شخصیت

شخصیت ’’ذات‘‘ کے تصور کو کہتے ہیں۔ ذات ایک نامعلوم اکائی ہے جس کی وسعت، عمق اور بلندی ناقابلِ پیمائش ہے۔ ہم اس کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتے کہ ’’ہے‘‘ کیا ہے، کیسی ہے، اس کا ہم علم نہیں رکھتے، البتہ اس کا ایک ’’تصور‘‘ ضرور رکھتے ہیں۔ مثلاً میں اپنے بارے میں کچھ سوچ سکتا ہوں، اپ کچھ اور۔ جب ہمارے بارے میں اپنا یہ سوچنا مستقل ہوجاتا ہے، اور جب ہم لوٹ پھر کر باربار اپنے متعلق چند تصورات کی تکرار کرنے لگتے ہیں تو ان سے ہماری شخصیت بننے لگتی ہے، عموماً یہ تصورات پسندیدہ ہوتے ہیں جنہیں ہم ابتداً اپنے ماحول سے اخذ کرتے ہیں۔ جب بچے کو ماں ’’میرا چاند“، ’’میرا شہزادہ‘‘ کہتی ہے، جب باپ اس کی کسی خوبی پر اسے شاباش دیتا ہے تو بچہ ان تصورات کو اپنانے لگتا ہے، اور فطری طور پر تخیل کے ذریعے ایک بڑے تصور کی باریک جزئیات اور تفصیلات مرتب کرنے لگتا ہے۔ یہ عمل شخصیت کی پیدائش میں مدد دیتا ہے۔ شریف لڑکا، بہادر لڑکا، ہمدرد لڑکا.. یہ سب لڑکے کے وہ تصورات ہیں جن کی مدد سے ماں باپ اور دوسرے اسے ایک سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ بہت آسانی سے اپنے بچوں میں اس سانچے کے بننے کا عمل دیکھ سکتے ہیں۔ جب بچہ ان میں سے کسی تصور کو قبول کرنے لگتا ہے تو پھر رفتہ رفتہ سانچے کو پختہ کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ آپ بچے کی کسی غلطی پر اُس کو اس طرح ٹوکتے ہیں ’’چھی چھی، تم تو بڑے نیک لڑکے ہو، تم نے اپنی بہن کو کیوں مارا؟“ بچے نے اپنی بہن کو یوں مارا کہ وہ صرف نیک نہیں تھا کچھ اور بھی تھا۔ وہ غصہ، شرارت، پسند اور حسد کرنے والا بھی تھا۔ مگر اب وہ بار بار ’’نیک لڑکے‘‘ کے تصور کو اپنے سامنے رکھنے لگتا ہے اور اس تصور کے مطابق عمل کرنے لگتا ہے۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے وہ ایک سانچے میں ڈھالا جارہا ہے۔ جب یہ زیادہ مکمل اور پختہ ہوجائے گا تو شخصیت پیدا ہوجائے گی۔ ہم یہ سانچہ کس ذریعے سے پیدا کرتے ہیں؟ پسندیدگی کے اظہار سے۔ ولیم جیمس نے لکھا ہے کہ پسندیدہ بننے کی خواہش انسان کی سب سے گہری خواہش ہے، بچے میں اس خواہش کی موجودگی آپ کے لیے، آپ کے کام کو آسان بنادیتی ہے، اور آپ ہنستے ہنساتے بچے کو اپنے اشاروں پر نچانے لگتے ہیں۔ البتہ یہاں ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے۔ بچہ صرف ہمارے ’’شعوری‘‘ اعمال سے متاثر نہیں ہوتا، وہ ہمارے ’’غیر شعوری‘‘ اعمال سے بھی متاثر ہوتا ہے، مثلاً ایک گھر میں بچے کو نیک اور بااخلاق شخصیت میں ڈھالنے کا عمل کیا جاتا رہا ہو، مگر گھر کے افراد خود اس کے خلاف عمل کررہے ہوں تو بچہ ان اعمال سے بھی متاثر ہوتا ہے اور اس میں ایک کشمکش پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ اُن اعمال کو پسندیدہ سمجھے جنہیں گھر والے زبانی دہراتے رہتے ہیں، یا اُن اعمال کو جن پر وہ خود عامل ہیں؟ بچے سے زیادہ حساس اور بھانپنے والا اور کوئی نہیں ہوتا۔ وہ ماں کی غصے بھری نگاہ میں پیار کو اس طرح پڑھتا ہے جس طرح آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہیں۔ اسی طرح جھوٹے پیار کو بھی وہ اچھی طرح جان لیتا ہے۔ میں تو جب کسی اولاد کو یہ کہتے سنتا ہوں ’’ابا کو نیکی سے کیا فائدہ ہوا جو میں نیک بنوں!‘‘ تو میں فوراً سمجھ لیتا ہوں کہ اس گھر میں لاشعوری طور پر نیکی کے خلاف شکایتیں ضرور کی جاتی ہوں گی، اور نیکی پر اعتماد میں کمی ضرور پائی جاتی ہوگی۔
