ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے قرار دیا ہے کہ وفاقی حکومت اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے قائم مقام منصفِ اعلیٰ عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے سے متعلق عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے پر توہینِ عدالت کی ایک درخواست کی سماعت کے دوران اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج نہ کرنے پر وفاقی حکومت، جب کہ پنجابی زبان کو صوبے میں فروغ نہ دینے پر پنجاب حکومت سے بھی ایک ماہ میں جواب طلب کرلیا۔ منصفِ اعلیٰ نے دورانِ سماعت کہا کہ قومی اور مادری زبان کے بغیر ہم اپنی شناخت کھو دیں گے، میری رائے میں ہمیں اپنے بزرگوں کی طرح فارسی اور عربی زبانیں بھی سیکھنا چاہئیں۔
بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے قیام پاکستان کے فوری بعد دوٹوک الفاظ میں واضح کردیا تھا کہ ہماری قومی اور سرکاری زبان اردو اور صرف اردو ہوگی۔ کسی بھی ملک کا دستور اس کے لیے ایک مقدس دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمارے 1973ء کے متفقہ طور پر منظور شدہ آئین کی دفعہ 251 میں بھی یہ واضح طور پر درج ہے کہ اردو اس مملکتِ خداداد کی قومی اور دفتری زبان ہوگی جس کے عملاً نفاذ کے لیے پندرہ سال کے اندر انتظامات مکمل کیے جائیں گے اور اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ چنانچہ مقتدرہ قومی زبان، اردو لغت بورڈ اور اردو سائنس بورڈ جیسے ادارے آئین کی اس شق کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے قائم بھی ہوگئے، اور 15 اگست 1988ء کو جب آئین میں دی گئی پندرہ برس کی مدت مکمل ہوگئی تو مقتدرہ قومی زبان کے اُس وقت کے صدر نشین ڈاکٹر جمیل جالبی نے اعلان کیا کہ ہماری طرف سے اردو کے بطور قومی و دفتری زبان نفاذ کے لیے تمام انتظامات مکمل کیے جا چکے ہیں۔ آج اس مملکت کو وجود میں آئے پون صدی مکمل ہونے کو ہے مگر بدقسمتی سے نہ تو اس کے مقصدِ قیام، قرآن و سنت کے نظام، اور نہ ہی قومی زبان کے عملی نفاذ کی منزل اسے حاصل ہوسکی ہے۔ یہاں کے حکمران اور حکام اسلام اور قومی زبان سے اپنی وابستگی کے زبانی دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر ان دونوں کے نفاذ کی جانب کوئی عملی قدم بڑھانے پر آمادہ نہیں۔ ہمارے موجودہ وزیراعظم جناب عمران خان بھی ایک جانب اگر صبح شام ’ریاست مدینہ‘ کے نقشے پر پاکستان کو استوار کرنے کی مالا جپتے نہیں تھکتے، تو دوسری جانب گزشتہ دنوں انہوں نے تقریبات کی کارروائی اردو کے بجائے انگریزی میں کیے جانے کو اپنی قوم کی توہین قرار دیا، اسی طرح مجلسِ شوریٰ کے ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں میں انگریزی میں تقاریر پر بھی تنقید کی کہ ہماری قوم کے 80 فیصد لوگ انگریزی سے ناآشنا ہیں، اور ان کے سامنے انگریزی بول کر انہیں احساسِ کمتری سے دوچار کرنے اور اپنے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا رعب جمانا چاہتے ہیں۔ جناب وزیراعظم عمران خان کی باتیں خوبصورت اور دل کو لگتی ہیں، مگر انہیں کون یہ احساس دلائے کہ جس اہم ترین قومی منصب پر وہ فائز ہیں وہاں بیٹھ کر محض اچھی اچھی باتیں کرنا کچھ معنی نہیں رکھتا، آپ کا منصب آپ سے ان باتوں پر عمل کرنے اور ملک بھر کی سرکاری مشینری سے عمل کروانے کا تقاضا کرتا ہے۔ اس لیے جناب عمران خان سے یہ گزارش بے جا نہ ہوگی کہ وہ اب زبانی باتوں اور دلربا تقاریر سے آگے بڑھیں اور ملک میں اسلام اور قومی زبان اردو کے عملی نفاذ کے لیے ٹھوس اقدامات کا اعلان بھی کریں اور ان پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنائیں۔
اگر اسے گستاخی یا توہین تصور نہ کیا جائے تو ہم عدالتِ عظمیٰ کے قائم مقام مصنفِ اعلیٰ سے بھی گزارش کریں گے کہ آپ نے عدالت کے حکم کی تعمیل نہ کرنے پر حکومت سے جواب طلب کرلیا بہت اچھا کیا، مگر یہ اور بھی اچھا ہوتا کہ آپ پہلے خود عدلیہ میں اس حکم پر عمل درآمد کی صورت حال کا جائزہ لے لیتے، جہاں کیفیت یہ ہے کہ ماتحت عدالتوں سے لے کر اعلیٰ ترین عدالتِ عظمیٰ تک میں آج بھی تمام فیصلے انگریزی زبان میں جاری کیے جا رہے ہیں، یوں محض ان فیصلوں کی زبان کے سبب عام آدمی ان کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ دیگر وجوہ کے علاوہ انگریزی زبان میں عدالتی کارروائی بھی ملک میں انصاف کے گراں ہونے کی بڑی وجہ ہے۔ جب عدلیہ کا ادارہ ہی اپنی اعلیٰ ترین عدالت کے اس نہایت اہم فیصلے کو پانچ برس گزر جانے کے باوجود تسلیم کرنے اور اس پر عمل کرنے پر تیار نہ ہو تو دیگراں را نصیحت…… کے علاوہ کیا عرض کیا جا سکتا ہے؟ اس لیے ہم عدالتِ عظمیٰ اور جناب منصفِ اعلیٰ سے گزارش کریں گے کہ وہ دیگر اداروں اور حکومتی منصب داروں سے اپنی حکم عدولی پر جواب ضرور طلب کریں، مگر سب سے پہلے اپنے ادارے، چھوٹی بڑی تمام عدالتوں میں اس فیصلے کی روح کے مطابق عمل درآمد کو ضرور یقینی بنائیں…!!!
(حامد ریاض ڈوگر)