈھنگ کے ہنگامے برپا کرنے کی کوشش کی جو ان کا ہمیشہ غیرکمیونسٹ ملکوں میں شعار رہا ہے؟
جواب: آپ کے پہلے سوال کے جواب میں مَیں نے جس دوسرے گروہ کا ذکر کیا ہے اُس کے متعلق میرا اندازہ یہ ہے کہ اس کے اندر کمیونسٹ اور فاشسٹ دونوں قسم کے رجحانات رکھنے والے لوگ شامل تھے، اور ان کا مدعا یہ تھا کہ پُرامن تحریک کو ایک خونیں انقلاب کے راستے پر دھکیل دیا جائے۔ پُرامن تحریک دراصل جمہوریت بحال کرنے کے لیے چل رہی تھی، اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر یہ تحریک اسی طریقے پر کام کرتی رہی تو آخرکار جمہوریت قائم ہوجائے گی جو اُن کے مقصد کے خلاف تھی۔ خونیں انقلاب کے ذریعے کبھی جمہوریت قائم نہیں ہوا کرتی، اس کے نتیجے میں یا تو فاشزم قائم ہوتا ہے یا کمیونزم، یا پھر ملک سیاسی انتشار (Anarchy) کا شکار ہوکر تباہ ہوجاتا ہے۔
سوال نمبر 3: کمیونسٹوں کا شعار ہے کہ جہاں وہ اقلیت میں موجود ہوں وہاں دائیں بازو کی مختلف جماعتوں میں گھس کر اپنی طاقت کے اظہار و اندازے کے لیے نہ صرف عمومی خلفشار اور سیاسی انتشار کی پالیسی اختیار کرتے ہیں بلکہ اس قوم کے معتقدات میں سے کسی ایک جز کو چھیڑ کر اپنی طاقت کا اندازہ کرتے ہیں اور اپنے نظریے کی بالادستی کو بہ لطائف الجمیل قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید کی بے حرمتی کے واقعے پر انہوں نے مسلمانوں کے احتجاج کو اولاً ختم کرنا اور ثانیاً ہلکا کرنا چاہا، اس قسم کے واقعات میں ان کا منشا یہ ہوتا ہے کہ وہ
ا۔ مسلمانوں کی قومی اور مذہبی عصبیت اور دین کی گرفت کے بارے میں اندازہ لگائیں۔
ب۔ ان کے مدمقابل جماعتوں کی طاقت (مدافعتی و مزاحمتی) کس قدر ہے۔
ج۔ عوام میں اس کا ردعمل کیا ہے اور اس ردعمل کا کن حربوں سے تدارک ممکن ہے۔
جواب: آپ نے اپنے سوال میں دائیں بازو کی جو اصطلاح استعمال کی ہے اس سے مجھے اختلاف ہے۔ یہ اصطلاحات مغرب سے آئی ہیں اور ہم اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ اسلام کے حامیوں کا تعلق بائیں بازو کے مقابلے میں دائیں بازو سے ہے۔ دائیں بازو کا لفظ اصطلاحاً سرمایہ اور جاگیرداری کے حامیوں، مفاد پرست طبقوں اور سابق نظام کی بحالی کے خواہش مندوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مسلمان جو اس ملک میں اسلام کے نظریے کو قائم کرنے اور قائم رکھنے کے طالب ہیں، امتِ وسط ہیں۔ جن کی نگاہ میں دایاں بازو بھی اتنا ہی غلط ہے جتنا بایاں بازو۔ اسلام کی صراطِ مستقیم اعتدال اور حق پرستی کی راہ ہے جو نہ دائیں جانب جھکائو رکھتی ہے نہ بائیں جانب۔ مسلمان کا مقام دنیا میں ایک جج (عادل و منصف) کا مقام ہے۔ مجھے اس سے انکار نہیں ہے کہ تحریک جمہوریت میں ایسے لوگ بھی شامل ہوگئے تھے جو واقعی دائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے، مگر اکثریت ان کی نہ تھی۔ اکثریت اُن عام مسلمانوں کی تھی جو یہاں اسلام کو نافذ دیکھنا چاہتے ہیں اور جنہوں نے اپنی جان و مال کو خطرے میں ڈال کر اس ملک کو نظریۂ اسلام کے لیے حاصل کیا تھا۔ اشتراکی اور فاشسٹ عناصر نے یہ محسوس کیا کہ اگر تحریک جمہوریت کے ذریعے یہاں ایک جمہوری نظام قائم ہوگیا تو وہ لامحالہ دیر یا سویر اسلامی نظام کی شکل اختیار کرے گا۔ اس لیے انہوں نے پہلے مرحلے میں تحریک کو تشدد کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی، اور دوسرے مرحلے میں جب انہوں نے یہ دیکھا کہ حکومت تحریک کے رہنمائوں سے بات چیت کرنے پر آمادہ ہوگئی ہے اور عنقریب یہاں جمہوریت بحال ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں تو انہوں نے کھلم کھلا اشتراکی انقلاب برپا کرنے کے لیے کام شروع کردیا۔ مشرقی پاکستان میں ان کی پیدا کردہ صورت حال سارے ملک کے سامنے آگئی ہے جہاں انہوں نے سارے صوبے میں انتہائی درندگی کے ساتھ ماردھاڑ، قتل و غارت اور لاقانونیت پھیلادی تھی۔ یہ وہ آئیڈیل صورتِ حالات ہے جو کسی ملک میں اشتراکی انقلاب برپا کرنے کے لیے موزوں ہوتی ہے۔
مغربی پاکستان میں چونکہ ان کو اندیشہ تھا کہ اسلام کی حامی طاقتوں کی گرفت بہت مضبوط ہے، اس لیے انہوں نے یہاں براہِ راست اسلام اور سوشلزم کے تصادم سے اپنے کام کی ابتدا کی، اور آپ کا یہ اندازہ بالکل صحیح ہے کہ قرآن کی بے حرمتی کے ارتکاب سے وہ یہ اندازہ کرنا چاہتے تھے کہ یہاں میدان ان کے لیے کس حد تک سازگار ہے اور مدافعت و مزاحمت کی طاقت کتنی ہے۔ ان کے اس فعل کی مثال بالکل وہی ہے جیسے رات کے وقت چور کسی کے گھر میں پتھر پھینک کر یہ اندازہ کرتے ہیں کہ گھر والے جاگ رہے ہیں یا بے خبر سورہے ہیں۔ اس حرکت کا پہلا ردعمل دیکھ کر انہوں نے جو مختلف حربے عوام کے ذہن میں الجھائو پیدا کرنے کے لیے استعمال کیے وہ سب کے سامنے ہیں۔ ملتان میں انہوں نے فوراً ایک جھوٹا واقعہ قرآن مجید کی بے حرمتی کا گھڑا، لیکن بہت جلدی اس فریب کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ پھر بھاشانی صاحب پر حملے کا افسانہ تصنیف کیاگیا تاکہ اپنے تشدد کے لیے دوسروں پر تشدد کا الزام عائد کرکے وجہ جواز پیدا کی جائے، لیکن اس کا بھانڈا بھی پھوٹ گیا، کیونکہ جن جماعتوں پر انہوں نے اس حملے کا الزام لگایا تھا اُن کا کوئی فرد بھی اس واقعے میں ملوث نہ پایا گیا۔ اُن کے ان حربوں میں جو چیز اُن کے لیے سب سے زیادہ مددگار ثابت ہوئی وہ یہ تھی کہ پچھلے دس سال کی آمریت کی عنایت سے پریس اور خبررساں ایجنسیوں اور ریڈیو پر بڑی حد تک سرخ عناصر کا قبضہ ہوچکا ہے جس کی بدولت وہ ہر جھوٹ پھیلانے اور ہر سچ کو چھپانے پر قادر ہیں۔
سوال نمبر 4: ظاہر ہے کہ دو گروہ یہاں تشدد پر یقین رکھتے ہیں، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ سوشلزم کو اس کی معنویت کے ساتھ لانا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ
1۔ یہ دونوں واقعی ہم آہنگ ہیں یا دونوں میں مقاصد و عزائم کے اعتبار سے فاصلہ ہے؟
2۔ کیا ان میں سے ایک پارٹی واقعی سوشلزم چاہتی ہے، یا ان کے سامنے فردِ واحد کا اقتدار ہے؟
اور کیا یہ صحیح ہے کہ ’’اسلام ہمارا دین ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے اور جمہوریت ہماری سیاست ہے‘‘ کے دلفریب نعرے سے وہ نئی پود کے ذہنی ویرانے کو فکری سراب کے حوالے کررہی ہے؟
3۔ کیا یہ سہ قسمی نعرہ اسلامی تعلیمات کی وحدت کے منافی نہیں؟
4۔ آپ کے خیال میں یہ پارٹی واقعی اس سوشلزم کی داعی ہے جس کا بانی کارل مارکس اور علمی رہنما لینن، اسٹالن یا مائو ہیں؟ یا اس کے سہ رنگے سوشلزم میں کوئی اور فلسفہ مضمر ہے؟ جواب اثبات میں ہے تو وہ فلسفہ کیا ہے؟
5۔ کیا سوشلزم اور اسلام واقعی دو متضاد نظریے ہیں؟ کیا سوشلزم کے اقتصادی نظریے کو اسلام کے منافی قرار دیا جاسکتا ہے؟
6۔ اگر یہ متضاد نظریے ہیں تو آپ کے نزدیک سرمایہ داری کی ان مضرتوں کا حل کیا ہے جس سے پوری سوسائٹی ہراساں اور نالاں ہونے کے علاوہ اس کے بندھنوں کو توڑنے کی کوشش میں عقیدوں سے بھی برگشتہ ہوتی جارہی ہے؟
7۔ آپ تسلیم کرتے ہیں کہ ابتدائی اشتراکیت سے لے کر سرمایہ داری کے اس عروج تک معاشرہ انسانی استحصال، محنت کے علاوہ نظامِ زر کی بیکراں خرابیوں کا شکار چلا آرہا ہے اور اسی کا نتیجہ نئی نسل کے ذہنوں کا اشتعال ہے؟
8۔ آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ سوشلزم کے ہمنوا سب کے سب مادہ پرست (Materialist) اور دہریے (Atheist) نہیں ہیں بلکہ نئی تعلیم نے اپنے سانچے میں ڈھال کر جس نسل کو اپنی خاص اصطلاحوں، ترکیبوں اور نظریوں کے ساتھ جنم دیا ہے وہ نظام زر یعنی سرمایہ داری (Capitalism) کے خلاف اپنی برگشتگی اور جدوجہد کو مخصوص و معین کرنے کے لیے سوشلزم کی اصطلاح استعمال کرتی ہے؟ گویا اس کے نزدیک سوشلزم کا تصور دہریت یا مادیت کا تصور نہیں بلکہ سرمایہ داری نظام کی مضرتوں اور خرابیوں کے محو کردینے کا نام ہے، بالفاظِ دیگر دولت کی منصفانہ تقسیم، استحصالِ محنت کا خاتمہ اور امتیازات کی بیخ کنی۔
9۔ کیا اسلام دولت کی منصفانہ تقسیم، استحصالِ محنت کے خاتمے اور نظامِ زر کے امتیازات کی تنسیخ کو تسلیم کرتا ہے؟
10۔ اسلام میں سرمایہ داری اور جاگیرداری کا جواز ہے؟ ہے تو کس حد تک ہے، اور نہیں تو سوشلزم سے اس کا ٹکرائو کہاں ہوتا ہے؟
11۔ کیا یہ صحیح ہے کہ اسلامی حکومت ان احکام کو منسوخ کرسکتی ہے جو اعتقادات و عبادات کے درجے میں نہیں آتے لیکن ان سے کسی قوم، ملک یا ریاست میں طبقاتی فساد یا اجتماعی خلل پیدا ہوتا ہے؟
12۔ اگر اسلام میں سرمایہ و محنت کی بنیاد پر طبقاتی جنگ نہیں تو سرمایہ و محنت کی بنیاد پر طبقاتی امتیاز کہاں ہے؟ اور اس کا جواز کیونکر پیدا کیا جاسکتا ہے؟
13۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ طبقاتی نظام نے کئی صدیوں کی تاریخ میں اسلام اور مسلمانوں کو سخت قسم کی مصیبتوں سے دوچار کیا ہے؟ پھر اس طبقاتی نظام کو منسوخ، معطل اور برباد کردینے میں عیب کیا ہے؟
14۔ سوشلزم کا مقصد اگر یہ ہو کہ دولت کی تقسیم منصفانہ ہو، ریاست کی ذمہ داری ہو کہ انسانوں کو زندگی بسر کرنے کی تمام ضرورتیں مہیا کی جائیں اور ذرائع پیداوار ریاست کی ملکیت میں ہوں، تو یہ مقصد اسلام سے کہاں متصادم ہوتا ہے؟
15۔ جس نظام سرمایہ داری کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے وہ تمام تر سرمایہ داری کی عصری شکلوں سے پیدا ہوا ہے۔ فی الجملہ سرمایہ و محنت کے استحصال کا مسئلہ صنعتی انقلاب کی پیداوار ہے۔
جاگیرداری کے زمانے میں یہ احساس عوامی نہیں بلکہ خاص ذہنوں میں ایک تاریخی احساس کے طور پر تھا۔ جاگیرداری کے خلاف جو احساس ابھرا، اصلاً یورپ کی سرمایہ داری کے خلاف ایشیائی قوموں کی سیاسی بیداری سے ابھرا۔ نتیجتاً ’’زمینیں کاشت کاروں کی ملکیت ہیں‘‘ کا نعرہ بھی وضع ہوگیا۔ اس نعرے یا مؤقف سے اسلام کے کس حصے کی نفی ہوتی ہے؟
