کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات چاروں صوبوں میں مقامی انتخابات کے تناظر میں یقینی طور پر بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوں گے۔ امید کی جانی چاہیے کہ 2021-22ء میں ملک کے چاروں صوبوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کا انعقاد ممکن ہوسکے گا۔ بدقسمتی سے اس وقت مقامی حکومتیں موجود نہیں۔ جب تک ملک میں مقامی حکومتوں کے انتخابات منعقد نہیں ہوتے، اُس وقت تک جمہوری نظام پر سوالیہ نشان موجود رہیں گے۔ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوئے جو درست فیصلہ تھا، اور اس سے سیاسی جماعتوں کو مقامی سطح پر اپنی کارکردگی اور سیاسی حیثیت کو سمجھنے میں مدد ملی ہے۔
کنٹونمنٹ بورڈ کی کُل 212 نشستوں کے انتخابات میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کو 63، مسلم لیگ (ن) کو 58، آزاد امیدواران کو 52، پیپلز پارٹی کو 17، ایم کیو ایم کو 10، جماعت اسلامی کو 7، بلوچستان عوامی پارٹی کو 3، اور عوامی نیشنل پارٹی کو 2 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوسکی۔ امکان یہی ہے کہ آزاد ارکان کی بڑی اکثریت پنجاب اور خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلے گی جس سے حکمران جماعت کی پوزیشن مزید مستحکم ہوجائے گی۔ پنجاب جو بہت عرصے سے مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہے، وہاں مسلم لیگ (ن) کی پی ٹی آئی پر سیاسی برتری اہم ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کی لاہور، ملتان، راولپنڈی اور پشاور میں بدترین شکست بھی حکمران جماعت کے لیے بڑا سیاسی دھچکہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے لاہور سمیت پنجاب بھر میں سیاسی برتری حاصل کرکے ثابت کیا ہے کہ اس کا ووٹ بینک بدستور موجود ہے۔ تحریک انصاف کو اگر واقعی پنجاب میں اپنی سیاسی برتری قائم کرنی ہے تو اسے حالیہ حکمت عملی کے مقابلے میں ایک نئی اور مؤثر حکمت عملی بنانا ہوگی، اور جماعتی محاذ پر بہت بڑی تبدیلیوں کے ساتھ کچھ نیا کرنا ہوگا۔
بلاول بھٹو کے بارے میں بہت سے سیاسی پنڈت دعویٰ کررہے تھے کہ وہ پنجاب میں ایک نئی قوت کے طور پر ابھریں گے، اور پیپلزپارٹی حقیقی معنوں میں اپنا پرانا تشخص بحال کرسکے گی۔ لیکن ان انتخابات میں پیپلز پارٹی پنجاب سے کوئی بھی نشست حاصل نہیں کرسکی، اسی طرح بلوچستان میں بھی اسے کوئی نشست حاصل نہیں ہوسکی۔ یہی حال پی ڈی ایم اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا ہوا جو خیبر پختون خوا میں محض ایک ہی نشست حاصل کرسکے۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی میں صرف پی ٹی آئی ہی ایسی جماعت ہے جس نے چاروں صوبوں میں نشستیں جیتی ہیں۔ ایم کیو ایم کی نشستیں ماضی کے مقابلے میں کم ہوئی ہیں، اور اس کا فائدہ تحریک انصاف کی عددی تعداد میں برتری کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کا اصل معرکہ پنجاب میں دو بڑے سیاسی حریفوں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے مابین تھا، اور اسے ایک بڑی سیاسی جنگ کے طور پر دیکھا جارہا تھا۔ اسی سے اندازہ ہونا تھا کہ پنجاب میں مقامی حکومتوں کے اگلے انتخابات کے نتائج کی شکل کیا ہوسکتی ہے ۔عمومی طور پر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ جو بھی صوبائی حکومت ہوگی انتخابی نتائج بھی اسی کے حق میں ہوں گے۔ لیکن اب حالات خاصے تبدیل ہوئے ہیں، اور محض صوبائی حکومتوں کی طاقت پر انتخاب جیتنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو زیادہ فعالیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ پی ٹی آئی کی پنجاب میں دیہی سطح پر برتری دیکھنے کو ملی ہے، مگر شہری علاقوں میں اس کی ناکامی ظاہر کرتی ہے کہ اسے حکومت میں ہونے کے باوجود پنجاب میں سیاسی محاذ پر مشکلات کا سامنا ہے۔
