پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یومِ یادداشت 21 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان میں دماغی امراض کی نمائندہ تنظیم ’پاکستان سوسائٹی آف نیورو لوجی‘ (پی ایس این) ملک بھر میں طب کے شعبے سے وابستہ افراد کے ساتھ ساتھ عوام الناس میں بھی آگاہی پر مبنی سرگرمیوں کا انعقاد کرتی ہے۔ ان سرگرمیوں میں پریس کانفرنس، سوشل میڈیا آگاہی پیغامات، ڈاکٹرز کے لیے ورکشاپس کا انعقاد شامل ہے۔ آگاہی پر مبنی تقریبات کا انعقاد نیورولوجی اویئرنس اینڈ ریسرچ فائونڈیشن (نارف) بڑے پیمانے پر 2008ء سے ہر سال کرتی آرہی ہے۔ اِس سال عالمی یوم یادداشت کا مرکزی خیال ’’بھولنے کی بیماری کو جانیے‘‘ ہے، جس کے لیے اس بیماری کی جلد تشخیص ہونا ازحد ضروری ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) کی ویب سائٹ میں فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 55 ملین انسانوں کو بھولنے کا مرض لاحق ہے۔ ان مریضوں میں 60 فیصد کم اور درمیانے درجے کی آمدن رکھنے والے ممالک کے شہری ہیں۔ جس تناسب سے ڈیمینشیا یعنی بھولنے کی بیماری بڑھ رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے اندازہ ہے کہ 2030ء تک اس کے مریضوں کی تعداد 78 ملین، جبکہ 2050ء تک یہ تعداد بڑھ کر 139 ملین سے تجاوز کرجائے گی۔
بھولنے کا مرض دنیا بھر میں اوسط عمر کے اضافے کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ پاکستان میں اس مرض کے اعداد و شمار پر بات کریں تو تشخیص شدہ مریضوں کی محتاط ترین تعداد سات لاکھ سے زائد ہے، جبکہ پاکستان میں 65 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کی تعداد (عالمی ادارۂ صحت کے مطابق) دس لاکھ کے قریب ہے۔ دنیا بھر میں بالعموم اور پاکستانی معاشرے کے خاندانی نظام کے تناظر میں بالخصوص بھولنے کی بیماری کی تشخیص بروقت نہیں ہوپاتی، جس کی بنا پر بروقت علاج میں تاخیر ہوتی ہے، نتیجتاً مریض اور اہلِ خانہ کی مشکلات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
الزائمر، جو ڈیمینشیا (بھولنے کی بیماری) ہی کی سب سے عام قسم ہے ایسا دماغی عارضہ ہے جس میں دماغ کے یادداشت کے نظام کے خلیے بتدریج ختم ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ نتیجتاً دماغ کا وہ حصہ جو یادداشت کے نظام کا ذمہ دار ہوتا ہے متاثر ہونا شروع ہوجاتا ہے، جس کے باعث اس انسان کی شخصیت، رویہ، مزاج اور بحیثیتِ مجموعی حافظہ و سوجھ بوجھ متاثر ہوجاتے ہیں۔ ڈیمینشیا کی سو سے زائد اقسام ہیں جس میں سب سے عام قسم الزائمر ہے۔
بہت سی وجوہات ہیں جن کے باعث کسی بھی انسان کو ڈیمینشیا کا مرض لاحق ہوسکتا ہے۔ اس میں سب سے اہم وجہ بہرحال بڑھتی عمر (Ageing) ہی ہے، لیکن ڈیمینشیا فقط بڑھتی عمر کی وجہ سے نہیں ہوتی۔
قرآنِ عظیم الشان میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اور تم میں وہ بھی ہیں جو پہلے فوت ہوجاتے ہیں، اور وہ بھی ہیں جو نکمی عمر تک لوٹائے جاتے ہیں، کہ اسے کچھ بھی علم نہ رہے، سب کچھ جاننے کے بعد۔‘‘ (القرآن)
درج بالا کیفیت کو عرفِ عام میں نسیان کا مرض کہتے ہیں، جسے طب کی دنیا ڈیمینشیا کہتی ہے۔