جواب: اس سوال کا جواب میں شق وار دوں گا کیونکہ اس کو آپ نے 15 شقوں میں بیان فرمایا ہے۔
1۔ ان دونوں گروہوں میں سے ایک توصاف صاف اشتراکی انقلاب کا خواہش مند ہے اور وہ بھی چینی برانڈ کا! جہاں تک دوسرے گروہ کا تعلق ہے، اس کے رجحانات میں فاشزم غالب ہے۔ اگرچہ یہ لوگ سوشلزم کا نام لیتے ہیں لیکن ہٹلر بھی نیشنل سوشلزم کا نام لے کر ہی میدان میں آیا تھا۔ اس لیے مخصوص سوشلزم کی اصطلاح کے اشتراک سے ان دونوں گروہوں کو ہم آہنگ نہیں سمجھا جاسکتا۔
2۔ جس گروہ کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے اُس کا کوئی ایک ہی نعرہ نہیں ہے، بلکہ وقت اور موقع دیکھ کر وہ مختلف قسم کے نعرے لگاتا ہے۔ پچھلے چند مہینوں میں اس کے لیڈر صاحب کے جو اقوال اخبارات میں آئے ہیں، ان کو اگر جمع کرکے دیکھا جائے تو اب تک تقریباً ایک درجن مختلف اقوال سامنے آچکے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ سوشلزم اور اسلام کے بارے میں اُن کا اصلی اور آخری قول کیا ہے۔ یہ کہنا کہ ’’اسلام ہمارا دین ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے اور جمہوریت ہماری سیاست ہے‘‘ اگر فریب نہیں تو جہالت ضرور ہے۔ ایک ہی سانس میں یہ تین باتیں کہنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسلام نہ کوئی معاشی نظام دیتا ہے اور نہ سیاست میں ہماری کوئی رہنمائی کرتا ہے۔ اس کے بعد اگر وہ ہمارا دین ہے تو صرف مسجد اور چند مذہبی رسوم کی حد تک ہے۔ یہ بات کوئی ایسا شخص نہیں کہہ سکتا جس نے کبھی دینِ اسلام کا مطالعہ کیا ہو اور سوچ سمجھ کر اسلام کو اپنا دین قرار دیا ہو۔
علاوہ بریں سوشلزم ایک باقاعدہ نظام فکر کا نام ہے جو عقیدے اور اخلاق سے لے کر اجتماعی زندگی کے تمام تفصیلی پہلوئوں تک اسلام سے متصادم ہے۔ اسی طرح جمہوریت اگر اسلام کے بغیر ہو تو وہ بھی سراسر مغرب کی الحادی جمہوریت ہے، جو اسلام کے نقطہ نظر سے کفر کی حد تک پہنچ جاتی ہے، کیونکہ اسلام کی قید سے آزاد جمہوریت کے معنی یہ ہیں کہ جمہور جس حلال کو چاہیں حرام کرسکیں، اور جس حرام کو چاہیں حلال کرسکیں، اور کسی خدا اور رسولؐ کے احکام کے پابند نہ ہوں۔ لہٰذا اسلام سے الگ کرکے سوشلزم کو اپنی معیشت اور جمہوریت کو اپنی سیاست قرار دینا بیک وقت تین بالکل متضاد اور باہم متصادم مسلکوں کو جمع کرنے کا ہم معنی ہے، جس کا ارتکاب اگر کوئی شخص کرسکتا ہے تو فریب کی غرض سے کرسکتا ہے یا پھر جہالت کی بنا پر۔
3۔ اس کا جواب اوپر کی شق کے جواب میں آگیا ہے۔
4۔ میرا اندازہ ہے کہ اس پارٹی کا مسلک بہت سارے فلسفوں کا مجموعہ ہے جس میں کوئی ایک رنگ واضح طور پر نہیں پایا جاتا۔ اس کے طریق کار میں جو رجحانات مجھے نظر آتے ہیں وہ جیسا کہ اوپر بیان کرچکا ہوں، فاشزم کے رجحانات ہیں۔ جس طریقے سے فدائیوں کی تنظیم شروع کی گئی ہے اور اس میں شریک ہونے والوں سے جس طرح حلف لیا گیا ہے، اس کو دیکھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہٹلر کی طرز کے طوفانی دستے (Storm Troopers) تیار کیے جارہے ہیں۔ اس طریقے سے صرف ایک شخص کی آمریت ہی قائم ہوسکتی ہے۔
5۔ اسلام اور سوشلزم جیسا کہ میں اوپر اشارہ کرچکا ہوں، دو قطعی متضاد نظریے ہیں۔ اسلام کی بنیاد اس عقیدے پر ہے کہ ہم ایک خدا کے بندے ہیں، اس خدا نے اپنے رسولؐ اور اپنی کتاب کے ذریعے سے ہمیں زندگی کے ہر پہلو میں جوہدایات دی ہیں، ان کے برحق ہونے پر ہمارا ایمان ہے، اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا کام انہی ہدایات کی پیروی کرنا ہے۔ ہمارے لیے یہ دنیا کی زندگی، اصل زندگی نہیں ہے، بلکہ ہماری زندگی کا حقیقی مقصد آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے، اور یہ رضا ہمیں اسی صورت میں حاصل ہوسکتی ہے جبکہ ہم اِس دنیا میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی ہدایات کی پیروی کریں۔ اس عقیدے پر اسلام ایک پورا نظام اخلاق ہمیں دیتا ہے اور ایک پورا نظام عبادات دیتا ہے، تاکہ ہماری زندگی عملاً اس عقیدے کے ساتھ عمر بھر وابستہ رہے۔ اس کے ساتھ اسلام ہم کو زندگی کے تمام پہلوئوں میں ایک ہمہ گیر قانون اور ضابطہ دیتا ہے جس کا دائرہ گھر اور خاندان کی زندگی سے لے کر درسگاہ، عدالت، پارلیمنٹ، مارکیٹ اور بین الاقوامی تعلقات… ہر چیز پر وسیع ہے۔ اس کے برعکس سوشلزم کا آغاز ہی اس تصور سے ہوتا ہے کہ ہمیں کسی خدا اور کسی رسول کی رہنمائی کی حاجت نہیں ہے، بلکہ ہم خود اپنی زندگی کے معاملات کو طے کرنے کے لیے اپنی صوابدید کے مطابق ایک فلسفۂ حیات تصنیف کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ اس بنیادی تصور کی بنا پر سوشلزم اپنا ایک فلسفۂ تاریخ تصنیف کرتا ہے۔ ایک فلسفۂ معیشت اختیار کرتا ہے، اور اس فلسفۂ معیشت کو نافذ کرنے کے لیے جس تدبیر سے بھی کام لیا جاسکے، لینا چاہیے خواہ وہ جھوٹ ہو یا بدعہدی ہو، یا قتل و غارت اور خونریزی! پھر اسلام جو اجتماعی نظام تجویز کرتا ہے، سوشلزم کا تجویز کردہ اجتماعی نظام اس کی بالکل ضد ہے۔ اسلام کا اجتماعی نظام ایک طرف فرد کی آزادی کو بنیادی اہمیت دیتا ہے لیکن اسے ایسے حدود کا پابند بناتا ہے جس سے وہ جماعت کے لیے نقصان دہ ہونے کے بجائے مفید بن سکے۔ دوسری طرف وہ اتنی ہی بنیادی اہمیت ایک صالح معاشرے کے وجود کو دیتا ہے جس کے اندر انفرادی انسانی فضائل کی نشوونما کا پورا موقع ہو، افراد، طبقوں اور گروہوں کے درمیان کشمکش اور منافرت کے بجائے باہمی تعاون، ہمدردی اور احسان کی روح کارفرما ہو، اور پورا معاشرتی نظام برائیوں کو دبانے اور نیکیوں کو فروغ دینے والا ہو۔ سوشلزم اس کے برعکس عیسائیت کے اس ابتدائی تصورِ انسان کو اختیار کرتا ہے کہ آدمی پیدائشی گناہ گار ہے اور وہ سرے سے اتنا قابلِ اعتماد ہی نہیں ہے کہ اس کو یہ آزادی دی جائے کہ یہ پیدائشی گناہ گار اور ناقابلِ اعتماد انسان کچھ وسائلِ معیشت کا مالک ہوکر اپنی صوابدید کے مطابق کام کرے۔ سوشلزم کے نزدیک وسائلِ معیشت کے معاملے میں انسانی ملکیت اور انسان کے تصرف کی آزادی ہی تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ اس لیے وہ ایک ایسا اجتماعی نظام تجویز کرتا ہے جس میں تمام وسائلِ معیشت اجتماعی ملکیت میں لے لیں جائیں اور افراد کو اجتماعی مشین میں کس کر رکھ دیا جائے۔ لیکن یہ ایک عجیب تضاد خیالی ہے کہ جو نظریہ معاشرے کے افراد کو ناقابل اعتماد قرار دے کر تصنیف کیا گیا ہے، وہ یہ فرض کرلیتا ہے کہ جب اجتماعی مشین کو مرکز میں چند افراد چلائیں گے تو وہ تمام عیوب سے منزہ اور سبوح و قدوس انسان ہوں گے۔ ان کے انتظام اور قبضہ و تصرف میں پورے ملک کے وسائلِ معیشت صحیح طور پر استعمال ہوں گے، اور دولت کی تقسیم بھی منصفانہ ہوگی۔ اس تضاد خیالی کے غلط ہونے کو ہر معقول آدمی بادی النظر میں ہی محسوس کرسکتا ہے، لیکن پچھلے 50 سال کے تجربے نے عملاً بھی اس کا غلط ہونا ثابت کردیا ہے۔ سوشلسٹ معاشرہ قائم کرنے کے دو عظیم الشان تجربے روس اور چین میں ہوئے ہیں، دونوں جگہ فردِ واحد کی شخصیت کو قریب قریب خدا کے مقام تک پہنچا دیا گیا۔ ایک جگہ یہ مقام اسٹالین کو دیا گیا اور اب ساری دنیا اس کے بدترین نتائج سے واقف ہوچکی ہے۔ دوسری جگہ شخصیت پرستی (Personality Cult) مائو کے معاملے میں اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے، اور اس کا یہ نتیجہ ساری دنیا کے سامنے آچکا ہے کہ لیوشائوچی جیسا شخص بھی دو سال سے لعنت ملامت اور پھٹکار کا ہدف بنا ہوا ہے لیکن اسے اپنی پوزیشن صاف کرنے کا آج تک کوئی موقع نصیب نہ ہوسکا۔ اب یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ اسلام عقیدے سے لے کر عمل کی تفصیلات تک ہر پہلو میں سوشلزم سے مختلف ہے۔
6۔ سرمایہ داری کا اصلی مخالف سوشلزم نہیں بلکہ اسلام ہے۔ سوشلزم کو سرمایہ داری سے جو عداوت ہے وہ دراصل اس معنی میں ہے کہ وہ بہت سے افراد اور اداروں کے ہاتھ میں زمین اور صنعت اور تجارت کی ملکیت اور انتظام کو درست نہیں سمجھتا، اور تمام سرمایہ داری اور زمینداری کو مجتمع کرکے ایک سوشلسٹ اسٹیٹ کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ گویا وہ سرمائے کو اور زیادہ مرکوز کرتا ہے، اور منتشر طور پر سرمایہ داروں اور زمینداروں کی جو طاقت معاشرے کے افراد کو پوری طرح اپنی گرفت میں لینے کے قابل نہیں ہے اس کا ازالہ وہ اس طرح کرتا ہے کہ ایک بڑی سرمایہ دار اور زمیندار اسٹیٹ وجود میں لاکر افراد کو پوری طرح اس کے ہاتھ میں بے بس کردیتا ہے۔ اس نظام میں ایک ہی ادارہ قانونی، سیاسی اور فوجی طاقت کا مالک بھی ہوتا ہے، اور تمام معاشی ذرائع کا مالک بھی۔ اس سے وہ آمریت وجود میں آتی ہے جس کے مقابلے میں آج تک کی وہ تمام آمریتیں ہیچ ہیں جو کسی دوسرے نظام نے پیدا کی ہیں۔ اسلام اس کے برعکس اُس سرمایہ داری نظام کا بھی دشمن ہے جو اس وقت مغربی سرمایہ داری کے نام سے معروف ہے، اور اُس انتہائی مرتکز سرمایہ داری کا بھی دشمن ہے جسے سوشلزم وجود میں لاتا ہے۔ اس کے پیش نظر ایک ایسی آزاد معیشت کا قیام ہے جس میں افراد کو شخصی ملکیت کے حقوق دے کر ایک طرف ان کی آزادی محفوظ کی گئی ہے اور دوسری طرف دولت کمانے اور خرچ کرنے کے طریقوں میں حلال و حرام کی تمیز قائم کرکے افراد کو اس کا پابند کردیا گیا ہے کہ وہ صرف حلال طریقے سے کمائیں اور حلال ہی طریقے سے خرچ کریں۔ پھر وہ اپنی اخلاقی تعلیم و تربیت کے ذریعے سے افراد کو اس کے لیے تیار کرتا ہے کہ وہ رضاکارانہ طریقے سے ایک دوسرے کی ہمدردی اور دستگیری کریں، اور قانونی طریقے سے بھی اس نے اِس کا انتظام کیا ہے کہ دولت کو مخصوص طبقے میں مرتکز نہ ہونے دیا جائے بلکہ وہ پھیل کر معاشرے کے کمزور سے کمزور افراد تک پہنچے۔ اس نے معاشی وسائل پر ہر قسم کی اجارہ داریوں کو ممنوع قرار دیا ہے تاکہ مستقل مفاد یافتہ طبقات وجود میں نہ آسکیں۔ وہ اجتماعی زندگی میں تمام لوگوں کو ترقی کے مساوی مواقع دیتا ہے تاکہ ہر شخص اپنی قابلیت سے جتنی ترقی بھی کرسکتا ہو کرے، مگر جائز ذرائع سے کرے۔ وہ مصنوعی ذرائع سے کسی قسم کے طبقات پیدا نہیں ہونے دیتا، اور فطری اسباب سے جو طبقات پیدا ہوتے ہیں اُن کے درمیان منافرت اور کشمکش کے بجائے تعاون اور ہمدردی کا تعلق پیدا کرتا ہے۔ اگر اسلام کے اس نظام پر ہمارے ہاں ایمانداری سے عمل کیا جاتا اور یہ منافقت نہ برتی جاتی کہ اسلام کے نام پر کام سراسر اس کے خلاف کیے جارہے ہیں، تو آج یہ حالت نہ ہوتی کہ لوگ سرمایہ داری کے بندھنوں کو توڑنے کے لیے کسی غیراسلامی نظام کی طرف لپکنے لگتے۔
