صحرا کو گلزار بنانے کا منصوبہ, فلاحی شعبے میں بھی جدت اور اختراع کا عمل ممکن ہے

جدید عہد میں کسی ملک کی ترقی کا سب سے بڑا راز کیا ہے؟ یہ سوال اگر ہمارے ہاں کیا جائے تو لوگوں کا خیال فوراً کرپشن کی طرف جاتا ہے۔ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ اگر صرف کرپشن پر قابو پا لیا جائے تو شاید باقی مسئلے بھی حل ہوجائیں گے۔ لیکن باقی دنیا میں اس سوال کا جواب کرپشن نہیں بلکہinnovation مانا جاتا ہے۔ عالمی ماہرین کہتے ہیں کہ ملک میں اگر innovation (یعنی مسائل کو حل کرنے کے نت نئے طریقے نکالنے کا کلچر اور ماحول) موجود ہو تو کرپشن کا مسئلہ بھی حل ہو ہی جائے گا۔ جدید تاریخ پر نظر ڈالنے سے لگتا ہے کہ یہ بات ٹھیک ہے، کیوں کہ گزشتہ سو ڈیڑھ سو سال کے دوران دنیا میں ترقی کرنے والے ممالک نے نئے خیالات پر عمل پیرا ہوکر ہی ترقی کی ہے۔ ظاہر ہے جن ممالک نے اپنے ہاں نئے آئیڈیاز کی ترویج کا ماحول پیدا کرلیا ہوتا ہے وہ اس صلاحیت سے باقی ہر مسئلے کا حل بھی ڈھونڈ نکالتے ہیں، لوگوں کو ساتھ ملاکر چلنے کا بھی کوئی قرینہ تلاش کرلیتے ہیں، اور راستے کی دیگر رکاوٹیں دور کرنے کے لیے بھی کوئی تخلیقی حربہ یا گر اختیار کرلیتے ہیں۔ یعنی رفتہ رفتہ پورے ملک میں اس طرح کا مثبت ماحول پیدا کرلیتے ہیں جو ہر منفی رویّے پر… خواہ وہ کرپشن ہی کیوں نہ ہو… غالب آجاتا ہے۔ امریکہ سے چین تک، کوریا سے ویت نام تک، اور بھارت سے برازیل تک جتنے ممالک بھی اس وقت دنیا میں نمایاں مقام حاصل کررہے ہیں ان میں واحد قدرِ مشترک یہی innovationکا کلچر ہے۔ بعض ممالک نے اس کلچر کو ملک کا مرکزی کلچر بنا لیا، لہٰذا ان کی ترقی کی رفتار زیادہ تیز رہی۔ بعض کے ہاں یہ صرف کچھ شعبوں تک محدود رہ گیا، اس لیے پورے ملک کو تبدیلی سے ہم کنار کرنے میں ناکام رہا۔
مثلاً بھارت میں یہ کلچر ابھی تک چند شعبوں تک محدود ہے، اس لیے ملک میں ترقی کے وسیع اثرات نظر نہیں آتے۔ جبکہ چین میں یہ معاشرے کا مرکزی کلچر بن چکا ہے، اس لیے وہاں اس کے فوائد اور ثمرات ہمہ گیر ہیں۔ چین اور بھارت کے برعکس جب ہم پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں تو یہاں مکمل جمود کا عالم نظر آتا ہے۔ ہر شعبے میں نئے خیالات کے بجائے گھسے پٹے مگر آزمودہ طریقوں کا راج ہے، اور نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ لوگ کسی چیز کی دکان بھی وہیں کھولتے ہیں جہاں اُسی چیز کی پانچ مزید دکانیں موجود ہوں، یعنی دکان کھولنے کے لیے بھی کسی نئی جگہ کا انتخاب نہیں کرپاتے۔
کاروبار اور مسائل کے حل کے لیے تخلیقی صلاحیتوں کے اس بحران کا اظہار گزشتہ دنوں خود عالمی بینک نے اپنی ایک رپورٹ میں کیا۔ عالمی بینک نے حکومت کو مشورہ دیا کہ پاکستان میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر سرمایہ کاری سے بہتر ہے کہ پہلے لوگوں کے اندر وہ انتظامی صلاحیتیں پیدا کی جائیں جو ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے عمل کی نگرانی کے لیے ضروری ہیں، یعنی پہلے لوگوں میں سرمایہ کاری کی جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اس وقت پاکستان میں جدید ہونے کا مطلب صرف نئی ٹیکنالوجی لانا، نئی مشینیں درآمد کرنا، اور نیا پلانٹ لگانا ہے، جبکہ دنیا بھر میں جدید ہونے کا مطلب نئے خیالات، نئے آ ئیڈیاز اور نئے تجربات کو سامنے لانا ہے۔ رپورٹ کے مندرجات کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان میں ہر طرف جمود کا عالم ہے، یعنی نئے خیالات کو اپنانے اور نئے تجربات کرنے کا کوئی چلن ہمارے ہاں نہیں پایا جاتا۔
