کتاب
:
مکاتیب صدر یار جنگ
ترتیب و تحشیہ
:
ڈاکٹر سفیر اختر
صفحات
:
212 قیمت:450 روپے
ناشر
:
قرطاس۔ فلیٹ نمبرA-15، گلشنِ امین ٹاور، گلستانِ جوہر بلاک 15، کراچی
موبائل
:
0321-3899909
ای میل
:
saudzaheer@gmail.com
ویب سائٹ
:
www.qirtas.co.nr
؎ڈاکٹر سفیر اختر مدظلہٗ ہماری اردو زبان کے محققین میں بلند مقام کے حامل اہلِ علم ہیں۔ ان کی یہ کتاب بالآخر طبع ہو ہی گئی۔ ان کا قلمی نام اختر راہی تھا، وہ اسی نام سے لکھتے تھے۔ نواب صدریار جنگ کا تعارف کراتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’نواب صدر یار جنگ محمد حبیب الرحمٰن خاں شروانی (5 جنوری 1867ء۔ 11 اگست 1950ء) ماضیِ قریب کی اُن شخصیات میں سے تھے جن کی زندگی ہند اسلامی تمدن کی تصویر تھی۔ ان کی ذات میں علم و فضل، اخلاق و شرافت اور وقار و شائستگی جیسی تمام خوبیاں اور وضع داریاں جمع تھیں۔ وہ خود صاحبِ علم تھے اور علم و فن کے قدردان تھے۔ ان کی پوری زندگی علمی و تعلیمی خدمات اور مشاغل میں گزری۔ برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوںکی شاید ہی کوئی معاصر مفید علمی، تعلیمی یا اصلاحی تحریک ہو جس میں انہوں نے دامے، درمے، قدمے اور سخنے تعاون نہ کیا ہو۔ سرسید احمد خان (م1898ء) کے بعض مذہبی خیالات سے اختلاف کے باوجود تحریک علی گڑھ کے معاون رہے، اور سرسید احمد خان نے انہیں کالج کا ٹرسٹی نامزد کیا۔ نواب محسن الملک (م1907ء) کے زمانے میں وہ اہلِ سنت کے شعبۂ دینیات کے سیکریٹری رہے۔ 1941ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں ’’ڈاکٹر آف تھیالوجی‘‘ کی اعزازی ڈگری دی۔ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس (علی گڑھ) کے رکن تو 1890ء سے تھے، مگر جوائنٹ سیکریٹری 1917ء میں مقرر ہوئے۔ ایم اے او کالج کے مسلم یونیورسٹی بننے کے بعد جب کالج کے اعزازی سیکریٹری کا عہدہ ختم ہوا جو کانفرنس کا سیکریٹری بھی ہوتا تھا تو 1920ء میں انہیں کانفرنس کا سیکریٹری جنرل منتخب کیا گیا، اور اپنی وفات سے کچھ دن پہلے تک انہیں یہ اعزاز حاصل رہا۔
دارالعلوم ندوۃ العلما سے شروع سے تعلق تھا۔ علامہ شبلی نعمانی (م1914ء) کے ساتھ الندوہ کے شریک مدیر رہے تھے۔ اس کے رکنِ رکین اور بڑے مددگار تھے۔ دارالمصنفین۔ اعظم گڑھ کے تاحیات صدر تھے۔ آل انڈیا اورینٹل کانفرنس، انجمن ترقی اردو، یوپی ہسٹاریکل سوسائٹی، ادارۂ معارف اسلامیہ لاہور، مسلم گرلز کالج علی گڑھ، انجمن حمایتِ اسلام لاہور، اسلامیہ ہائی اسکول اٹاوہ، طبیہ کالج دہلی، آرٹس سوسائٹی لندن اور جامعہ عثمانیہ حیدرآباد سے بھی مختلف حیثیتوں سے منسلک رہے۔
نواب صاحب کی شخصیت متنوع اور کسی حد تک باہم متضادات کی جامع تھی۔ وہ طبقۂ امرا میں امیر، حلقۂ صوفیہ میں صوفی، بزمِ اہلِ قلم میں ادیب و شاعر، ماہرینِ تعلیم کی محفل میں ماہرِ تعلیم، اور علما کے درمیان عالمِ دین تھے، اور جب کسی محفل میں یہ سب ہی لوگ جمع ہوتے تو وہ میرِ محفل ہوتے تھے۔ علم و ادب کے ہر شعبے کے اہلِ کمال سے ان کے روابط تھے، اور ہر صاحبِ نظر انہیں اپنا ہم مشرب خیال کرتا تھا۔ اس کا ایک ہلکا سا اندازہ اُن کے مکتوب الیہم کی فہرست سے ہوتا ہے۔