7۔ آپ کا یہ خیال صحیح ہے۔
8۔ یہ صورتِ حال جس کا آپ ذکر کررہے ہیں، دراصل اس نظام تعلیم کا نتیجہ ہے جس نے ہماری نئی نسلوں کو اسلام سے قریب قریب بالکل ناواقف رکھا، اور صرف مغربی فلسفوں اور نظریات کا دودھ پلاپلا کر ان کی پرورش کی۔ اس لیے جب قدیم نظام جاگیرداری اور جدید نظام سرمایہ داری، اور ایک بددیانت بیوروکریسی کی پیدا کردہ خرابیوں کے بدترین مجموعے سے تنگ آکر ان کو عدلِ اجتماعی (Social Justice) قائم کرنے والے کسی نظام کی جستجو ہوئی تو ان کے ذہن اسلام کی طرف رجوع کرنے کے بجائے بیرونی نظریات کی طرف متوجہ ہوگئے۔ ان بیرونی نظریات میں ان کو صرف سوشلزم ہی ایک ایسا نظام نظر آیا جو سرمایہ داری کی بیماری کے علاج کا مدعی تھا۔ اس لیے انہوں نے بے اختیار اس کی طرف لپکنا شروع کردیا۔ ان میں سے ایک بہت ہی قلیل تعداد ایسی ہے جو حقیقت میں سوشلزم کی مادہ پرستی اور دہریت کو قبول کرتی ہے۔ وہ دراصل سوشلزم کے اس دعوے سے دھوکا کھارہے ہیں کہ وہ دراصل سرمایہ داری کی بیماری کا علاج ہے۔ ان کی کثیر تعداد کو یہ احساس نہیں ہے کہ جب وہ دولت کی منصفانہ تقسیم اور محنت کے استحصال کی بیخ کنی کی خاطر ایک ایسے نظام کی طرف رجوع کریں گے جو نہ صرف اپنا ایک مفصل فلسفہ اور ہمہ گیر نظام زندگی رکھتا ہے بلکہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں عملاً رائج بھی ہے تو بالآخر وہ سوشلزم کے معاشی نظام کے ساتھ ساتھ اس کی مادہ پرستی اور دہریت کو بھی ہضم کرتے چلے جائیں گے خواہ ان کے اندر ایسا کرنے کی خواہش ہو یا نہ ہو۔
9۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ صرف اسلام ہی دولت کی منصفانہ تقسیم کرتا ہے اور اسی کے ذریعے سے استحصالِ محنت کا خاتمہ ہوسکتا ہے، اور وہی ان امتیازات کی تنسیخ کرتا ہے جن کا آپ ذکر کررہے ہیں۔
10۔ آپ کے اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سرمایہ داری لغوی حیثیت سے تو صرف یہ معنی رکھتی ہے کہ آدمی کسی سرمائے کا مالک ہو، مگر اصطلاحاً اس سے مراد وہ سرمایہ داری نظام ہے جو اس وقت مغربی دنیا میں پایا جاتا ہے۔ اسلام میں پہلی چیز کا جوازہے اور دوسری چیز کا کوئی جوازنہیں ہے۔ مزید برآں اسلام سرمائے کی صرف اُس ملکیت کو جائز رکھتا ہے جو حلال طریقوں سے حاصل ہوئی ہو، جس کے مالک نے اگر وہ بقدر نصاب سرمائے کا مالک ہے، زکوٰۃ ادا کی ہو، اور جس کا مالک سرمائے کے خرچ کی ان حدود کا پابند ہو جو اسلام نے عائد کردیے ہیں۔
رہی جاگیرداری، تو اس سے مراد زمین کا وہ عطیہ ہے جو کسی حکومت کی طرف سے دیا گیا ہو۔ اسلام اس طرح کے صرف اُن عطیوں کو جائز قرار دیتا ہے جو کسی عادل حکومت نے کسی شخص کو معاشرے کی جائز خدمات کے صلے میں یا جائز خدمات کی خاطر ایک حدِّ اعتدال کے اندر رہتے ہوئے دیے ہوں، اور یا تو افتادہ زمینوں میں سے دیے ہوں یا سرکاری املاک میں سے۔ ایک شخص کی ملکیت چھین کر دوسرے کو دے دینے کا اسلام میں کوئی جواز نہیں ہے، اور نہ اس بات کا کوئی جواز ہے کہ زمین کے جائز مالکوں کے اوپر کسی شخص کو جاگیردار بناکر اس طرح مسلط کردیا جائے کہ وہ اس کے کاشتکار بن کر رہ جائیں۔ پھر اسلام اس طرح کے عطیوں کے بارے میں بھی یہ شرط عائد کرتا ہے کہ جسے کوئی زمین عطا کی جائے وہ تین سال کے اندر اندر اس کو استعمال کرے ورنہ عطیہ اس سے سلب کرلیا جائے گا۔ ان شرائط کو اگر آدمی غور سے دیکھے تو صاف معلوم ہوجائے گا کہ جو جاگیرداریاں ظالمانہ حکومتوں کے دور میں پیدا ہوئی ہیں وہ سب کی سب اسلامی نقطہ نظر سے ناجائز نوعیت کی ہیں۔
آپ کے سوال کا یہ حصہ کہ سوشلزم سے اس کا ٹکرائو کہاں ہوتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سوشلزم سرے سے سرمائے اور زمین کی شخصی ملکیت ہی کا مخالف ہے درآں حالیکہ اسلام جائز حدود کے اندر ان دونوں چیزوں پر شخصی ملکیت کا حق تسلیم کرتا ہے۔ جیسا کہ میں اوپر بتاچکا ہوں، سوشلزم تو تمام سرمایہ داروں کو ختم کرکے ایک بڑا سرمایہ دار وجود میں لاتا ہے اور تمام جاگیرداروں اور زمینداروں کو ختم کرکے ایک بڑا جاگیردار اور زمیندار پیدا کردیتا ہے۔ جن لوگوں کو روس میں سوشلزم کی تاریخ کا کچھ علم ہے، وہ جانتے ہیں کہ وہاں بڑے بڑے زمینداروں ہی کو نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے مالکوں کو بھی اُن کی زمین کی ملکیت سے محروم کردیا گیا ہے اور اجتماعی ملکیت (Collectivisation) کا نظام قائم کرنے کے لیے لاکھوں کسانوں اور کاشتکاروں کو تباہ کرکے رکھ دیا گیا۔
11۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کسی قوم، ملک یا ریاست میں طبقاتی یا اجتماعی خلل جن اسباب سے پیدا ہوتا ہے ان کو رفع کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ملک میں اسلام کا پورا قانون نافذ کیا جائے اور ہر پہلو میں اصلاحات کرکے نظام معاشرہ کو ایک صالح معاشرے میں تبدیل کیا جائے۔ اس غرض کے لیے اگر سابق نظامِ فاسد کی پیدا کردہ خرابیوں کو دور کرنے کے لیے بعض خاص تدابیر استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئے تو وہ اُس وقت تک کے لیے استعمال کی جاسکتی ہیں جب تک ان کی ضرورت رہے، بشرطیکہ وہ اسلام کے اصولوں سے متصادم نہ ہوتی ہوں۔ اسلامی حکومت شریعت کے ان احکام کو بھی منسوخ نہیں کرسکتی جو عبادات و اعتقادات کے درجے میں نہیں آتے لیکن ہیں بہرحال اسلامی احکام ہی۔ البتہ بعض خاص حالات میں بعض خاص خرابیوں کو رفع کرنے کے لیے وہ عارضی طور پر کچھ مباح چیزوں کو ممنوع کرسکتی ہے، مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداً زیارتِ قبور کو منع کردیا اور بعد میں اس کی اجازت دے دی۔ بعد کی اجازت اس بات کی دلیل ہے کہ زیارت قبور فی الاصل مباح تھی لیکن عارضی طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کو اس لیے منع کیا کہ سابق شرک کے جو اثرات معاشرے نے مہیا کررکھے تھے ان کو دور کرنے کے لیے یہ عارضی ممانعت ضروری تھی۔ اسی طرح آپؐ نے شراب کی حرمت کے بعد ان خاص قسم کے برتنوں کے استعمال کو بھی کچھ مدت کے لیے منع کردیا جن میں پہلے شراب بنائی اور استعمال کی جاتی تھی، اور بعد میں ان کے استعمال کی اجازت دے دی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی حکومت عارضی طور پر مباحات پر ایسی پابندیاں عائد کرسکتی ہے جو کسی اہم تر شرعی مصلحت کے لیے ضروری ہوں۔ لیکن اول تو اس طرح کی پابندیاں عائد کرنے والی حکومت وہ ہونی چاہیے جو کسی بیرونی فلسفے سے متاثر اور مرعوب نہ ہو، بلکہ اسلامی اصولوں پر کام کرتی ہو۔ دوسرے اس طرح کی پابندیوں کو مستقل قانون بنانا درست نہیں ہے۔ انہیں صرف اُس وقت تک استعمال کرنا چاہیے جب تک اسلامی قوانین کے اجراء و نفاذ سے حالات معمول پر نہ آجائیں۔
12۔ سرمایہ و محنت کی بنیاد پر طبقاتی امتیاز سے مراد اگر مستقل طبقاتی امتیاز نہ ہو جسے قانون اور انتظامی پالیسیوں کے ذریعے سے دوامی تحفظ دیا گیا ہو، تو اسلام میں اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ البتہ وہ طبقاتی فرق جو فطری اسباب سے پیدا ہوتا ہے، اسلام اس کو ختم نہیں کرنا چاہتا۔ کیونکہ یہ فطرت سے جنگ ہے۔ مثلاً ایک آدمی اگر کسی خوشحال گھر میں یا کسی ترقی یافتہ علاقے میں پیدا ہوا ہے تو لامحالہ وہ خوشحالی یا ترقی سے بہرہ مند حالت کے مقام سے ہی اپنی زندگی کا آغاز کرے گا۔ لیکن اگر وہ اتنی قابلیت نہ رکھتا ہو کہ آگے اپنی خوشحالی کو باقی رکھ سکے یا مزید خوشحالی حاصل کرسکے تو وہ فطری طور پر اپنے اس مقام سے نیچے چلا جائے گا جہاں وہ پیدا ہوا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص کسی غریب گھر میں یا پسماندہ علاقے میں پیدا ہوا ہو تو وہ اسی حالت سے اپنی زندگی کا آغاز کرے گا جس میں اس کی پیدائش ہوئی ہے، لیکن اگر وہ اپنی قابلیت سے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے خوش حالی کے مقام پر پہنچ سکتا ہو تو اسلامی نظام معاشرہ میں اس کے لیے کوئی ایسی رکاوٹ نہیں ہے جو اسے بڑے سے بڑے بلند مقام تک پہنچنے سے روکتی ہو۔ یہ وہ فطری طبقات ہیں جو اللہ کی پیدا کی ہوئی خلقت کے لحاظ سے انسانی معاشرے میں موجود ہوتے ہیں اور فطری طریقے سے بدلتے رہتے ہیں۔ اسلام کا کوئی قانون اور ضابطہ ان کو مستقل طبقات میں تبدیل نہیں کرتا۔ مزید برآں وہ اپنے مختلف احکام و قوانین کے ذریعے سے اس امر کا پورا انتظام کرتا ہے کہ ان فطری خوش حال اور کمزور طبقوں کے درمیان طبقاتی جنگ اور منافرت نہ ہو، بلکہ جو طبقے خوش حال ہیں وہ کمزور طبقوں کو اٹھانے اور سہارا دینے میں مددگار بن جائیں، اور معاشرے میں کوئی طبقہ بھی ایسا موجود نہ رہے جسے زندگی کی بنیادی ضروریات مثلاً غذا، لباس، مکان، علاج، تعلیم وغیرہ میسر نہ آسکیں۔