بہرحال شخصیت اس طرح ذات سے ایک الگ چیز ہے۔ جس طرح بس ڈیزل سے چلتی ہے اسی طرح اس کا ڈیزل پسندیدہ تصور ہے۔ یہ تصور ایک سرشاری کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ ذرا اُس وقت کی کیفیت کا اندازہ کیجیے جب کوئی حسینہ آپ سے کہہ دے کہ ’’آپ بہت خوب صورت ہیں‘‘۔ بار بار آئینہ دیکھنے کو دل چاہتا ہے اور ٹائی کی گرہ سو سو بار کھول کر دوبارہ باندھی جاتی ہے۔ اسی طرح ایک شاعر کو دیکھیے جسے اس کے شعر کی بھرپور داد ملی ہو۔ امیر مینائی کا کہنا ہے کہ سو بوتلوں کا نشہ بھی اتنا نہیں ہوتا۔ یہ سرشاری بار بار حاصل کرنے کے لیے ہم پسندیدہ عمل کو بار بار دہراتے ہیں۔ ایک عمل جب بار بار دہرایا جاتا ہے تو وہ ہمارے دوسرے اعمال کو بھی متاثر کرنے لگتا ہے اور اپنے اردگرد اپنے اثر کا ایک دائرہ بنالیتا ہے۔ یہ دائرہ شخصیت کے سانچے میں بنتا ہے اور خود شخصیت سے بھی محدود تر ہوتا ہے۔ اب یوں سمجھیے کہ سب سے بڑا دائرہ ذات کا ہوتا ہے، پھر اس کے اندر ایک اس سے چھوٹا دائرہ شخصیت کا بنتا ہے، اور پھر شخصیت کے اندر ایک اس سے بھی چھوٹا دائرہ بنتا ہے، اس دائرے کو ہم کردار کہتے ہیں۔ بڑے اور چھوٹے دائروں کی یہ ترتیب اندرونی نقطہ نظر سے ہے، یعنی جب ہم اپنے وجود پر اپنے اندر سے غور کریں تو پہلا دائرہ ذات کا ہے، دوسرا شخصیت کا، تیسرا کردار کا۔ سب سے بڑا پہلے، پھر اس سے چھوٹے۔ لیکن اگر اپنی ذات کو باہر سے دیکھیں تو ترتیب الٹ جاتی ہے۔ باہر سے دیکھنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اپنے وجود کو اس طرح دیکھ رہے ہیں جس طرح دوسرے اسے دیکھتے ہیں، یا وہ دوسروں پر ظاہر ہوتا ہے۔ اب کردار پہلے ہے، پھر شخصیت، پھر ذات۔ اب کردار سب سے بڑا دائرہ بن جاتا ہے اور ذات سب سے چھوٹا۔ کردار بار بار دہرایا ہوا عمل ہے۔ ایک آدمی کو بار بار ایک ہی قسم کے کام کرتے اور ایک ہی قسم کی باتیں کرتے دیکھ کر پہلے ہم اس کے کردار کو سمجھتے ہیں اور پھر کردار سے شخصیت کا اندازہ لگاتے ہیں۔ بس ہمارے علم اور قیاس کی یہ حد ہے۔ ذات ہمارے لیے ’’سر مکتوم‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔
(سلیم احمد۔ ”عسکری حسن اور غالب، اقبال“)

چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی

علامہ بسا اوقات غفلت اور بے عملی میں ڈوبی ہوئی اپنی قوم کو جگانے کے لیے غصے اور جلال کا مظاہرہ بھی کرتے ہیںتو اگلے لمحے یہ بتا دیتے ہیں کہ میرے کلام کی تلخی دراصل اس کڑوی دوا کی طرح ہوتی ہے جس کے نتیجے میں مریض کو شفا نصیب ہوتی ہے، اور اسی طرح بعض اوقات کسی مہلک زہر کا مقابلہ بھی ایسے اجزا پر مشتمل دوا سے کیا جاتا ہے جو زہر کو کاٹ کر بے اثر کر دیتی ہے اور اسے تریاق کہا جاتا ہے۔