نواب صاحب کے مکاتیب کا کوئی مجموعہ راقم الحروف کی نظر سے نہیں گزرا، البتہ مولانا ابوالکلام آزاد (م1958ء) کے مکاتیب کے مجموعوں ’’غبارِ خاطر‘‘ اور ’’کاروانِ خیال‘‘ میں (جن کے وہ مکتوب الیہ ہیں) ان کے چند مکاتیب شامل ہیں۔ موصوف خط کا جواب فوراً لکھتے تھے، اور ان کی مرجع عام شخصیت کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے ہزاروں خطوط لکھے ہوں گے، لیکن بہت کم تعداد محفوظ رہ سکی ہے، اور اس سے بھی کم تعداد شائع ہوئی ہے۔ علامہ شبلی نعمانی، الطاف حسین حالی (1914ء)، اکبر الٰہ آبادی (م1921ء) اور علامہ محمد اقبال (م1937ء) کے مجموعہ ہائے مکاتیب میں ان کے نام مکتوب ملتے ہیں، مگر ان عہد آفریں لوگوں کے نام نواب صاحب کے معدودے چند مکتوب ہی محفوظ رہ سکے ہیں۔
موصوف کو اسلامی علوم و فنون اور ہند اسلامی تمدن سے والہانہ شیفتگی تھی، تاریخ پر ان کی گہری نظر تھی اور قومی تعمیرنو کے لیے اسلاف کے کارناموں کی یاد تازہ رکھنا چاہتے تھے۔
مسلمانوں کی تاریخ و ادب اور تہذیب سے دلچسپی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے دولتِ کثیر صرف کرکے نادر و نایاب اور خطی کتابوں کا بیش بہا ذخیرہ فراہم کیا۔ ان کا ذخیرۂ کتب (جو اب مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں محفوظ ہے) برعظیم کے چند اعلیٰ ذاتی ذخیروں میں شمار ہوتا تھا۔ انہوں نے اپنے قلم سے اس کی ایک سے زائد فہرستیں مرتب کررکھی تھیں، جن میں ہر کتاب اور خصوصاً خطی نسخوں کی خصوصیات اور دوسری اہم باتوں کا اندراج تھا۔ ان کے مکاتیب میں بھی بعض نادر و نایاب کتابوں کے حصول کا ذکر ہے اور پورے جذبۂ مسرت و وارفتگی کے ساتھ۔ ملا نظام الدین سہالوی کا ’’حاشیہ شرح حکمت العین‘‘ ]؟[ ہاتھ آیا تو اس کی اطلاع جوش و مسرت کے ساتھ حکیم سید عبدالحئی کو دی، اور خطی نسخے کی جزئیات اور اس کی ندرت پر دل کھول کر باتیں کیں۔ موصوف اپنا ذخیرۂ کتب اہلِ علم کو دکھا کر بھی ایسی ہی خوشی محسوس کرتے تھے۔ مولانا امتیاز علی عرشی (م 1981ء) کو دعوت دیتے ہیں: ’’آپ رخصت کے زمانے میں یہاں آئیں تو دل کو بڑی خوشی ہوگی۔ میری عمر کا جمع کردہ سرمایۂ کتب دیکھیں۔ عربی، فارسی، اردو تینوں زبانوں کی کتابوں کا سرمایہ ہے‘‘۔
ادبی نقطہ نظر سے نواب صاحب کے مکاتیب اختصار کی عمدہ مثال ہیں۔ اُن کے اسلوبِ انشا کی نمایاں خصوصیت بھی کم الفاظ میں بڑے مطالب ادا کرنا ہے۔ انہوں نے شعر و ادب اور علومِ عقلیہ و دینیہ کی تحصیل اپنے وقت کے کامل اساتذہ سے کی تھی، مولانا لطف اللہ علی گڑھی (م 1916ء) ان کے اساتذہ میں سے تھے جو اپنے وقت کے استاذ الکل کی حیثیت رکھتے تھے۔ علامہ شبلی نعمانی کے ساتھ ’’الندوہ‘‘ کے شریک مدیر تھے جس میں کسی کے مضمون کا چھپ جانا ہی صاحبِ مضمون کے لیے بڑی عزت و افتخار کی بات ہوتی تھی‘‘۔
کتاب کا دیباچہ مرحوم و مغفور ڈاکٹر سید عبداللہ کا لکھا ہوا ہے۔ اس میں سے چند اقتباس بطور تبرک پیش خدمت ہیں:
’’صدریار جنگ مولانا حبیب الرحمٰن خاں شروانی کے مکاتیب کا مجموعہ، مرتبہ پروفیسر اختر راہی میرے سامنے ہے، اور میں اسے دیکھ کر اتنا مسرور ہوا کہ کیفیتِ مسرت کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنے سے قاصر ہوں۔