13۔ اوپر شق نمبر 12 میں جو کچھ کہہ چکا ہوں اس پر غور کرنے سے اس شق کے سوال کا جواب خود مل جاتا ہے۔
مسلمانوں میں جب کبھی اسلام کے اصولوں سے ہٹ کر کوئی طبقاتی نظام پیدا ہوا تو ضرور اس نے برے نتائج دکھائے، لیکن اگر ان برے نتائج سے ہم یہ نتیجہ اخذ کریں کہ زبردستی ایک بے طبقہ سوسائٹی اس نمونے پر پیدا کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے جسے سوشلزم نے اپنا آئیڈیل قرار دیا ہے اور جسے وہ فی الواقع پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے تو یہ ہماری دوسری غلطی اور پہلی غلطی سے بھی بدتر غلطی ہوگی۔ فطرت سے جنگ خواہ اس شکل میں ہو جس کے برے نتائج ہم پہلے دیکھ چکے ہیں، اور خواہ اس شکل میں ہو جو تجویز کی جارہی ہے، بہرحال غلط ہے۔ انسان اس کا برا خمیازہ بھگت کر رہتا ہے، اور آخرکار فطرت سے شکست کھا کر رہتا ہے۔ سوشلزم نے بے طبقہ سوسائٹی پیدا کرنے کو اپنا آئیڈیل قرار دیا، لیکن وہ اس میں کیوں کامیاب نہیں ہوا؟ کیوں وہ پرانے طبقات کی جگہ نئے طبقات پیدا کرنے کا موجب بنا؟ اس کی وجہ یہی تھی کہ فطری طبقات کو کسی طرح مٹایا نہیں جاسکتا۔ فطرت سے جنگ کی خاطر سوشلزم نے یہ تو کیا کہ ایک طبقے یعنی پرولتاریہ کے نام پر اس نے جبر، ظلم، قتل و غارت اور باضابطہ ڈاکہ زنی کے ذریعے سے پرانے مفاد یافتہ طبقوں کو ہلاک و برباد کردیا، لیکن دوسرے طبقات اس کو خود پیدا کرنے پڑے، اور ان نئے طبقات کی گرفت میں وہی طبقہ (یعنی پرولتاریہ) سب سے زیادہ مظلوم بنا جس کی حمایت کا دعویٰ کرکے بے طبقہ سوسائٹی بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ ہمارا پچھلا تجربہ اور سوشلزم کا یہ نیا تجربہ دونوں ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ ہمیں ٹھیک اس فطری نظام کی طرف پلٹنا چاہیے جس کی طرف اسلام ہماری رہنمائی کرتا ہے۔
14۔ آپ نے سوشلزم کا مقصد ’’اگر یہ ہو‘‘ کہنے کے بعد جو سوال کیا ہے اور پھر یہ پوچھا ہے کہ ’’یہ مقصد اسلام سے کہاں تک متصادم ہوتا ہے؟‘‘ میرے نزدیک سوال کی یہ شکل بجائے خود صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ سوشلزم کا مقصد وہ ہے ہی نہیں جسے آپ نے لفظ ’’اگر‘‘ کے ساتھ بیان کیا ہے۔ سوشلزم کا دعویٰ پہلے یہ نہیں تھا کہ دولت کی منصفانہ تقسیم ہو، بلکہ وہ یہ دعویٰ لے کر اٹھا تھا کہ دولت کی مساویانہ تقسیم ہو، لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکا اور اس کو اپنا نظریہ تبدیل کرنا پڑا۔ اس کے بعد اُس نے دولت کی تقسیم کی جو دوسری صورت اختیار کی وہ منصفانہ تقسیم کی تعریف میں سرے سے آتی ہی نہیں، بلکہ اس کے اوپر اگر کوئی صحیح لفظ منطبق ہوتا ہے تو وہ جابرانہ تقسیم کا لفظ ہے، کیونکہ منصفانہ تقسیم کے مفہوم ہی میں یہ بات شامل ہے کہ انصاف کرنے والا غیرجانبدار ہو، اور جن کے درمیان وہ انصاف کرنے کے لیے بیٹھے اُس کی نگاہ میں وہ سب یکساں ہوں، یعنی ان میں سے کسی کا وہ حامی اور مخالف نہ ہو۔ سوشلزم میں تقسیم کا نظام ایک پارٹی کے ہاتھ میں آتا ہے اور وہ پارٹی درجہ بدرجہ محدود سے محدود تر افراد کے ہاتھ میں نظامِ تقسیم کے اختیارات کو مرکوز کرتی چلی جاتی ہے، اس پارٹی کے فلسفے کا آغاز ہی جانبداری کے تصور سے ہوتا ہے، یعنی پرولتاریہ کی حمایت اور اس کے ماسوا تمام دوسرے افراد اور گروہوں سے شدید نفرت اور ان کے خلاف جنگ کا جذبہ۔ اس صورت میں آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ ایک پورے معاشرے کے درمیان منصفانہ تقسیم کا تصور کیسے کیا جاسکتا ہے؟
اس کے بعد آپ نگاہ ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ محدود سے محدود تر انسانی گروہ جس کے ہاتھ میں آخرکار نظامِ تقسیم پر عمل درآمدکرنے کے اختیارات مرکوز ہوتے ہیں وہ عملاً اُس مقام پر آجاتا ہے جو بادشاہی نظام میں کسی بادشاہ اور سرمایہ دارانہ نظام میں کسی سرمایہ دار، اور جاگیردارانہ نظام میں کسی جاگیردار کی جباریت سے بدرجہا زیادہ سخت جبار کا مقام ہے۔ کیونکہ یہاں پوری مملکت کے تمام ذرائع پیداوار ان کے قبضے میں ہوتے ہیں، اور انہی کے ہاتھ میں پوری سیاسی طاقت بھی ہوتی ہے۔ یہ صورت حال پوری دنیا میں نہ کبھی سرمایہ دارانہ نظام میں پیدا ہوئی ہے، نہ کسی بادشاہی نظام میں، اور نہ کسی جاگیردارانہ نظام میں۔ اس کے بعد اگر وہ لوگوں کے لیے زندگی بسر کرنے کی ضروریات فراہم کرنے کی ذمہ داری لیتے ہیں تو اس میں اور اس جیلر کی حیثیت میں کوئی خاص فرق نہیں رہتا جو قیدیوں کو روٹی، کپڑا، مکان اور علاج فراہم کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اسلام کا تجویز کردہ نظام اس نظام سے ہر پہلو میں متصادم ہے۔
15۔ شق نمبر 15میں جو سوال آپ نے کیا ہے اس پر میں نے اپنی کتاب ’’اسلام اور جدید معاشی نظریات‘‘ میں پوری تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے۔ اس میں مَیں نے یہ بتایا ہے کہ یہ سارے مسائل جو جاگیرداری نظام سے لے کر سوشلزم اور فاشزم تک، اور پھر ان مصالحتوں (Compromises) تک جو سوشلزم اور کیپٹلزم کے درمیان امریکہ، انگلستان اور اسکینڈے نیوین ممالک میں کی گئی ہیں، دراصل مغرب کی اس سوسائٹی میں پیدا ہوئے ہیں جو خدا کی کسی کتاب اور کسی رسول کی رہنمائی سے تمدن و اجتماع کے معاملات میں بالکل محروم تھی، اور جس نے اپنے تعصب کی بنا پر خدا اور رسول کی اس رہنمائی کی طرف رجوع کرنے سے انکار کیا جو اخلاق و روحانیت کے ساتھ ساتھ انسان کی مادی زندگی میں بھی اس کو راہِ راست بتانے کے لیے آئی تھی۔ اس راہِ راست کو پانے سے محروم رہ کر مغرب کی سوسائٹی پے در پے ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف لڑھکتی رہی ہے اور کبھی اس نے اعتدال کا راستہ نہیں پایا ہے۔ جاگیرداری نظام جب ظلم کی انتہا پر پہنچا تو اس کے خلاف احتجاج نے سرمایہ داری نظام کی شکل اختیار کی۔ پھر سرمایہ داری نظام خصوصیت کے ساتھ صنعتی انقلاب کے بعد ظلم کی ایک دوسری انتہا پر پہنچ گیا اور اس نے اس نظام کی پیدا کردہ بیماریوں کے علاج کے لیے سوشلزم اور فاشزم کی شکل اختیار کی۔ پھر ان کی برائیوں نے اشتراکی ممالک میں جب اپنے آپ کو پوری طرح عیاں کردیا اور معلوم ہوگیا کہ ان دونوں نظاموں نے ظلم کا علاج بدتر ظلم سے کیا ہے تو اہلِ مغرب نے مصالحتوں کی مختلف شکلیں اختیار کرنی شروع کیں، لیکن کوئی مصالحت بھی اس وقت تک کامیاب ثابت نہیں ہورہی ہے اور مختلف ممالک میں مصالحت کی جو شکل بھی اختیار کی گئی ہے وہ معاشرے کی مجموعی خرابیوں میں کمی کرنے کے بجائے اضافہ ہی کرتی چلی جارہی ہے۔ میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ میں اس کی ساری تفصیل آپ کے سوال کے جواب میں بیان کرسکوں۔ آپ کے ناظرین کو میں مشورہ دوں گا کہ وہ میری اس کتاب کو غور سے پڑھیں۔ جو بات میں یہاں مختصراً کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ آخر ہم مسلمانوں نے کیوں یہ فرض کرلیا ہے کہ ہماری حالت بھی اُن قوموں کی طرح ہے جو خدا اور رسولؐ کی ہدایت سے محروم ہوکر کئی صدیوں سے ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف بھٹکتی پھررہی ہیں؟ ہمارے پاس خدا کے فضل سے صراط ِمستقیم موجود ہے۔ ہم کیوں وہ ساری تاریخ اپنے ہاں دہرانے کے لیے تیار ہوں جس سے یہ گمراہ قومیں گزری ہیں اور گزر رہی ہیں؟ اپنی صراطِ مستقیم سے بھٹک کر جن گمراہ کن نعروں کی طرف ہم متوجہ ہورہے ہیں، انہی میں سے ایک نعرہ یہ ہے کہ ’’زمینیں کاشتکاروں کی ملکیت ہیں‘‘۔ یہ ایسا ہی عجیب نعرہ ہے جیسے کوئی کہے کہ مکان معماروں کی ملکیت ہے اور کھانا باورچیوں کی ملکیت ہے اور کپڑے درزیوں کی ملکیت ہیں۔ آخر کوئی حد تو ہونی چاہیے جہاں ٹھیر کر ہم سوچیں کہ ہم کیا الٹی سیدھی باتیں کرنے پر اتر آئے ہیں! کاشتکار اگر واقعی اپنی زمین کا مالک ہو اور اس میں وہ کاشت کررہا ہو تو زمین یقینا اس کی ملکیت ہے، لیکن اگر وہ کسی دوسرے کی زمین بٹائی یا اجرت کے معاہدے پر کاشت کررہا ہو تو محض کام کرنے کی بنا پر وہ اس کا مالک کیسے ہوجائے گا؟ اور اگر صرف اس بنیاد پر اُس کو زمین کا مالک قرار دیا جائے تو کیا معقول وجہ ہے کہ معماروں کو اس مکان کا مالک نہ قرار دیا جائے جو وہ کسی دوسرے شخص کی خریدی ہوئی زمین پر اس کے فراہم کردہ روپے اور سامان سے تعمیر کرتے ہیں؟ بظاہر کاشتکار کو یہ نعرہ سن کر بڑی خوشی ہوگی کہ زمین اُس کی جو اس پر کاشت کرے، لیکن اگر اُس میں ذرا سی بھی عقل ہو اور وہ اس نعرے کے معنی پر غور کرے تو اُس کی سمجھ میں یہ بات آجائے گی کہ کل اگر وہ مرجائے اور اُس کے چھوٹے چھوٹے بچے یتیم رہ جائیں، یا وہ خود بوڑھا، بیمار یا معذور ہوجائے اور اپنی زمین پر کاشت کرنے کے قابل نہ رہے تو اُس کا اور اُس کی اولاد کا حقِ ملکیت آپ سے آپ ساقط ہوجائے گا، اور آگے جو شخص بھی اس زمین پر کاشت کرے گا وہی اس کا مالک ہوجائے گا۔ یہ پوزیشن جس وقت کاشتکار کی سمجھ میں آجائے گی وہ کانوں پر ہاتھ رکھ کر اس سے توبہ کرے گا۔
(جاری ہے)
(یہاں تک اسکرین پروف ہے)

سوال نمبر ۵: اسلام کے نزدیک زمینوں کی ملکیت کا تصور کیا ہے؟
ا۔ کیا اسلام بڑی بڑی زمینداریوں کو جائز قرار دیتا ہے؟
ب۔ کیا زمین ان کی ملکیت نہیں جو کاشت کریں جیسا کہ امام ابوحنیفہؒ اور امام شافعیؒ کا مسلک ہے۔
ج۔ اس امر کا جواز کیسے پیدا کیا جاسکتا ہے کہ حکومت کی دھونس، قانون کی دھاندلی اور استحصال زر سے حاصل کی ہوئی زمینیں سینکڑوں مزارعوں کی کاشت کے بعد فرد واحد یا اس کے خاندان کی ملکیت ہوجاتی ہیں؟ یہ ملکیت کس شرعی یا اخلاقی جواز کی بنا پر جائز ہے؟