بادی النظر میں ملک کے سرکاری اور تجارتی شعبوں پر نگاہ دوڑائی جائے تو واقعی ایسا محسوس ہوتا ہے، لیکن غور سے دیکھنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں دیکھنے کے لیے اور بھی مناظر ہیں۔ ایک شعبہ ایسا بھی ہے جو پچھلے بیس سال میں مسائل کے حل نکالنے اور نئے آئیڈیاز پیش کرنے کے معاملے میں ہر شعبے کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔
یہ پاکستان کا فلاحی شعبہ ہے جس نے گزشتہ تیس چالیس برس میں اپنی محدود اثرپذیری کے باوجود اس قدر کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں کہ کسی بھی مشکل وقت میں نظر حکومت پر نہیں بلکہ فلاحی شعبے پر پڑتی ہے۔ میڈیا بھی عموماً انہی لوگوں سے بات کرتا ہے، اور اسی کی رپورٹس نشر کرتا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فلاحی شعبہ ہمارے معاشرے میں نئے اورمؤثر آئیڈیاز کے حوالے سے ایک ایسی مرکزی حیثیت اختیار کرچکا ہے جس کی کوئی مثال جدید دنیا میں آسانی سے نہیں ملتی۔
ایدھی یا چھیپا کی ایمبولینس ہو، انڈس ہسپتال کا علاج کرنے کا نظام ہو، ایس آئی یو ٹی کی excellence ہو، یا سیلانی کا وسیع و عریض دسترخوان۔ پاکستان کے فلاحی شعبے میں آپ کو جا بہ جا منفرد اور عام زندگی سے جڑے ہوئے آئیڈیاز نظر آئیں گے۔ باقی دنیا میں اس طرح کی تخلیقی زندگی اور منفردآئیڈیاز عموماً تجارتی اور کاروباری شعبہ سامنے لاتا ہے، لیکن پاکستان میں ساری حقیقی مثالیں فلاحی شعبہ پیش کررہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ مارکیٹ ریسرچ کے ڈیٹا پر نظر ڈالنے سے اس کا جواب یہ نظر آتا ہے کہ دنیا بھر میں تو کاروباری ادارے کسٹمر کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے نت نئی سہولیات متعارف کرواتے ہیں، جس کا مقصد ایک دوسرے سے آگے نکلنا ہوتا ہے، جبکہ پاکستان میں کاروباری ادارے کسٹمر کو نہیں بلکہ دوسری کمپنیوں اور مارکیٹ کو دیکھتے رہتے ہیں۔ لہٰذا کسٹمر کی ضروریات پر کسی کی نظر ہی نہیں جاتی۔ اس کے برعکس فلاحی ادارے ایک دوسرے سے مقابلہ نہیں کرتے بلکہ سوسائٹی میں موجود فرد کی ضروریات پر نظر رکھتے ہیں اس لیے معاشرے کی ضروریات کو سمجھتے ہیں، کلچر میں چھپی رکاوٹوں سے نمٹنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، سو کوئی حل بھی نکال لیتے ہیں، اور رفتہ رفتہ اس حل کا بڑے پیمانے پر اطلاق بھی کرلیتے ہیں۔
لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ باقی دنیا کے برعکس innovation کا سہرا پاکستان میں کاروباری نہیں بلکہ فلاحی شعبے کے سر رہا ہے۔
تو اب جب کہ فلاحی اداروں نے یہ راز جان ہی لیا ہے کہ پاکستان میں کوئی نیا خیال کس طرح پروان چڑھتا ہے، کیسے قبولِ عام حاصل کرتا ہے اور کیوں کر معاشرے کے کسی حصے کو فیض یاب کرنے کا باعث بن جاتا ہے… تو پھر آئیڈیاز کے لیڈرز ملک میں تجارتی اداروں کو نہیں بلکہ فلاحی اداروں کو ہی قرار دینا پڑے گا۔ اور ان کو thought leaders قرار دینے کے بعد ان سے ایسے مطالبات بھی کرنے پڑیں گے جو دنیا میں کہیں بھی فلاحی اداروں سے نہیں کیے جاتے۔