مکاتیب کے کوائف اور مرحوم صدر یار جنگ کے فنِ مکتوب نگاری پر جناب مرتب (اختر راہی صاحب) نے بڑی اچھی روشنی ڈالی ہے اور لکھا ہے کہ مرحوم اس صدی کے بہترین و ممتاز ترین مکتوب نگاروں میں سے تھے۔ ان کے مکاتیب اکثر و بیشتر مختصر ہوتے تھے۔ ان کا نصب العین مدعا کا ابلاغ تھا، مگر ہر دوسری تحریر کی طرح مرحوم کے خطوط میں بھی ان کے خلوص کی مٹھاس اور ان کی شرافت اور حسنِ خلق کی حلاوت خودبخود پیدا ہوجاتی تھی۔
ان کے مکاتیب سے محسوس ہوتا ہے کہ مخاطبوں میں سے ہر ایک کی خیرخواہی اور معاونت ان کا مطلوب و مقصود تھا۔ وہ مخاطبوں کی حوصلہ افزائی اور قدردانی سے دریغ نہ کرتے تھے۔ ہر شخص کی اعلیٰ قدر/ مدارج و مراتب تعریف کرتے، دل بڑھاتے اور کارنامہ ہائے نمایاں کی ترغیب دیتے تھے۔
یہ وصف مکاتیبِ شبلی میں بھی ہے، وہ بھی اپنے شاگردوں اور نیازمندوں کو مفاخر و معالی کے حصول کے لیے اکساتے رہے، مگر فرق یہ ہے کہ شبلی ہمیشہ اونچی سطح سے بات کرتے تھے اور تمام مخاطبوں کو اپنا شاگرد سمجھ کر گفتگو فرماتے تھے۔ ان کے برعکس، صدریار جنگ خردوں کے مشفق، ہمسروں کے ہم مزاج اور بڑوں کے عقیدت کیش نظر آتے ہیں۔ صدر یار جنگ جنہیں مولانا ابوالکلام آزاد نے ’’حبیبِ مکرم‘‘ سے خطاب کیا، درحقیقت سب کے حبیبِ مشفق تھے۔‘‘
…………
’’لیکن علی گڑھ کسی طور تحقیقی مرکز نہ بن سکا، چنانچہ سلسلۂ خسرویہ کے سوا، اس مرکزِ علم و دانش سے کوئی اہم تحقیقی کام منظرعام پر نہ آسکا، تاہم کون انکار کرسکتا ہے کہ اس درس گاہ نے اپنی حدود میں جو خدمت انجام دی، وہ ہماری تہذیبی تاریخ میں زریں حروف میں لکھی جائے گی۔ علی گڑھ میں تہذیبی اور تعلیمی سطح پر جدید تمدنی تجربے کا آغاز ہوا، اور یہی اس کی خصوصیتِ فائقہ ہے۔
اس کے برعکس شبلی اور ان کے تلامذہ و رفقا نے (جن میں صدر یار جنگ بھی شامل ہیں) قدیم روایتِ علمی کو ازسرنو زندہ کرنے اور اس کے توانا حصوں کو مزید سنوارنے اور نکھارنے کی کوشش کی۔ ان حضرات نے تصانیف و تالیفات کے انبار لگادیئے۔ تاریخِ اسلام، تاریخ مسلمانانِ ہند، سیرت نبوی، دینی اور ادبی مشاہیر کی سوانح عمریاں، نیا علم کلام اور اسلوبِ بیان کا ایک نیا نمونہ، اہلِ ملک کے سامنے رکھ کر یہ ثابت کردیا کہ
ہنوز آں ابر رحمت در فشاں است
مے و مے خانہ با مہر و نشاں است
صدر یار جنگ کو علی گڑھ کی تعلیمی تحریک سے بھی ہمدردی رہی، مگر ان کا دل دراصل اُس گروہ کے ساتھ تھا جو مسلمانوں کی علمی روایت کا تسلسل چاہتا تھا، کیونکہ یہی غیوری کا راستہ تھا۔ وہ استفادے کی آڑ میں غیروں کی ذہنی و معاشرتی غلامی کو گوارا نہ کرتے تھے۔ وہ مغرب زدگی اور مغرب پرستی کو تذلل و غضبِ الٰہی کی علامت سمجھتے تھے۔‘‘