جواب: اسلام کے نزدیک زمینوں کی ملکیت کے تصور کو بھی میں نے تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب ’’مسئلہ ملکیت زمین‘‘ میں بیان کردیا ہے جو شائع ہوچکی ہے اور بازار میں موجود ہے۔ ملکیت کی جن صورتوں کو شریعت اسلامی نے حلال قرار دیا ہے ان میں سے کسی صورت سے بھی جو زمین کسی کی ملکیت قرار پاتی ہو وہ جائز ملکیت ہے اور جو شریعت کی بیان کردہ صورتوں کے خلاف کسی صورت سے حاصل ہوئی ہو وہ ناجائز ملکیت ہے۔ اسلام میں اس تصور کے لیے قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے کہ زمین کی شخصی ملکیت سرے سے ناجائز ہے، جو لوگ اس تصور کے حق میں الارض لِلّٰہ سے استدلال کرتے ہیں وہ اول تو پوری آیت نہیں پڑھتے جس میں فرمایا گیا ہے کہ: ’’زمین اللہ کی ہے اور وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے‘‘ (سورۂ اعراف آیت ۱۲۸)
دوسرے وہ یہ نہیں سوچتے کہ اگر الارض لِلّٰہ کا مطلب وہی لیا جائے جو انہوں نے لیا ہے تو اس سے شخصی اور قومی ملکیت دونوں ہی کی ایک ساتھ نفی ہوجاتی ہے۔ کسی منطق سے بھی یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ جو زمین اللہ کی ہے اس کا مالک ایک شخص تو نہیں ہوسکتا مگر قوم اس کی مالک ہوسکتی ہے۔
ا۔ اسلام زمینداری کی بڑائی اور چھوٹائی کے لحاظ سے اس کے جواز اور عدم جواز کا فیصلہ نہیں کرتا بلکہ اس لحاظ سے اس کا فیصلہ کرتا ہے کہ اس کی ملکیت کس طرح حاصل ہوئی ہے۔ جائز طریقے سے حاصل ہوئی ہو تو اس کے متعلق اسلام کا فیصلہ اور ہے اور ناجائز طریقے سے حاصل ہوئی ہو تو اس کا فیصلہ دوسرا ہے۔ اس کے بعد پھر اسلام اس حیثیت سے زمینداری کے معاملے کو دیکھتا ہے کہ زمیندار خواہ بڑا ہو یا چھوٹا، وہ اپنی زمینداری کا کام کرتا کس طرح ہے۔ اگر وہ کام ان طریقوں سے کرتا ہو جو قانون شریعت کی رو سے جائز ہیں تو اس کی زمینداری قابل اعتراض نہیں ہے، اور اگر وہ کام ناروا طریقوں سے کرتا ہو تو وہ سزا کا مستحق ہے اور اس پر مختلف قسم کی پابندیاں بھی عائد کی جاسکتی ہیں جو اس کے ظلم کے لحاظ سے متعین ہوں گے۔
ب۔ فقہاء اسلام میں سے کسی کا مسلک بھی یہ نہیں ہے اور نہ یہ بات کسی حدیث یا قرآن مجید کی کسی آیت سے ثابت ہوتی ہے کہ زمین ان کی ملکیت ہے جو اس پر کاشت کریں۔ امام ابو حنیفہؒ اور امام شافعیؒ کی طرف اگر کوئی شخص یہ بات منسوب کرتا ہے تو وہ خلاف واقعہ بات کہتا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کا مسلک یہ نہیں ہے کہ وہ بٹائی پر زمین دینے کو مطلقاً ناجائز قرار دیتے ہوں بلکہ ان کے نزدیک اگر زمین کا مالک صرف زمین ہی دے کر الگ نہ ہوجائے بلکہ تخم، بیل، ہل وغیرہ میں بھی کاشتکار کے ساتھ شریک ہو تو اس صورت میں پیداوار کی بٹائی پر معاملہ کرنا جائز ہے۔ اس کے برعکس امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ بٹائی پر معاملہ کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں اور وہ شرط نہیں لگاتے جو امام ابو حنیفہؒ نے لگائی ہے۔ مذہب حنفی میں فتویٰ امام یوسف اور امام محمدؒ ہی کے قول پر ہے۔ رہا امام شافعیؒ کا مسلک تو وہ یہ کہتے ہیں کہ ایک شخص کی زمین پر دوسرے شخص کے کاشت کرنے کی جائز صورتیں دو ہیں جن میں سے کسی ایک کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔ ایک یہ کہ مالک زمین کاشتکار کی خدمات کسی اجرت پر حاصل کرے۔ اس صورت میں کھیتی مالک کی ہوگی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کاشتکار ایک مقرر معاوضے پر (جس کو آج کل کی اصطلاح میں ٹھیکہ سے تعبیر کرتے ہیں) مالک سے زمین لے لے، اس صورت میں کھیتی کاشتکار کی ہوگی۔ اس کی تفصیل الفقہ علی الذاہب الاربعہ‘‘ میں دیکھتی جاسکتی ہے۔
(ج) زمین کی جو ملکیت حکومت کی دھونس یا قانون کی دھاندلی یا کسی اور غیرشرعی طریقے سے حاصل کی گئی ہو وہ سرے سے جائز ملکیت ہی نہیں ہے۔
سوال نمبر ۶: بڑے بڑے کارخانے ملیں اور فیکٹریاں جو موجودہ سرمایہ دار ریاستوں کی طبقہ پروری، قانون پر طبقہ کی حکمرانی اور بنکوں کے سودی نظام کی خواص نوازی کا نتیجہ ہیں، جائز ہیں؟ ان کی انفرادی ملکیت کو شرعاً درست کہا جاسکتا ہے؟ جب کہ شہادت تاریخی طور پر موجود ہے کہ ان سے مذہب کے استحکام اور مملکت کے عوام (بنی نوع انسان) کو عظیم نقصان پہنچتا رہا اور پہنچ چکا ہے، بلکہ یہی نقصان دین و مذہب سے بغاوت کا ذریعہ بن گیا ہے۔
جواب: جدید سرمایہ دارانہ نظام اور ملک کے غلط قوانین اور غلط انتظامی پالیسیوں کی وجہ سے صنعت اور تجارت اوردوسرے وسائلِ ثروت کا جو ارتکاز ایک محدود تر طبقے میں ہوتا جارہا ہے وہ اسلامی شریعت کی رو سے بالکل ناجائز ہے۔ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس ارتکاز کو باقی رکھا جائے یا نہیں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کو ختم کرنے کی صورت اگر یہ ہو کہ ان تمام چیزوں کو ضبط کرکے قومی ملکیت بنالیا جائے تو یہ چھوٹی بیماری کا علاج ایک بہت بڑی بیماری سے ہوگا۔ اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ آئندہ کے لیے تو ان تمام حرام طریقوں کو قانوناً ممنوع کردیا جائے جن سے دولت کا یہ ارتکاز واقع ہوتا ہے اور پہلے جو ارتکاز واقع ہوچکا ہے اس کو مختلف قوانین کے ذریعہ سے باقاعدہ توڑا جائے اور اس مرکوز دولت کو بڑے پیمانے پر معاشرے میں تقسیم کرنے کے لیے ایسے طریقے اختیار کیے جائیں جو اصول شریعت سے متصادم بھی نہ ہوں اور جن سے مرض کا علاج مرض کے ذریعے سے کرنے کے بجائے مریض (معاشرہ) کی صحت بھی بحال ہوسکے۔
جماعت اسلامی نے اپنے شائع شدہ معاشی پروگرام میں اس دوسرے طریق علاج کے کچھ اصول وضاحت کے ساتھ بیان کردیے ہیں۔ عنقریب ہم تفصیل کے ساتھ یہ بتائیں گے کہ موجودہ معاشی نظام پر ان اصولوں کو کس طرح منطبق کیا جائے جن سے معاشرے میں آزاد معیشت کو برقرار رکھتے ہوئے اس مرض کا علاج ممکن ہے۔ اس بات کو میں نے حال میں ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے ان الفاظ میں بیان کیا تھا کہ اسلام کا نشتر ڈاکٹر کا نشتر ہے جو مریض کی صحت درست کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اگر سرمایہ دار طبقہ اس نشتر کے استعمال کی مزاحمت کرے گا تو پھر اسے ڈاکو کے خنجر سے سابقہ پیش آئے گا اور اب لامحالہ اسے ان دو میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہی ہوگا۔
سوال نمبر ۷: اسلام میں انفرادی ملکیت کا تصور کس حد تک ہے؟
جواب: اسلام میں انفرادی ملکیت کے لیے کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے بلکہ اس کے حصول کے جائز اور ناجائز طریقے بتائے گئے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ حلال طریقوں سے جو دولت بھی انسان کو حاصل ہو وہ اللہ کا فضل ہے اور اللہ ًجس پر جتنا چاہے فضل کرے اور حرام طریقوں سے جو مال حاصل کیا جائے اس کا حصول جرم ہے اور اس جرم کی سزا نوعیت جرم کے لحاظ سے اسلام میں تجویز کردی گئی ہے۔ ناجائز ملکیت خواہ چھوٹی سے چھوٹی ہو بہرحال ناجائز ہے اور جائز ملکیت خواہ بڑے سے بڑی ہو بہرحال جائز ہے۔ اس کے بعد اسلام ملکیت پر تصرف کے طریقوں سے بحث کرتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ ملکیت چھوٹی ہو یا بڑی۔ تصرف کے تمام غلط طریقوں کو اسلام نے ناجائز قرار دیا ہے اور اس کی مختلف صورتوں کے لیے مختلف سزائیں تجویز کی ہیں۔ رہے صحیح طریقے تو ان میں سے بعض کو اس نے لازم کردیا ہے جیسے زکوٰۃ اور بعض کے لیے ترغیب دی ہے تاکہ فرد خود اپنی رضاکارانہ نیکی کے ذریعے سے اپنے اخلاقی و روحانی ارتقاء کا بھی سامان کرے اور معاشرے میں بھی کشمکش اور نفرت کے بجائے آپس کی محبت اور خیرخواہی پیدا ہو۔
سوال نمبر ۸: اس حد سے زائد کی ملکیت پر ریاست قابض ہوسکتی ہے؟
جواب : اوپر نمبر ۷ کے جواب پر غور کرنے سے اس سوال کا جواب خودبخود معلوم ہوسکتا ہے۔ ناجائز املاک یا جائز املاک کے ناجائز تصرف کے بارے میں شریعت میں جو قوانین تجویز کیے گئے ہیں ان میں جائیداد کی ضبطی تک کی گنجائش ہے۔ علاوہ بریں اسلام میں ایک عادل حکومت کو جو شوریٰ کے طریق پر چلائی جاتی ہو اور جو اپنی آمد و صرف کے متعلق معاشرے کے سامنے جواب دہ ہو۔ افراد پر مختلف قسم کے ٹیکس عائد کرنے کا حق بھی ہے۔ ٹیکس عائد کرنے کی اس پالیسی کے لیے دو اہم رہنما اصول ہمیں قرآن میں ملتے ہیں۔ ایک یہ کہ دولت دولتمندوں ہی کے درمیان نہ گھومتی رہے۔ دوسرے یہ کہ ٹیکس کا محل وہ دولت ہے جو عفو (زائد از ضرورت) کی تعریف میں آتی ہو۔ ان دو قاعدوں کو ملحوظ رکھ کر منصفانہ طریقوں سے ٹیکس اس طرح عائد کیا جانا چاہیے کہ جس کے پاس جتنی زیادہ دولت ہو وہ معاشرے کی بھلائی کے لیے اتنا ہی زیادہ حصہ ادا کرے۔ مگر اس میں اس بات کو ملحوظ رکھنا ہوگا کہ آدمی کے لیے جائز طریقوں سے حلال دولت کمانے کا محرک (Incentive) بالکل ہی ختم ہوکر نہ رہ جائے۔ میں نے جہاں تک دین کا مطالعہ کیا ہے مجھے اس تصور کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ملی ہے کہ ملکیت کی بجائے خود ایک حد (بلالحاظ اس امر کے کہ وہ جائز نوعیت کی ملکیت ہو یا ناجائز نوعیت کی) مقرر کردی جائے اور اس سے زائد پر ریاست آپ سے آپ قابض ہوجانے کا حق رکھتی ہو۔
سوال نمبر ۹: کیا سیاسی مغالطے اور فکری تصادم کی ایک وجہ یہ نہیں کہ یورپ کی جدید اصطلاحوں اور اسلام کی قدیم اصطلاحوں میں ایک بُعد ہے اور معنوی بُعد صرف اس لیے ہے کہ اسلام اور سوشلزم میں انفرادی ملکیت کا تصور دو مختلف زمانوں کا پیدا شدہ ہے؟ نتیجتاً تصور کا یہ اختلاف تصادم پر منتج ہورہا ہے ورنہ جہاں تک اقتصاد و معیشت کا تعلق ہے اسلام کی اجتماعی روح خود ایک قسم کی اشتراکیت ہے جس میں خدا اور رسول کا تصور اس کی مضرتوں کا قاطع اور اس کی خوبیوں کا مدافع ہے۔