نمبر1: انہیں اپنے سارے تجربات اور کیسز کو دستاویزی شکل دینی چاہیے تاکہ بعد میں آنے والے ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔
نمبر 2۔ انہیں اپنے آئیڈیاز کو صرف وقتی اور ہنگامی فلاح یا معاونت کے لیے نہیں، بلکہ معاشرے کو sustainable یعنی اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ کردار اصل میں حکومت کا ہے، لیکن ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ حکومت سے مستقبل قریب میں ایسا کوئی کردار ادا کرنے کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ اس لیے ہم یہ امید اس شعبے سے قائم کرنے میں حق بجانب ہیں جس نے یہ کردار کسی حد تک بھی سہی، ادا تو کیا ہے۔
پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ فلاحی شعبے کا تخلیقی انداز میں اقتصادی بہتری کے منصوبوں پر کام کرنا پوری دنیا میں اپنی نوعیت کا ایک بالکل منفرد تجربہ ہوگا جس کو ہم دنیا میں ایک مثال بناکر پیش کرسکیں گے، اور اگر ہم ان مثالوں کی مارکیٹنگ یا تشہیر کرسکے تو اس شعبے میں دنیا کے لیڈرز میں سے ہوں گے۔
اس حوالے سے اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان میں کم سے کم ایک مقامی این جی او یعنی دعا فاؤنڈیشن نے پاکستان کی اس ضرورت اور اپنے اس امکان کو شناخت کرلیا ہے۔ دعا فاؤنڈیشن کے اندازِ کار کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اس ادارے کی ٹیم کو پاکستان میں نئی سوچ کی ترویج کا قرینہ سمجھ میں آگیا ہے۔
٭پاکستان میں نئے آئیڈیاز کی پرورش اور پرداخت کس طرح ہوسکتی ہے؟
٭لوگوں کو ساتھ کس طرح ملایا جاسکتا ہے؟
٭راہ کی رکاوٹیں کیسے دور ہوسکتی ہیں؟
٭انتظامیہ کو آن بورڈ کس طرح لیا جا سکتا ہے؟
٭اور اس میں اقتصادی زاویے اور امکانات کیسے پیدا ہوتے ہیں؟
دعا فاؤنڈیشن کے منصوبوں کا مطالعہ ان تمام سوالات کے جوابات دیتا ہے، اور ادارے کے اندازِ کار کو دیکھتے ہوئے وہ پورا فارمولا برسرِ عمل نظر آتا ہے جس کو دنیا بھر میں innovation ماہرین تجویز کرتے ہیں۔ یعنی:
٭مسائل پر نظر رکھنا۔
٭ان کے لیے تخلیقی حل تلاش کرنا
٭اس حل کی آگہی پیدا کرنا۔
٭اس حل کو قابلِ عمل بنانے کے لیے پارٹنر یا تعاون تلاش کرنا۔
٭ پہلے چھوٹے تجربات کرنا۔
٭ان سے ماڈل یا پروٹوٹائپ بنانا۔
٭پھر اس تجربے کو بڑے پیمانے پر اختیار کرنا۔
دعا فاؤنڈیشن کے منصوبوں میں ان سارے steps کی موجودگی کا مطلب ہے کہ دعا فاؤنڈیشن کے ہر اہم منصوبے پر عالمی سطح کی کیس اسٹڈی تیار کی جاسکتی ہے، جس کو نہ صرف بزنس اسکول اور دیگر تھنک ٹینکس میں بطور حوالہ ، بلکہ دنیا میں پاکستان کی مارکیٹنگ اور امیج بلڈنگ کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ان سارے منصوبوں کو انہی اصطلاحات میں بیان کیا جاسکتا ہے جو بین الاقوامی سطح پر innovation کی کیس اسٹڈیز تحریر کرنے کے لیے مروج ہیں۔