یہ ایک لمبی چلنے والی بیماری ہے۔ ڈیمینشیا (نسیان) ایک دماغی مرض ہے، اور یہ فقط بڑھتی عمر (بڑھاپے) کی بیماری نہیں ہے۔ دماغ میں 20 سے زائد مختلف جین (Genes) ہیں جو کسی شخص کے لیے ڈیمینشیا کے خطرے کا باعث بن سکتی ہیں۔ جین APOE وہ پہلی جین ہے کہ تحقیق سے جس کے بارے میں پتا چلا کہ وہ الزائمر کی بیماری پیدا کرنے کی وجہ ہے۔
خواتین میں مردوں کے مقابلے میں الزائمر کی بیماری پیدا ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ خواتین کی اوسط عمر مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے جس کی وجوہات واضح نہیں ہیں۔
مجموعی طور پر الزائمر کے مرض میں مبتلا ہونے کی حتمی وجہ تاحال تحقیق کے مراحل سے ہی گزر رہی ہے، تاہم اب تک جو معلومات دستیاب ہیں ان میں مختلف جین جس میں APOE جین سب نمایاں ہے، کے علاوہ وٹامن بی 12 کی کمی، ذیابیطس، بلند فشارِ خون، فالج، نیند کی مسلسل کمی، موٹاپا، نیند آور، یاسیت، بے چینی اور سر درد کی ادویہ کا بے دریغ استعمال اور صحت مند دماغی و جسمانی سرگرمیوں کا فقدان جیسی وجوہات شامل ہیں جو بھولنے کی بیماری کا باعث بنتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تساہل پسندی، دیر سے سونا و جاگنا، تمباکو نوشی اور غیر متوازن غذا کا استعمال بھی حافظے کی کمزوری کا سبب بن سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ جو افراد مستقل بنیادوں پر ذہنی و جسمانی معمولات کو اپنائے رکھتے ہیں اُن کے بھولنے کی بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات کم ترین ہوجاتے ہیں۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ گزشتہ سالوں کے مختلف تحقیقاتی شواہد سے معلوم ہوا ہے کہ فضائی آلودگی بھی ڈیمینشیا کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔ ہمارے پالیسی ساز اداروں کو ماحول کی آلودگی کو کم اور اس کے معیار کو بہتر کرنے کے لیے سنجیدہ ہونا چاہیے۔ نیز سر کی چوٹ کے نتیجے میں یادداشت کا مسئلہ لاحق ہونے کا خطرہ خاصا زیادہ ہوجاتا ہے۔ معاشرے میں بڑے پیمانے پر اس ضمن میں آگاہی و شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی اداروں کو اپنی ذمہ داریاں عملی بنیادوں پر ادا کرنی چاہئیں تاکہ حادثات کے نتیجے میں سر کی چوٹوں کو کم سے کم کیا جاسکے۔
الزائمر( بھولنے کی بیماری) کی علامات کو جاننا اور اس کے مطابق ماہر امراضِ دماغ و اعصاب (نیورو لوجسٹ) سے رجوع کرنا اور مرض کی بروقت تشخیص، علاج کے مراحل میں خاصی معاون و مددگار ثابت ہوتی ہے۔
الزائمر( بھولنے کی بیماری) کی ابتدائی علامات میں یادداشت میں کمی، روزمرہ کے کاموں کو ادا کرنے میں مشکلات، وقت و جگہ کا یاد نہ رکھنا، قوتِ فیصلہ میں کمی، بات کرنے میں دشواری، روزمرہ کے کاموں میں عدم توجہی، دلچسپی کا فقدان، چیزوں کو رکھ کر بھول جانا، رویّے میں تبدیلی، باریک بینی و پیچیدہ سوچ میں مشکلات کے ساتھ ساتھ مکمل طور پر شخصیت کا تبدیل ہوجانا شامل ہیں۔ یاد رہے کہ الزائمر میں مبتلا انسان کے معمولاتِ زندگی، مزاج و رویّے میں ابتداً چھوٹی اور معمولی تبدیلیاں رونما ہوا کرتی ہیں۔ اگر بروقت توجہ نہ دی جائے تو ان میں نہ صرف اضافہ ہوجاتا ہے بلکہ بالآخر یہ الزائمر کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔ اس لیے ابتدائی علامات ہونے کی صورت میں معالج سے رجوع کرنا نہایت ضروری و مفید ہے۔ اگرچہ الزائمر سے مکمل چھٹکارا ناممکن ہے، مگر بروقت تشخیص و علاج اس مرض کی پیچیدگیوں و مرض کو تیزی سے بڑھنے سے روکنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔
