علامہ سید رشید رضا مصری مرحوم لکھتے ہیں کہ طرابلسِ شام میں عیسائیوں کے ایک مقتدر رہنما اسکندر کاستفلیس تھے۔ وہ وہاں روس اور جرمنی دونوں کے قونصل کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ میں اُس وقت تعلیم حاصل کررہا تھا اور اپنے والد کے ایک کام سے اُن کے پاس گیا، اس موقع پر دورانِ گفتگو میں انہوں نے اسلام اور عیسائیت کے تقابل کے سلسلے میں ایک ایسی بات کہی جو میں کبھی بھول نہیں سکتا۔ وہ کہنے لگے:
’’اسلام کی خوبیاں پہاڑوں کی طرح عظیم پایہ، بلند مرتبہ اور مستحکم ہیں، لیکن تم لوگوں نے انہیں اس طرح دفن کر رکھا ہے کہ نہ وہ کسی کو نظر آتی ہیں نہ ان کا پتا چلتا ہے، اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارے پاس اپنے دین عیسائیت کی خوبیاں نہایت تھوری اور وہ بھی بہت مدھم ہیں لیکن ہم نے انہیں ’’مسیحیت کے فضائل‘‘ کے نام سے پھیلا پھیلا کر دنیا بھر دی ہے‘‘۔
(الوحی المحمدیؐ: سید رشید رضا، ص 170، مطبعۃ المنار مصر 1354ھ) (مفتی محمد تقی عثمانی۔” تراشے“)