دعا فاؤنڈیشن کے کاموں کا دوسرا منفرد پہلو یہ ہے کہ اس کی ٹیم نے زرعی شعبے کی اہمیت کو سمجھا اور سمجھایا ہے۔ یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ زراعت پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور بے شمار لوگ اس شعبے سے وابستہ ہیں، لیکن اس حوالے سے حکومت کی پالیسیاں ابھی تک انتہائی دقیانوسی ہیں۔
حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صنعتی ترقی کے دور تک پہنچنے کے لیے امریکہ، برطانیہ، فرانس اور خود چین پہلے زرعی ترقی اور اختراعات کے دور سے گزرے ہیں۔ کیونکہ ماہرین کہتے ہیں کہ کسی ملک کو آگے بڑھنے کے لیے دیہی آمدنی کو زرعی ترقی کے ذریعے، اور پھرشہری آمدنی کو صنعتی ترقی اور زرعی خام مال کی ویلیو ایڈیشن کے ذریعے بڑھانا پڑتا ہے۔ اگر صرف صنعتی ترقی پر توجہ دی جائے تو ساری دیہی آبادی شہروں کی طرف منتقل ہونا شروع ہوجاتی ہے، اور ترقی کے حقیقی ثمرات حاصل نہیں ہو پاتے جیسا کہ فلپائن اور تھائی لینڈ میں ہوا ہے۔ دعا فاؤنڈیشن نے اس بات کو سمجھتے ہوئے دیہی آبادی کی آمدنی میں اضافے کے حقیقی منصوبے تیار کیے ہیں جن کی بنیاد مقامی حقائق پر رکھی ہے۔ اسی لیے مقامی آبادی نے ان کو سمجھا ہے، خوش آمدید کہا ہے اور اختیار کیا ہے۔ لہٰذا اب یہ منصوبے محاورتاً اور عملاً دونوں طرح پھل دے رہے ہیں۔ متاثر کن امر یہ ہے کہ ان میں سے ہر منصوبے میں innovation کا پہلو نمایاں ہے۔ آیئے ان میں سے دو منصوبوں پر مختصر بات کر لیتے ہیں۔
تھر میں باغبانی کا تجربہ
یہ سوچنا کہ صحرا میں فصلیں کاشت ہوسکتی ہیں، ایک نہایت ہی منفرد خیال تھا۔ اس شعبے میں اگرچہ بھارت نے بھی کام کیا ہے، لیکن اپنی جغرافیائی اور زمینی حقیقتوں کو سمجھنا، درست ذرائع سے انسپائریشن لینا، ماہرینِ زراعت اور مقامی انتظامیہ دونوں کے ساتھ مل کر چلنا، drip irrigation یعنی قطرہ قطرہ سیرابی کی تکنیک کی مکمل آگاہی حاصل کرنا، مرحلہ وار تجربات کرنا، اور تجربات کو وسعت دیتے چلے جانا، نئی فصلوں اور پھلوں کو اس پروسس میں شامل کرنا مثلاً کھجور کی کاشت کا تجربہ کرنا اور ساتھ بجلی، پانی کی فراہمی کا بندوبست بھی کرتے جانا… اپنی جزئیات، تفصیلات اور اسکوپ میں کسی وژنری ملک کا سرکاری سطح کا منصوبہ معلوم ہوتا ہے۔ اگر کوئی بین الاقوامی این جی او یہ سارا تجربہ کرنے میں کامیاب ہوتی تو آج ہم اُس کی بیرونِ ملک سے آئی ہوئی ویڈیوز ایک دوسرے سے شیئر کررہے ہوتے۔ لیکن یہ بات قابلِ فخر ہے کہ یہ کام ہماری ایک مقامی این جی او نے کیا ہے۔
جنگلی زیتون سے اقتصادی ترقی کا خواب
کسی ملک میں کتنے امکانات ہوتے ہیں، وہ کس طرح نظر انداز ہوتے ہیں اور کیسے بروئے کار لائے جا سکتے ہیں… اس کی مثال دعا فاؤنڈیشن کا جنگلی زیتون کے حوالے سے کیا گیا کام ہے جو بالآخر اس قدر تناور درخت بن چکا ہے کہ خود حکومت اس کا کریڈٹ لینا چاہتی ہے۔ اس کام میں بھی مقامی جنگلوں اور کھیتوں کھلیانوں میں چھپے ایک امکان کو سمجھنا، اس کو آگے بڑھانے کے لیے ماہرینِ زراعت سے رابطہ کرنا، لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کے تفصیلی کال ٹو ایکشن پیغامات بنانا، حکومت سے collaborateکرنا، مقامی آبادی میں شعور بیدار کرنا اور بالآخر اس کو اقتصادی ترقی اور خوش حالی کے خواب میں تبدیل کرنا… یہ سارا کام ایک مقامی این جی او نے تنِ تنہا کیا ہے۔ یہ سارا کام بھی سرکاری سطح کا منصوبہ محسوس ہوتا ہے، لیکن یہ ایک نسبتاً چھوٹی سی فلاحی تنظیم کا کام ہے۔