اس مرض کی تشخیص ضروری لیبارٹری ٹیسٹ، دماغ کے اسکین (ایم آر آئی) اور مریض و اہلِ خانہ سے مکمل معلومات و طبی (نیورولوجی) معائنے کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ مرض کی تشخیص کے بعد ادویہ کا استعمال بالعموم روزمرہ معمولات میں آسانی کا باعث بن جاتا ہے، تاہم ایسے تمام مریض اپنے معالج کی ہدایات کے عین مطابق ادویہ استعمال کریں۔
تمام تشخیص شدہ مریضوں میں جہاں ادویہ کا استعمال اہم ہے، وہیں سماجی سرگرمیاں بھی مریضوں کے لیے نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ بھولنے کی اس بیماری میں چونکہ مریض میں یاسیت، مایوسی و اضطراب خاصا بڑھ جاتا ہے لہٰذا نفسیاتی و ذہنی مسائل کو بروقت تشخیص کرکے ادویہ و تبدیل طرزِ زندگی کی جانب ڈالنا مریض کے لیے نہایت مفید ہوتا ہے۔
بھولنے کی بیماری میں مبتلا مریضوں کے لیے جہاں علاج اور طرزِ زندگی کی تبدیلی اہم جزو ہے، وہیں ان مریضوں کے اہلِ خانہ بالخصوص وہ افراد جو باقاعدہ مریض کی تیمارداری و نگہداشت پر مامور ہیں ان کا حکمت اور صبر و تدبر کے ساتھ تمام معاملات کو لے کر چلنا مریض کی بہتری کے لیے ناگزیر ہے۔ ڈیمینشیا (بھولنے کی بیماری) کے مریض مرض کی علامات بڑھنے کی صورت میں ایسی ایسی حرکات کردیتے ہیں جن کو اہلِ خانہ نہ صرف حیرانی سے دیکھتے ہیں بلکہ ناقابلِ یقین صورتِ حال کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا ایسے مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے خصوصی کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ ان مریضوں کو ادویہ کے ساتھ ساتھ تازہ آب و ہوا، اور ماحول کی تبدیلی سے لطف اندوز ہونے کے مواقع فراہم کرنے چاہئیں۔
مرض سے محفوظ رہنے کے لیے متوازن غذا بالخصوص سبزیوں و پھلوں کا استعمال، جسمانی ورزش و چہل قدمی، ہر قسم کی تمباکو نوشی و نشے سے مکمل دور رہنے کے ساتھ ساتھ سماجی میل جول، دماغی نشوونما کے لیے مطالعہ اور ایسی مثبت سرگرمیوں میں حصہ لینا ضروری ہے جن سے ذہن متحرک رہے۔
ڈیمینشیا ایک طویل مدتی بیماری ہے۔ اس مرض میں مبتلا مریضوں کی نگہداشت جہاں اہلِ خانہ و عزیز رشتہ داروں کی ذمہ داری ہے، وہیں معاشرے کے اہلِ خیر، نجی تنظیموں اور حکومتی اداروں کو اس ضمن میں اپنا کردار عملی طور پر ادا کرنا ضروری ہے، تاکہ ہم اپنے ان مریضوں کا بہتر طور پر نہ صرف خیال رکھ سکیں، بلکہ اس مرض سے متعلق معاشرے میں آگاہی پیدا کریں، تاکہ ہم اپنے بزرگوں کی بہتر خدمت کے ساتھ ساتھ ان کی عمر کے بڑھاپے والے حصے میں ان کا معیارِ زندگی بہتر بنانے میں بحیثیت معاشرہ درست کردار ادا کریں۔ یہی صحت مند معاشرے کے قیام کا تقاضا اور ہمارے دینِ اسلام کا حکم ہے۔