پنجاب میں پی ٹی آئی کی شکست کی وجوہات میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، عوام میں حکومتی کارکردگی پر اچھے تاثر کا نہ ہونا، پارٹی کا داخلی انتشار، پارٹی کی تنظیم سازی کے مسائل، غیر سیاسی لوگوں کا بڑے عہدوں پر موجود ہونا، پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم میں اقرباپروری اور ارکانِ اسمبلی کی عملاً اپنے علاقوں یا ووٹروں سے لاتعلقی شامل ہیں۔ پی ٹی آئی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی سیاسی طاقت کے بارے میں یا تو غلط فہمی کا شکار ہے، یا اس کا اپنا داخلی انتشار ہی اس کی ناکامی کی بڑی وجہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان سمیت پارٹی کے بڑے عہدے داروں کی پارٹی معاملات میں عدم دلچسی، غیر سیاسی فیصلے، یا غیر سیاسی افراد کی پارٹی میں موجودگی پارٹی کی بہت سی ناکامیوں اورکمزوریوں کو ظاہر کرتی ہے۔ اگر مقامی حکومتوں کے اگلے انتخابات میں پنجاب کی سطح پر پی ٹی آئی کو مسلم لیگ (ن) پر برتری حاصل کرنی ہے تو اسے روایتی سیاست اور موجودہ سیاسی حکمت عملی کو ترک کرنا ہوگا۔ تنظیم سازی اور قیادت کی سطح پر سیاسی افراد کی نامزدگی سمیت حکومت اور پارٹی کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرکے ہی وہ اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرسکتی ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کے بعد اصل معرکہ مقامی حکومتوں کے انتخابات کا ہے، خاص طور پر پی ٹی آئی کو پنجاب اور خیبر پختون خوا میں ان انتخابات کا انعقاد کرنا ہے، جن میں اُسے اپنی برتری قائم کرنے کا چیلنج بھی درپیش ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ عام آدمی کے مسائل کو سمجھے کہ وہ کن مشکلات کا شکار ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا پی ٹی آئی کی حکومت ان صوبوں میں موجودہ سیاسی حالات کو مدنظر رکھ کر مقامی حکومتوں کے انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کرسکے گی، یا انتخابات کو التوا میں ہی رکھا جائے گا۔
سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی پنجاب میں کنٹونمنٹ بورڈ کے حالیہ انتخابات میں شکست پر اپنا داخلی پوسٹ مارٹم کرے گی؟ اور کیا اُن لوگوں کو جوابدہ بنایا جائے گا جو ٹکٹوں کی تقسیم سے لے کر دیگر معاملات میں شکست کے براہِ راست ذمہ دار ہیں۔ اگرچہ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابی نتائج کی بنیاد پر ہم قومی، صوبائی سیاست، یا انتخابات کی تصویر نہیں کھینچ سکتے، کیونکہ ہر سطح کے انتخابات کے معاملات یا پہلو مختلف ہوتے ہیں۔ اس لیے جو لوگ بھی کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر قومی یا صوبائی انتخابی تصویر کو 2023ء کے انتخابات کی صورت میں دیکھ رہے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ عام انتخابات کی سیاست اُس وقت کے حالات، ماحول اور سیاسی مہم کی بنیاد پر ہوگی، جو طے کرے گی کہ انتخابی نتائج کس کے حق میں ہوں گے۔ البتہ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے لیے ایک بڑا سبق ووٹروں کا انتخابی عمل میں حصہ نہ لینا یعنی کم ٹرن آئوٹ، اور سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ آزاد امیدواروں کا جیتنا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں نچلی سطح پر نہ تو منظم ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی مضبوط سیاسی ڈھانچہ ہے جو ان کی سیاسی ساکھ کو قائم کرنے میں عملاً معاون ثابت ہوسکے۔
کنٹونمنٹ بورڈ کے حالیہ انتخابات کے نتائج یقینی طور پر سیاسی جماعتوں کو اپنے داخلی مسائل یا بحران کو سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں، مگر یہ اُسی صورت میں ممکن ہوگا جب سیاسی جماعتیں اپنے اپنے داخلی نظام کا تجزیہ کریں، ناکامی کی وجوہات پر غور کریں، اور نئی مؤثر حکمت عملی بنائیں۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں چھوٹے علاقوں میں محض انتخابات کے وقت نظر آتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی انتخابی سیاست میں مستقل بنیادوں پر ووٹروں سے مؤثر رابطوں میں کمزوری کے کئی پہلو دیکھے جاسکتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں ماضی یا حال کی غلطیوں سے سبق سیکھنے اور اپنی اصلاح کرنے کے بجائے ڈھٹائی سے ان ہی غلطیوں کو دہراتی ہیں جو عملی سیاست میں ان کی ناکامیوں کا سبب بنتی ہیں۔