سمہ خاندان کا ایک اور بادشاہ تھا، جس کا نام تھا جام سنجر۔ سنجر اس قدر خوب صورت اور حسین تھا کہ لوگ اس کے حسن اور خوب صورتی کی وجہ سے بغیر تنخواہ کے اس کی نوکری کرتے تھے۔ ابھی سنجر بادشاہ نہیں ہوا تھا کہ ایک بزرگ جو سنجر سے بہت محبت رکھتے تھے ایک دن یہ اُن کے پاس گیا اور کہاکہ میری تمنا یہ ہے کہ میں سندھ کا بادشاہ بن جائوں، خواہ میری بادشاہت آٹھ ہی دن کے لیے کیوں نہ ہو۔ ان بزرگ نے کہا: ’’میاں! تم آٹھ دن کی بادشاہت کی سوچ رہے ہو، حالانکہ تم تو آٹھ سال تک سندھ کے بادشاہ رہوگے‘‘۔
خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جب سندھ کا بادشاہ جام رائے دند مرا تو ملک کے بڑے بڑے لوگوں نے اتفاق کرکے سنجر کو بادشاہ بنادیا۔
سنجر کی بادشاہت کے زمانے میں سندھ کی رونق اور شادابی بڑھ گئی۔ رعایا اور فوج بڑے آرام اور چین سے زندگی بسر کرتے تھے۔ سنجر عالموں اور درویشوں کی بڑی قدر کرتا تھا اور ہمیشہ ان کی خاطرداری میں لگا رہتا تھا۔ اسے غریبوں کا بہت خیال تھا، اس نے فقیروں، بیوائوں اور مسکینوں کی تنخواہیں مقرر کی تھیں۔ ٹھیک آٹھ سال کی حکومت کے بعد سنجر نے وفات پائی۔
(پاکستان اور سیکولر ازم، احمد امام شفق ہاشمی، اسلامک ریسرچ اکیڈمی)