پاکستان کے موجودہ ثقافتی پس منظر کے لحاظ سے بڑی مفید اور دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کل اسلاف کے کردار اور ان کے کارناموں پر پردہ ڈالنے کی جو سعیِ نامشکور ہورہی ہے، اس کے سلسلے میں یہ انکشاف واقعی عبرت انگیز ہے کہ جدید تعلیم کے مرکز علی گڑھ کی بنیاد رکھنے والے اور اس کی کامیابی کے لیے اوّلین کارکن بھی طبقۂ علما ہی سے اٹھے۔ شبلی، حالی، نذیر احمد، ذکا اللہ اور خود سید اعظم (سرسید) بھی تو مسجدوں ہی سے پڑھ کر نکلے اور اپنے اپنے دائرے میں ناقابلِ فراموش کام کر گئے، انہی کے وارث سید سلیمان ندوی، ابوالکلام آزاد، ابوالحسن علی ندوی اور اب صباح الدین عبدالرحمٰن وغیرہ ہیں۔ یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ سرسید کے بعد محسن الملک (مولوی مہدی علی)، وقار الملک (مولوی مشتاق حسین) اور صدر یار جنگ (مولوی حبیب الرحمٰن شروانی) اور درجنوں دوسرے حضرات الملقب بہ مولوی ہی تھے، اور اگر کوئی اس لقب کا حامل نہ تھا، تو وہ کیا تھا، اُس زمانے کی تاریخ اٹھا کر دیکھیے، خود معلوم ہوجائے گا کہ اس کا حدود اربعہ کیا رہ گیا تھا۔
بہرحال علی گڑھ اور حیدرآباد کے مولوی حضرات نے ہماری نئی تہذیبی زندگی کے پہلے پچیس سال میں وہ کام کردکھائے جو دوسروں سے اب تک نہ ہوسکے۔
میں نے یہ پس منظر اس لیے بیان کیا ہے کہ ’مکاتیب صدر یار جنگ‘‘ کا یہ پہلو بھی اجاگر ہوسکے‘‘۔
’’پروفیسر اختر راہی نے، اس شریف النفس عالم، ادیب اور قدر دانِ علم امیر کے مکاتیب جمع کرکے بڑی خدمت انجام دی ہے اور وہ اس سے بڑا کام یہ کررہے ہیں کہ اس مجموعے کو چھپوا بھی رہے ہیں۔
میری رائے میں 1870ء سے لے کر 1940ء تک کے زمانے کے جملہ اہلِ علم کی تحریروں کو جمع کرنا لازمی ہے، کیونکہ اس دور میں بڑے بڑے چراغ روشن ہوئے، اور اس دور کے آخر میں ان چراغوں کو بجھانے کی پُرزور اور کامیاب کوششیں بھی ہوئیں۔ اب یہ شمعیں ان کی تحریروں کی اشاعت کے ذریعے پھر سے روشن کرنا چاہئیں، یہ بڑا نیک کام ہوگا‘‘۔
کتاب میں جن اصحابِ علم و فضل کے نام خطوط ہیں وہ درج ذیل ہیں:
خواجہ الطاف حسین حالی، سید مخدوم عالم، مولانا عبدالباری فرنگی محلی، نواب وقار الملک، حکیم سید عبدالحئی رائے بریلوی، سید افتخار عالم مارہروی، نواب مشتاق احمد، فرزند نواب رفعت یار جنگ، بابائے اردو مولوی عبدالحق، نواب رفعت یار جنگ، پیرزادہ محمد ابراہیم حنیف، نواب سید علی حسن خاں، ناشناس، مولانا عبدالعزیز میمن، ڈاکٹر سید عبدالعلی، سید محی الدین قادری زورؔ، مفتی سید شیر علی، سید احسن مارہروی، جناب محمد بیگ حیدرآبادی، پیر حسام الدین راشدی، جناب نصیر الدین ہاشمی، پروفیسر ضیا احمد بدایونی، مولانا امتیاز علی خاں عرشی، نواب سید شمس الحسن، سید سلیمان ندوی، ڈاکٹر سید محمود، مولانا مسعود عالم ندوی، ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں، سید ابوالحسن علی ندوی، جناب کیفی چریا کوٹی، جناب مالک رام، حکیم سید شمس اللہ قادری، ڈاکٹر غلام یزدانی، سید ودود احمد جیلانی، پروفیسر محمد طاہر فاروقی، سید ہمایوں مرزا، پروفیسر احمد میاں اختر جونا گڑھی، سید الطاف علی بریلوی
آخر میں دو ضمیمے اور اشاریہ ہے۔
٭ضمیمہ۔1 (استدراک بابت حواشی، مکتوب۔ 67)
٭ ضمیمہ۔ 2(کوائف نامہ مکاتیب)
٭اشاریے: رجال، اماکن، کتب و جرائد، ادارے، تحریکیں، تنظیمیں
کتاب سفید کاغذ پر عمدہ طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے۔ اس کتاب کو ہر لائبریری میں ہونا چاہیے۔