جواب: جس سیاسی مغالطے اور فکری تصادم کی طرف آپ نے اسے اس سوال میں اشارہ کیا ہے اس کی اصل وجہ نہ یہ ہے کہ یورپ کی جدید اصطلاحوں اور اسلام کی قدیم اصطلاحوں میں بُعد ہے اور نہ یہ کہ اسلام اور سوشلزم میں انفرادی ملکیت کا تصور دو مختلف زمانوں کا پیدا شدہ ہے۔ دراصل اسلام کا تصور کائنات اور تصور حیات سوشلزم کے تصور حیات و کائنات سے بالکل مختلف ہے اور تصورات کے اس اختلاف کی بنا پر عقیدہ و اخلاق سے لے کر تمدن و اجتماع کی تفصیلات تک دونوں کا راستہ اور منزل بالکل ایک دوسرے سے الگ ہے! رہے سیاسی مغالطے تو وہ اسلام کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ ان سوشلسٹوں کی طرف سے آرہے ہیں جو فلسفے اور مناہج تو وہ اختیار کررہے ہیں جو اپنی اصل اور روح کے اعتبار سے بالکل اسلام سے مختلف ہیں مگر طرح طرح کے مغالطے دے کر اس غیراسلامی چیز کو اسلامی بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ ’’جہاں تک اقتصاد و معیشت کا تعلق ہے، اسلام کی اجتماعی روح خود ایک قسم کی اشتراکیت ہے جس میں خدا اور رسولؐ کا تصور اس کی مضرتوں کا قاطع اور اس کی خوبیوں کا مدافع ہے‘‘۔ یہ بجائے خود ان مغالطوں میں سے ایک ہے جن کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا ہے اقتصاد و معیشت کے معاملے میں اسلام کی اجتماعی روح یہ ہے کہ ایک طرف فرد کو جائز حدود کے اندر زیادہ سے زیادہ آزادی دی جائے اور دوسری طرف تعلیم و تربیت کے ذریعے سے اس کو زیادہ سے زیادہ بہتر انسان بنانے کی کوشش کی جائے تاکہ وہ اپنے اختیار سے خدا اور بندوں کے حقوق خود ادا کرے اور قانونی جبر کا استعمال کم سے کم کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ یہ کسی قسم کی اشتراکیت بھی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اشتراکیت کا لفظ محض لغوی معنی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک اصطلاحی لفظ ہے جو ایک خاص نظام کے لیے استعمال ہوتا ہے اس نظام کی اجتماعی روح اسلام کی اجتماعی روح کے بالکل برعکس یہ ہے کہ معاشرے کی بھلائی کا پورا کام ایک اجتماعی مشین کرے اور فرد پر اس معاملے میں بالکل اعتماد نہ کیا جائے کہ وہ خود اپنی مرضی سے معاشرے کی بھلائی کے لیے رضاکارانہ کام کرے گا، نہ اس کے ہاتھ میں کوئی اختیار چھوڑا جائے کہ وہ ایسا کرسکے۔ اس نظام میں خدا اور رسولؐ کا تصور خواہمخواہ داخل کرے مشرف بہ اسلام کرنے کی حاجت ہی آخر کیا ہے؟ اسلام بجائے خود ایک مکمل نظام ہے جو فرد اور معاشرے کے درمیان بہترین توازن اور عدل و انصاف قائم کرتا ہے۔ افراد کو فرداً فرداً بہتر انسان بناتا ہے تاکہ وہ معاشرے کے صالح اجزاء بن سکیں اور معاشرے کو بہترین صالح معاشرہ بناتا ہے تاکہ فرد اس کے اندر زیادہ سے زیادہ روحانی و اخلاقی ارتقاء حاصل کرسکے۔ اس کو ایک قسم کی ’’اشتراکیت‘‘ قرار دینا اس کی توہین ہے۔ اشتراکیت میں اگر خدا اور رسولؐ کا تصور داخل کرنے کی کوشش کی جائے تو شاید مارکسزم کا وہ قرآنی ایڈیشن تیار ہوجائے گا جسے آج کل ایک صاحب نے ’’نظام ربوبیت‘‘ کا خوشنما عنوان دیا ہے۔
سوال نمبر ۱۰: آپ کو اسلامی سوشلزم کی اصطلاح میں کونسی قباحت نظر آتی ہے جب کہ آج کے بین الاقوامی معاشرے میں ہم سینکڑوں یورپی اصطلاحین قبول کرچکے ہیں اور ان سے متمتع ہورہے ہیں؟
جواب: جدید اصطلاحوں کو استعمال کرنے کے معاملے میں یہ اصول ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہیے کہ کونسی اصطلاحیں ایسی ہیں جن کا اصل مفہوم اسلامی نقطہ نظر سے صحیح ہیں اور کون سے اصطلاحیں ایسی ہیں جو اسلامی نقطہ نظر سے غلط ہیں۔ صحیح اصطلاحوں کو ہم بلاتکلف استعمال کرسکتے ہیں اور غلط اصطلاحوں کو استعمال کرنے سے ہم کو قطعی اجتناب کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ بعض اصطلاحیں ایسی بھی ہیں جن کے مفہوم کا ایک حصہ صحیح ہے اور دوسرا حصہ غلط۔ ان کو استعمال کرتے ہوئے ہمیں ان کے ساتھ لازماً لفظ اسلامی کا اضافہ کرنا چاہیے تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ ہم اس اصطلاح سے اس کا وہ مفہوم مراد لے رہے ہیں جو اسلام سے مطابقت رکھتا ہے۔ میری اس تشریح سے آپ یہ بات بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ ہم اسلامی سوشلزم کی اصطلاح کو کیوں غلط سمجھتے ہیں اور اسلامی جمہوریت کی اصطلاح کے استعمال کو کیوں صحیح سمجھتے ہیں۔ سوشلزم ایک اصطلاح ہونے کی حیثیت سے ایک خاص نظام کا نام ہے جو عیسائیت اور بدھ ازم وغیرہ کی طرح عقیدے اورعمل کے لحاظ سے ایک پورا مذہب ہے۔ اس کے ساتھ ’’اسلامی‘‘ کا لفظ بڑھا کر اسلامی سوشلزم‘‘ کہنا اسی طرح غلط ہے جس طرح عیسائیت اور بدھ ازم کے ساتھ لفظ اسلامی کا اضافہ کرکے ’’اسلامی عیسائیت‘‘ یا ’’اسلامی بدھ ازم‘‘ کے الفاظ استعمال کیے جائیں۔ بخلاف اس کے جمہوریت کا یہ مفہوم اسلام کے مطابق ہے کہ حکومت لوگوں کی مرضی سے بنے، چلے اور بدلے اور اس کا یہ مفہوم اسلام کے خلاف ہے کہ جمہور خود حلال و حرام کے مختار ہوں اور کسی خدا اور رسولؑ کے مقرر کردہ حدود کے پابند نہ ہوں۔ اس بنا پر ہم ’’مغربی جمہوریت‘‘ کے مقابلے میں ’’اسلامی جمہوریت‘‘ کی اصطلاح بجاطور پر استعمال کرسکتے ہیں جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہم جمہوریت سے اس کا وہ مفہوم مراد لے رہے ہیں جو اسلام سے مطابقت رکھتا ہے۔
سوال نمبر ۱۱: اس اصطلاح کو صرف اس لیے قبول کرلینے میں عیب کیا ہے؟ کیا اس سے سرمایہ دارانہ استحصالات کی نفی کا تصور اپنی تمام تر معنویت کے ساتھ ذہن میں فی الفور راسخ نہیں ہوجاتا ہے؟
جواب: سوال نمبر ۱۰ کے جواب میں میں یہ بات واضح کرچکا ہوں کہ اسلامی سوشلزم کی اصطلاح کو قبول کرنے میں کیا عیب ہے۔ سوشلزم محض سرمایہ دارانہ استحصالات کی نفی کا نام نہیں ہے بلکہ ایک مثبت نظام کا نام ہے جو ایک چیز کی نفی کے ساتھ ایک دوسری چیز کا اثبات بھی کرتا ہے اور اس کی اس نفی و اثبات کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے جس وقت ہم ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا لفظ ادا کریں گے تو اس سے فی الفور ذہن میں سرمایہ دارانہ استحصالات کی نفی کے ساتھ ساتھ سوشلزم کے اثبات کا تصور بھی راسخ ہوجائے گا۔ زیادہ سے زیادہ لفظ ’’اسلامی‘‘ کے اضافے سے جو مطلب نکل سکتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ سوشلزم کے مختلف مسالک (Schools of Thought) ہی میں سے کوئی ایک مسلک ہے یا باالفاظ دیگر اسلام کا کوئی نیا ایڈیشن ہے جو کچھ چیزیں اسلام کی اور کچھ چیزیں سوشلزم کی لے کر تیار کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو چیز سوشلزم سے لے کر اس نئے ایڈیشن میں اسلام کے ساتھ شامل کی گئی ہیں ان کی نوعیت کیا ہے؟ اگر ان کی نوعیت یہ ہے کہ اسلام میں کوئی نقص تھا جس کو دور کرنے کے لیے کچھ ایسی چیزیں سوشلزم سے لے کر شامل کی گئی ہیں جو اسلام میں نہ تھیں تو میری رائے میں ایسے مذہب کو ماننے کا کوئی جواز نہیں ہے جس کو ہم ناقص سمجھتے ہوں۔ اس ناقص مذہب کو چھوڑ کر جو لوگ کوئی مرکب مذہب بنانا چاہتے ہیں جس میں خدا اور رسول کے تصور کا اضافہ کرکے اشتراکیت کے اصول اختیار کرلیے گئے ہوں، انہیں چاہیے کہ وہ مسلمانوں میں رہ کر عام مسلمانوں کو دھوکا نہ دیں بلکہ بہائیوں کی طرح سیدھے طریقے سے ایک الگ مذہب بنائیں اور اس کی طرف دنیا کو دعوت دینا چاہیں تو دیں لیکن اگر وہ اس بات کے پابند ہیں کہ جو چیزیں بھی لی جائیں وہ قرآن و سنت سے مطابقت رکھتی ہوں اور اس کے خلاف نہ ہوں تو اسے آخر سوشلزم کہنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ جو کچھ قرآن و سنت کے مطابق ہے وہ تو خود اسلام ہی ہے۔ اسلام آخر کب سے ایسا دیوالیہ ہوا ہے کہ اس کا سکہ دنیا میں کسی دوسرے مذہب کا ٹھپہ لگائے بغیر نہ چل سکتا ہوں۔
سوال نمبر ۱۲: آپ سوشلزم کے تصور کو خطرناک سمجھتے ہیں یا جن لوگوں کے ہاتھ میں اس کی عنان ہے؟
جواب: میں دونوں ہی کو خطرناک سمجھتا ہوں اور یہ کہنا میرے لیے مشکل ہے کہ ان دونوں میں سے زیادہ خطرناک کون ہے بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ سوشلزم چونکہ خود خطرناک ہے اس لیے اس کو چلانے کا کام انہی لوگوں کے ہاتھ میں جاتا ہے جو خطرناک ہوتے ہیں، پھر جب خطرناک تصور خطرناک ہاتھوں میں جاتا ہے تو دونوں ایک دوسرے کو خطرناک تر بناتے چلے جاتے ہیں اور یہ کہنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون کس کو خطرناک بنارہا ہے۔ یہ اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ ایک مسلک اگر پاکیزہ ہو تو برے لوگوں کا کسی مسلک کی طرف توجہ کرنا اور آگے بڑھ کر اس کو ہاتھ میں لینا خود اس بات کی علامت ہے کہ اس مسلک کے مزاج میں کوئی بنیادی خرابی ہے جس کی وجہ سے خدا کے نیک بندے اس سے دور بھاگتے ہیں اور برے بندے اس کی طرف لپکتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے آپ تقابل کرکے دیکھیں کہ اسلام کو لے کر اٹھنے والا کس قدر پاکیزہ انسان تھا اور اس کی دعوت پر لبیک کہنے والے کس سیرت و کردار کے لوگ تھے اور اس کے برعکس مارکس کس قسم کا انسان تھا اور اس کی دعوت پر جو لوگ لبیک کہہ کر آگے بڑھے اور جنہوں نے آگے چل کر اس کے مسلک کو عملاً رائج کیا وہ کس سیرت و کردار کے انسان ہیں جب تک کسی انسان کی بنیادی انسانی اقدار مائوف نہ ہوچکی ہوں وہ ان دونوں کو ایک درجے میں نہیں رکھ سکتا اور وہ شخص تو بدترین اخلاقی مریض ہی ہوگا جو مارکس اور مارکسیوں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحابؓ پر ترجیح دے۔
سوال نمبر ۱۳: آپ موجودہ سرمایہ دار سوسائٹی کے کس حصے، شق، تصور اور سانچے سے متفق ہیں؟ متفق ہیں تو کیوں اور کس لیے؟