دعا فاؤنڈیشن کے اور بھی درجنوں منصوبے ہیں، لیکن یہاں ہم نے صرف ان دو پروجیکٹس کا ذکر کیا ہے جو زرعی شعبے میں اپنی اختراعات اور innovation کے ذریعے مقامی آبادی کو مستقل بنیاد پر روزگار فراہم کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ یہ منصوبے راشن یا آمدنی کی مدد فراہم کرنے جیسے وقتی نوعیت کے منصوبے نہیں ہیں، بلکہ یہ مقامی آبادیوں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا خواب دکھانے اور اس کی تعبیر فراہم کرنے والے منصوبے ہیں، جو فلاحی شعبے کے عالمی اسکوپ کو دیکھتے ہوئے ایک بالکل مختلف جہت کا کام ہے۔ اس کی پذیرائی بھی ہونی چاہیے اور اسے پاکستان سے باہر ملک کی، اور پاکستان کے اندر اُس طبقے کی شناخت بننا چاہیے جو اس ملک کو آگے بڑھنے کی حقیقی بنیاد فراہم کررہا ہے۔
ان منصوبوں میں دو چیزیں خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں:
1۔ زرعی شعبے میں مقامی insight پر مبنی innovation۔
2۔ اس innovation کے مقامی آبادی کی معاشیات پر اثرات۔
دعا فاؤنڈیشن کے منصوبوں کی وسعت اور گہرائی کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اس ادارے نے جدید معنوں میں ایک ٹیم کی طرح کام کرنا بھی سیکھ لیا ہے جو بجائے خود ایک اہم کامیابی ہے، کیونکہ اس طرح کے پیچیدہ اور طویل المدت منصوبوں میں زرعی ماہرین، سماجی کارکنان، مقامی آبادی اور حکومت تک کو ساتھ لے کر چلنا، اور سب سے collaborate کرنا پڑتا ہے، نیز مختلف و متضاد نقطہ ہائے نظر کو سمجھنا، متنوع اور رنگارنگskillsets اور تجربات کو ساتھ رکھنا بھی ضروری ہے جو فردِ واحد کے بس کی بات نہیں، اور صرف ٹیم کی سطح پر آپریٹ کرکے اس طرح کی کامیابیاں سمیٹی جا سکتی ہیں۔
دعا فاؤنڈیشن کے یہ منصوبے کہاں تک پہنچیں گے؟ مقامی زراعت اور معیشت کو کس حد تک انقلاب سے دوچار کرسکیں گے؟ ابھی معلوم نہیں، لیکن ان منصوبوں کو یہاں تک لانے کی ابتدائی جزئیات، مرحلہ وار تفصیلات، رکاوٹیں، مسائل، ان کے حل، مقامی آبادی میں نئے خیالات کو اپنانے کے مختلف مراحل… غرض ہر چیز کو دستاویزی ہونا چاہیے، اور نہ صرف پاکستان میں بزنس کے طلبہ اور تھنک ٹینکس سے یہ چیزیں شیئر کی جانی چاہئیں، بلکہ ان کیس اسٹڈیز کو عالمی سطح پر ایک قومی کامیابی کے طور پر بھی متعارف کروایا جانا چاہیے۔
شاید اس کے لیے دعا فاؤنڈیشن کو بزنس اسکولز کی انتظامیہ سے بھی collaberateکرنا پڑے گا، لیکن اگر انہوں نے پاکستان جیسے ملک میں مقامی انتظامیہ کے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا سیکھ لیا ہے تو امید ہے کہ وہ یہ کام بھی کرلیں گے۔ بصورتِ دیگر دوسرے لوگوں کو سامنے آکر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
غالب نے کہا تھا:
قانون باغبانی صحرا نوشتہ ایم
یعنی میں نے صحرا کو گل و گلزار بنانے کے قوانین سیکھ لیے ہیں۔
لیکن اس مصرعے میں غالب کا مطلب محض یہ ہے کہ میں نے شاعری میں ایسے مضامین کا اظہار سیکھ لیا ہے جس کا کوئی امکان زبان میں نہیں تھا۔
دعا فاؤنڈیشن نے صحرا کو گلزار بنانے کے یہ قوانین حقیقتاً سیکھے ہیں، تھر کا صحرا اس کی ایک مثال ہے۔
اس لیے اب یہ قوانین جس کو سیکھنا ہیں ان سے سیکھ لے۔