جواب: موجودہ سرمایہ دارانہ سوسائٹی کو تو میں ایک پھوڑا سمجھتا ہوں۔ اس کے کسی حصے، شق، تصور یا سانچے سے اتفاق کے بجائے مجھے تو اس کے علاج کی فکر ہے اور علاج کے لیے جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں میں ڈاکو کے خنجر کے بجائے ڈاکٹر کا نشتر ہی استعمال کرنے کو صحیح اور برحق سمجھتا ہوں۔
سوال نمبر ۱۴: ہم مسلمان اللہ کو کائنات کا مالک و خالق سمجھتے ہیں، تمام انسان اس کی مخلوق ہیں اور یہ مخلوق عیال اللہ ہے۔ تو پھر عیال اللہ، جو اشرف المخلوقات بھی ہے، اس کائنات کے ذرائع پیداوار کی اجتماعی مالک کیوں نہیں؟ پھر اس حقیقت کی نفی سے انفرادی ملکیت کا تصور یا جواز کیوں کر پیدا کیا جاسکتا ہے؟ جب مسلمانوں کا معاشرہ اعتقادات و عبادات میں محمود و ایاز کے فرق کو تسلیم نہیں کرتا تو اقتصادیات و معاشیات میں جو زندگی بسر کرنے کا ذریعہ ہیں، اختلافات اور فاصلے پیدا کرنا کس رو سے جائز ہوسکتا ہے؟
جواب: ہم مسلمان اللہ کو اس کائنات کا محض خالق و مالک ہی نہیں سمجھتے بلکہ حاکم بھی مانتے ہیں اور حاکم کی حیثیت سے ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صرف اسی کا یہ حق ہے کہ ہمارے لیے وہ اپنی پیدا کردہ اشیاء (جن کے اندر خود ہمارا جسم اور اس کی قوتیں اور قابلیتیں بھی شامل ہیں) کے استعمال کا قانون اور ضابطہ بھی مقرر کرے۔ ہمارا یہ عقیدہ بھی ہے کہ وہ قانون اور ضابطہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب اور اپنے رسول ﷺ کے ذریعے سے ہمیں دیا ہے۔ اس قانون کی رو سے اگر ہماری زندگی کے لیے اصول یہ بتایا گیا ہو تاکہ تمام ذرائع پیداوار اجتماعی ملکیت میں ہونے چاہئیں اور انفرادی ملکیت میں نہیں ہونے چاہئیں تو مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس کی پابندی کرنا ہمارا فرض ہوتا اور ہمارے رسولؐ اور ان کے خلفائے راشدین نے پوری معاشی زندگی کو اجتماعی ملکیت میں چلا کر دکھایا ہوتا تاکہ بعد کی نسلوں کے لیے وہ نمونہ بنے لیکن جو شخص بھی قرآن اور سنت کو پڑھے گا اسے یہ معلوم ہوجائے گا کہ نہ ذرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت میں لینے کا کوئی تصور وہاں موجود ہے اور نہ عہد رسالت اور عہد خلافت راشدہ میں ایسا کوئی نظام قائم کیا گیا تھا بلکہ اس کے برعکس وہاں پوری معاشی زندگی کا نقشہ ایک پابند حدود آزاد معیشت کا نقشہ نظر آتا ہے جس میں ذرائع پیداوار کو افراد کی ملکیت میں رکھ کر تمیز حلال و حرام، انفاق فی سبیل اللہ، زکوٰۃ، وراثت، وصیت وغیرہ کے احکام دیے گئے ہیں۔ مزید برآں قرآن و سنت میں عبادات (جن کے اندر زکوٰۃ اور حج بھی شامل ہیں) اخلاق، معاشرت اور سیاست و تمدن کا جو نظام پیش کیا گیا ہے، اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظام اجتماعی ملکیت کے بجائے انفرادی ملکیت کے ساتھ ہی مناسبت رکھتا ہے اور اس نظام میں فرد کی اخلاقی و روحانی ترقی اس کے بغیر ہو نہیں سکتی کہ وہ اپنی معیشت میں آزاد ہ اور قانونی جبر کے بجائے اپنے دلی جذبے سے اپنی دولت کو خدا اور اس کے دین اور والدین اور رشتہ داروں ار ہمسایوں اور سائل و محروم اور پورے معاشرے کے حقوق ادا کرنے میں صرف کرے۔ اس کے ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ایک طرف عہد رسالت سے لے کر اس دور تک تمام فقہاء اور محدثین اور مفسرین انفرادی ملکیت ہی کا تصور پیش کررہے ہیں اور دوسری طرف اجتماعی ملکیت کے نظام کا یہ نیا تصور ملکیت مغرب کے کچھ ایسے لوگوں نے پیش کیا ہے جو نہ صرف یہ کہ خدا اور رسول کی طرف رہنمائی حاصل کرنے کے لیے رجوع نہیں کرتے بلکہ سرے سے خدا اور رسالت کے منکر ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ استحصال کرنے والے طبقوں نے اپنی اغراض کے لیے خدا اور رسالت اور وحی کا افسانہ گھڑا ہے تاکہ غریب عوام کو افیون کھلا کر سلادیں اور جو پیداواری نظام ان کی اغراض کے لیے مفید ہے اس کو مذہبی سند فراہم کریں۔ اب آخر یہ بات کوئی عقلمند کیسے تصور کرسکتا ہے کہ قرآن کا اصل منشاء ان لوگوں نے سمجھا ہو اور عہد رسالت سے لے کر آج تک پوری امت قرآن کے اس منشاء تک پہنچنے میں ناکام رہی ہو؟
سوال نمبر ۱۵: پاکستان میں ان لوگوں کی تعداد کیا ہوگی جو سوشلزم اور کمیونزم کے لیے مخفی و جلی کوششوں میں سرگرم کار ہیں؟
جواب: آپ کے اس سوال کا جواب اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ کم از کم جلی گوشوں میں ان لوگوں کی مردم شماری ہوجائے اور مخفی گوشوں میں ان کی تلاش و جستجو کرکے ان کی تعداد معلوم کی جائے۔ رہا اندازہ اور تخمینہ تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ اصلی سوشلسٹ اور کمیونسٹ جو سوچ سمجھ کر علمی حیثیت سے مطالعہ کرنے کے بعد اس فلسفے پر ایمان لائے ہوں، ہمارے معاشرے میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ زیادہ تر جو لوگ ان کے بھرے میں آکر اشتراکیت کا دم بھرتے ہیں وہ چار قسموں پر مشتمل ہیں۔ ایک وہ جو فیشن کے طور پر ہر نئے نعرے کے پیچھے دوڑنے والے ہیں۔ دوسرے وہ جنہوں نے مجمل طور پر بس یہ سمجھ لیا ہے کہ موجودہ سرمایہ داری اور جاگیرداری نظام کی زیادتیوں سے نجات کا مجرب نسخہ وہ سوشلزم ہے جو معاشی مساوات کا نعرہ بلند کرتا ہے۔ تیسرے وہ جو دراصل اسلام کی اخلاقی قیود سے آزاد رہنا چاہتے ہیں۔ چوتھے مزوروں اور کسانوں وغیرہ کا وہ عنصر جسے کمیونسٹوں نے یہ سبز باغ دکھایا ہے کہ ان کی رہنمائی میں توڑ پھوڑ اور گھیرائو جیسے ہتھکنڈے استعمال کرکے وہی کارخانوں اور زمینوں کا مالک ہوجائے گا لیکن اس بات سے وہ بے چارا بے خبر ہے کہ یہ سبز باغ آخرکار کالا باغ ثابت ہوگا۔ یہ چاروں طبقے بھی بہ حیثیت مجموعی ہمارے معاشرے میں ایک بہت ہی چھوٹی اقلیت ہیں۔ عام مسلمان خواہ اپنے اعمال میں کیسا ہی بگڑا ہوا ہو، بہرحال وہ ان دینی تعلیمات اور اقدار پر یقین رکھتا ہے جو اسے اللہ اور اس کے رسول سے ملی ہیں۔ خود مزدوروں اور کسانوں کی اکثریت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
سوال نمبر ۱۶: کیا یہ واقعہ نہیں کہ ملک کا نشریاتی، اطلاعاتی اور مطبوعاتی نظام بڑی حد تک لادین عناصر بالفاظ دیگر (Fellow Travellers) کے ہاتھ میں رہا ہے اور انہوں نے ہماری نئی پود کے ذہن میں تہذیبی انتشار اور دینی تنفر پیدا کیا ہے؟
جواب: مجھے آپ کی اس بات سے اتفاق ہے اور اس پر میں یہ اضافہ کرتا ہوں کہ ہمارے ملک کا غیراسلامی تعلیمی نظام بھی اس میں مددگار ثابت ہورہا ہے۔
سوال نمبر ۱۷: آپ باور کرتے ہیں کہ کسی کو اس غرض سے غیرملکی امداد مل رہی ہے؟
جواب: میرے پاس یہ معلوم کرنے کے ذرائع نہیں ہیں کہ ان لوگوں کو کوئی غیرملکی امداد مل رہی ہے یا نہیں۔ میں کسی ذریعہ و علم کے بغیر کسی پر کوئی الزام لگانے کا عادی نہیں ہوں۔
سوال نمبر ۱۸: اس الزام کا مصنف اور محرک کون ہے کہ جماعت اسلامی کو امریکہ امداد دے رہا ہے؟ اس کے پس منظر، پیش منظر اور تہہ منظر کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب: یہ الزام ہمارے اوپر ایک مدت سے لگایا جارہا ہے اور اس کا مصنف اور محرک کوئی ایک نہیں ہے بلکہ مختلف گوشوں سے یہ الزام ان تمام لوگوں نے لگایا ہے جنہیں ہمارے وہ کوششیں ناگوار ہیں جو اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے ہم انتیس (۲۹) سال سے کررہے ہیں۔ وہ ہر جھوٹے سے جھوٹا الزم لگانے کے لیے آزاد ہیں کیونکہ انہیں اس امر کی کوئی فکر لاحق نہیں ہے کہ کوئی الزام کسی پر لگانے کی بازپرس بھی کہیں ہوتی ہے اور کوی خدا بھی ہے جس کے سامنے ان کو کبھی اپنے اقوام و اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔ ان کے لیے یہ بالکل حلال ہے کہ کسی شخص یا گروہ کو نیچا دکھانے کے لیے جو الزام بھی کارگر ہوتا نظر آئے بے تکلف لگادیں قطع نظر اس سے کہ اس کی کوئی بنیاد ہو یا نہ ہو۔ اب سے چند سال پہلے جب خان حبیب اللہ خان اس وقت کے وزیر داخلہ نے علانیہ یہ الزام ہم پر لگایا تھا اس موقع پر میں نے ڈھاکہ میں تقریر کرتے ہوئے چند باتیں کہی تھیں جس کو یہاں دہرا دینا میں کافی سمجھتا ہوں۔ میں نے اس تقریر میں کہا تھا
’’ایک ملک کے ذمہ دار وزیر کے لیے یہ نہایت شرمناک بات ہے کہ وہ بغیر کسی ثبوت کے اپنے ملک کی کسی جماعت یا کسی شخص کے بارے میں اس طرح کا الزام لگائے۔ میں چیلنج کرتا ہوں کہ اگر کسی کے پاس اس کا کوئی ذرہ برابر بھی ثبوت ہے تو وہ لے کر آئے، کسی عدالت میں پیش کرے اور اس الزام کو ثابت کرے‘‘۔
یہ بات میں نے ۲۴ نومبر ۶۳ء کو ڈھاکہ میں پلٹن میدان کے ایک جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے کہی تھی اور یہ تقریر اسی زمانے میں ڈھاکہ کی جماعت اسلامی نے پمفلٹ کی شکل میں شائع بھی کردی تھی اس میں یہ چیلنج میں نے اس بنا پر دیا تھا کہ ملک میں پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ موجود تھا اور اب بھی موجود ہے جس کی رو سے کوئی ایسی پارٹی اس ملک میں ازروئے قانون کام نہیں کرسکتی جو کسی بیرونی طاقت سے مدد لیتی ہو۔ نیز میں نے یہ چیلنج وزیر داخلہ کو دیا تھا کیونکہ ان سے زیادہ کسی کے پاس بھی ایسے ذرائع موجود نہیں ہوسکتے تھے کہ اس الزام کو ثابت کریں اگر اس کی کوئی حقیقت ہو۔ آگے چل کر اس تقریر میں میں نے یہ بھی کہا تھا:
’’میری نظر میں یہ الزام نہ صرف شرمناک ہے بلکہ یہ ملک کی آبرو مٹادینے والی چیز ہے۔ دنیا کی قومیں سوچیں گی کہ پاکستان کے لوگ ایسے ہیں کہ ان کے اندر ہر ایک بکائو مال ہے، باہر کی جو قوم چاہے ان کے ہاں کی کسی جماعت کو خرید لے یا کسی لیڈر کا سوا کرلے۔ کیا یہ ملک کی عزت کو خاک میں ملادینے والی بات نہیں ہے کہ آپ ساری دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں سارے کے سارے بکائو مال ہیں اور غیروں کو یہ امید دلاتے ہیں کہ وہ یہاں آکر لوگوں کو خریدتے پھریں؟ میں پوچھتا ہوں کہ اگر باہر کے لوگ مجھ کو اور جماعت اسلامی کو خرید سکتے ہیں تو آخر جناب نے کیوں نہ خرید کر دکھادیا؟ اس سولہ سال کی مدت میں کوئی ایک شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ مجھے یا جماعت اسلامی کو خرید سکا ہے۔ بہت سے بکائو مال اس ملک میں پڑے ہوئے ہیں جو حکمرانوں کے ہاتھ بکے ہیں اور سب کو معلوم ہے کہ کون کون بکے ہیں لیکن جماعت اسلامی خدا کے فضل سے آج تک کسی کے ہاتھ نہیں بکی ہے۔ اگر جماعت اسلامی کو باہر کے لوگ خرید سکتے تھے تو سب سے پہلے گھر والے کیوں نہیں خرید کر دکھادیتے؟‘‘
جو کچھ میں نے اس تقریر میں کہا تھا وہی آج بھی کہتا ہوں لیکن آپ جانتے ہیں کہ جسے نہ خدا کی شرم ہو نہ خلق کی، اس کی زبان دنیا میں کون بند کرسکتا ہے۔
سوال نمبر ۱۹: ہمارے ملک کے کچھ لیڈر عدم تشدد پر یقین نہیں رکھتے اور کھلے بندوں تشدد کی تلقین کرتے اور خانہ جنگی کی دھمکیاں دے رہے ہیں، ہم ان سے عہدہ برآ ہوسکتے ہیں؟ کیونکر؟
جواب: ہم ان سے صرف اسی طرح عہدہ برآ ہوسکتے ہیں کہ عوام اور تعلیم یافتہ لوگوں کے خیالات درست کریں اور اسلام اور غیراسلام کا فرق واضح طور پر انہیں سمجھائیں۔
سوال نمبر ۲۰: جماعت اسلامی میں اتنی طاقت ہے کہ ان کا مقابلہ کرسکے؟
جواب: جماعت اسلامی نے کبھی اپنی طاقت پر بھروسہ نہیں کیا، اس کا بھروسہ ہمیشہ سے اللہ اور اس کے دین حق کی طاقت پر ہے۔
سوال نمبر ۲۱: ایسا ممکن ہے کہ اسلام پسند طاقتیں اکٹھی ہوں؟
جواب: یہ نہ صرف ممکن ہے بلکہ ایسا ہونا چاہیے اگر اس وقت وہ اکٹھے نہ ہوئے تو پھر اور کونسا وقت آئے گا، جب وہ اکٹھے ہوں گے۔
سوال نمبر ۲۲: ممکن ہے تو ان کے اتحاد کی صورت کیا ہوگی؟
جواب: اتحاد کی عملی صورتیں بہت سی ہوسکتی ہیں جن کو باہمی مشورے سے اختیار کیا جاسکتا ہے لیکن شرط اول یہ ہے کہ جو لوگ بھی یہاں اسلام چاہتے ہیں وہ اخلاص کے ساتھ صرف اسلام اور خالص اسلام کی سربلندی کے لیے متحد ہوں اور اپنے شخصی اور گروہی تعصبات کو خدا اور اس کے دین کی خاطر دل سے نکال دیں۔
سوال نمبر ۲۳: کیا یہ واقعہ نہیں کہ پاکستان میں اسلام دوستوں کی بے پناہ اکثریت ہے لیکن ان میں اتفاق نہیں۔ اتفاق نہ ہونے کا باعث کیا ہے؟ کیا انہیں کوئی طاقت استعمال کررہی ہے یا ان کی اپنی نظر فروعات میں الجھی ہوئی ہے یا اس کے علاوہ کوئی اور سبب ہے؟
جواب: اتفاق نہ ہونے کے بہت سے اسباب ہیں۔ کچھ لوگوں کی نظر فروعات میں الجھی ہوئی ہے۔ کچھ لوگ طرح طرح کے تعصبات میں مبتلا ہیں۔ کچھ لوگ اسلام کے معاملے میں پوری طرح مخلص نہیں ہیں اور اسلام کے ساتھ غیراسلام کا جوڑ لگانا مناسب یا ضروری سمجھتے ہیں لیکن صاف صاف اس کو ظاہر کرنے سے بچنا بھی چاہتے ہیں۔ رہا آپ کا یہ سوال کہ کیا کسی گروہ کو کوئی طاقت استعمال کررہی ہے تو اس کے بارے میں میرے پاس کوئی ذریعہ معلومات نہیں ہے اور میں قرآن کے اس ارشاد پر ایمان رکھتا ہوں کہ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْم’‘
سوال نمبر ۲۴: مغربی اور مشرقی پاکستان میں کمیونسٹوں کے اثرات کا سرچشمہ کہاں ہے؟ یعنی وہ کون کون سے ادارے، گوشے اور کمین گاہیں ہیں جہاں سے انہیں نشوونما پانے کی آب و ہوا میسر آرہی ہے؟
جواب: برصغیر ہند و پاکستان میں ظاہر ہے کہ کمیونزم باہر سے آیا ہے۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ دنیا میں متعدد ملک ایسے ہیں جن کے اندر کمیونسٹ نظام قائم ہے اور کم از کم دو بڑی طاقتیں ایسی ہیں جو تمام دنیا میں کمیونزم کو پھیلانے اور کمیونسٹ انقلاب برپا کرانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس بات سے بھی کوئی ناواقف نہیں ہے کہ غیرکمیونسٹ ممالک میں جہاں بھی کمیونسٹ بالائے زمین یا زیرزمین کام کررہے ہیں ان کو پارٹی لائن باہر ہی سے ملتی ہے جس کے مطابق ان کی پالیسیاں بنتی اور بدلتی ہیں۔ اس کے بعد میں اب آپ کو کیا بتائوں کہ ہمارے ملک میں کمیونزم کے اثرات کا سرچشمہ کہاں ہے؟
سوال نمبر ۲۵: آپ کو معلوم ہے کہ کمیونسٹ ہر کہیں اقلیت میں ہوتے ہیں۔ اشتراکی انقلاب کے لیے عوام کے اذہان میں تنفر پیدا کرتے، ملک میں بدامنی پھیلاتے، نوجوانوں کو نعروں کی دلفریبی سے محسور کرتے، بڑے بڑے تصادمات کی راہ کھولتے، ملک کی حکومت سے جمہوری عناصر کو مرواتے، ان پر قاتلانہ حملے کرواتے، ان کے اداروں کو تاراج کرتے، جھوٹ بولتے، جھوٹ پھیلاتے، جھوٹ کو سچائی کا لبادہ اوڑھا کر ایک زبردست بحران پیدا کرتے اور تب حکومت پر قابض ہوکر اپنی سیادت کا نقش جماتے ہیں۔ ان کی جارحانہ اقلیت ہمیشہ اسی رنگ ڈھنگ سے کسی ریاست پر قبضہ کرتی اور اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد مخالفوں کا قتل عام کرتی ہے۔ یہی فضا یہاں پیدا کی جارہی ہے، پاکستان میں کوئی لیڈر شپ یا کوئی تنظیم اتنی طاقتور ہے جو ان کا مقابلہ کرسکے؟
جواب: پاکستان میں کوئی لیڈر شپ یا کوئی تنظیم ان کے مقابلہ کی طاقت رکھتی ہے یا نہیں، اس کے بارے میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن میرا خیال یہ ہے کہ پاکستان کے عام مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کے اثرات اتنی گہری جڑوں سے جمے ہوئے ہیں کہ انشاء اللہ یہاں کمیونسٹوں کے ہتھکنڈے کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ میں نے دنیا کے مختلف مسلمان ممالک کا مطالعہ کیا ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ تین ملک ایسی ہیں جن میں اسلام کے اثرات کی جڑیں بہت گہری اور مضبوط ہیں اور ان کا مقابلہ کمیونسٹ اپنے کسی ہتھکنڈے سے نہ کرسکیں گے۔ ایک پاکستان، دوسرے ترکی، اور تیسرے سوڈان۔
سوال نمبر ۲۶: اسلام پسند انقلابی طاقتو کو جو اس ملک می واقعی اسلام لانا چاہتی ہیں، کن طریقوں سے لادین عناصر کی اس کھیپ کا مقابلہ کرنا چاہیے؟
جواب: اسلام پسند انقلابی طاقتوں کو جو اس ملک میں واقعی اسلام لانا چاہتی ہیں، ان کا مزاج چونکہ اسلامی ہے اور اسلام زور زبردستی یا زیرزمین کام کرنے کے بجائے تبلیغ و تلقین کے ذریعے کھلم کھلا اصلاحِ حق کی کوشش کرنے کا طریقہ بتاتا ہے، اس لیے وہ ہر بے دین تحریک کا مقابلہ انہیں طریقوں سے کریں گی، اور ہمیں یقین ہے کہ آخر کار یہی طریق کار کارگر ثابت ہوگا۔ اگر ہم اپنے ملک کے عوام اور خواص کی عام رائے کو اس بات پر مطمئن کردیں کہ ان کے تمام مسائل کا بہترین حل اسلام میں موجود ہے اور دوسرے تمام طریقے ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے اور زیادہ الجھا دینے والے ہیں تو کوئی طاقت انہیں گمراہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے گی اور کسی طاقت کی زبردستی بھی نہ چل سکے گی۔
سوال نمبر ۲۷: کیا یہ ممکن ہے کہ اشتراکیوں کی ذہنی یلغار کے مقابلے میں وہ تمام سیاسی جماعتیں متحد ہوجائیں جو اسلام کے وسیع تر حلقہ میں ہیں ار جن کے سامنے نظریہ پاکستان کی اساس ہے؟
جواب: جی ہاں یہ ممکن ہے اور نہ صرف ممکن ہے بلکہ ایسا ہونا چاہیے۔
سوال نمبر ۲۸: کیا یہ ضروری نہیں کہ ہم تعلیمی اداروں، نشریاتی شعبوں اوراخباری تنظیموں سے کمیونسٹوں کے اخراج پر زور دیں تاکہ ہماری نئی نسل کو وہ ان ذرائع سے گمراہ نہ کرسکیں؟
جواب: جی ہاں یہ ضروری ہے۔ ان لوگوں کا عمل دخل مذکورہ بالا اداروں میں جس حد تک رہا ہے، اس کے بدترین نتائج پچھلے دنوں ہمارے سامنے آچکے ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر اس مرض کے علاج کی فکر نہ کی گئی تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ آگے اور کن نتائج سے ہمیں دوچار ہونا پڑے گا۔
سوال نمبر ۲۹: سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کی متشددانہ کارروائیوں، خانہ جنگی کو ہوا دینے والی تقریروں اور بیانوں کے سدباب کا طریق کیا ہے؟ ان سے کیونکہ نپٹاجائے؟ واضح رہے کہ کمیونسٹوں کے نزدیک اخلاق اور اس کے ضوابط کوئی معنی نہیں رکھتے۔ صداقت محض ایک مفروضہ ہے۔
جواب: ہم تشدد کے مقابلے میں تشدد اختیار کرنے کو صحیح نہیں سمجھتے کیونکہ اس سے وہ مقصد آپ سے آپ پورا ہوجائے گا جوخانہ جنگی کی دعوت دینے والوں کے پیش نظر رہا ہے۔ ہمارے نزدیک اسلام کی حامی طاقتوں کو صرف مدافعت پر اکتفا کرنا چاہیے جس کا انہیں بہرحال حق حاصل ہے اور ان کی زیادتیوں کا جواب تشدد سے دینے کے بجائے ملک کی عام رائے کو جمہوری طریقوں سے اسلام کے حق میں ہموار کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے۔
سوال نمبر ۳۰: اس ملک میں کارخانہ داروں اور جاگیرداروں کی اجتماعی ذہنیت کے متعلق آپ کی رائے کیا ہے؟
جواب: افسوس ہے کہ ان کی اجتماعی ذہنیت اسلام کی راہ سے منحرف ہے۔ جن اسباب نے اس ملک میں غیراسلامی نظریات کے فروغ کی راہ ہموار کی ہے اس میں بہت بڑا حصہ انہی لوگوں کی غلط روش کا ہے۔
سوال نمبر ۳۱: اس لیڈر شپ سے جو ملک کے جمہوری محاذ سے پیدا ہوئی۔ آپ آپ توقع کرسکتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی نظریاتی سرحدوں کو تحفظ دے سکتی ہے؟
جواب: اس ملک کی نظریاتی سرحدوں کو تحفظ صرف وہی لیڈر شپ دے سکتی ہے جو اخلاص اور صحیح فہم و ادراک کے ساتھ اسلام کے برحق ہونے کا یقین بھی رکھتی ہو اور یہ بھی سمجھتی ہو کہ اسلام اور صرف اسلام ہی پاکستان کے وجود میں آنے کا اصل سبب ہے، اسی کی بدولت ایک ہزار میل کا فاصلہ ہونے کے باوجد اس ملک کے دونوں بازو ایک ملک بنے ہیں، وہی پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اصل حد فاصل ہے اور اسی کی روح جہاد تھی جس نے اس عظیم خطرے سے ملک کو بچایا جو ۱۹۶۵ء کی جنگ میں پیش آیا تھا۔