صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وفاقی مجلسِ شوریٰ کے ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ یہ خطاب ایک دستوری تقاضا اور مجلسِ شوریٰ کی سالانہ روایت ہے، جس کے دوران صدرِ مملکت کو حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینا اور اس کی خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کرنا ہوتی ہے، تاکہ حکومت صدرِ مملکت کی رائے اور مشوروں کی روشنی میں اپنی کارکردگی میں بہتری اور خرابیوں کے ازالے کا اہتمام کرسکے۔ صدر کے خطاب کے دوران حزبِ اختلاف کے ارکان نے بینرز اٹھاکر اسپیکر ڈائس کے سامنے شدید احتجاج کیا، حکومت کے مجوزہ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل کے خلاف زوردار نعرے بازی بھی کی گئی، اور پھر واک آئوٹ کا حربہ بھی آزمایا گیا۔ اگرچہ صدرِ مملکت کے خطاب کے دوران حزبِ اختلاف خواہ یہ کوئی بھی ہو، کا شور شرابا بھی اب پارلیمانی روایات کا حصہ بن چکا ہے، تاہم صدرِ مملکت کا منصب نہایت محترم ہے، حزبِ اختلاف کو حکومت سے اپنے اختلافات سے بالاتر رہتے ہوئے صدر کا خطاب اُن کے احترام کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے توجہ اور سنجیدگی سے سننا چاہیے، اور اگر کسی بات پر تنقید یا اختلافِ رائے کا اظہار ضروری ہو تو خطاب کے بعد اس پر بحث کے دوران ارکان اپنی رائے کا اظہار جمہوری انداز میں کرسکتے ہیں، اور دل کی بھڑاس نکالنے کا بھی یہی بہتر موقع ہوسکتا ہے۔
معاملے کا دوسرا پہلو بھی اہم اور توجہ طلب ہے کہ صدر کو بھی اپنے خطاب میں اپنے منصب کے تقدس اور اپنی شخصیت کے بھرم کا خیال رکھنا لازم ہے۔ وہ بلاشبہ صدر کا منصب سنبھالنے سے قبل حکمران جماعت کے کارکن اور پارٹی سربراہ کے مرید اور شاگرد ہوسکتے ہیں، مگر ایوانِ صدر میں داخل ہونے کے بعد اُن کے لیے لازم ہے کہ وہ جماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر عدل کے تقاضوں کو پیش نظر رکھیں اور مملکت کے ہر شہری کو ایک نظر سے دیکھیں۔ بدقسمتی سے صدر ڈاکٹر عارف علوی کا مجلسِ شوریٰ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب اس معیار پر پورا نہیں اترتا۔ صدرِ مملکت کی حیثیت سے انہیں کسی طرح یہ کہنا زیب نہیں دیتا کہ دنیا عمران خان کی شاگردی اور مریدی اختیار کرے، خاص طور پر ان حالات میں جب کہ یہ بات اب کوئی راز نہیں بلکہ زبان زدِ عام ہے کہ جناب عمران خان تو خود کسی اور کے ’’حلقہ ارادت‘‘ سے وابستہ ہیں۔
ہمیں اس گستاخی پر معاف رکھا جائے کہ ہماری رائے میں صدرِ مملکت کا خطاب ساون کے اندھے کی تقریر تھی جسے ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے حزبِ اختلاف کو مشورہ دیا کہ وہ اگر ان کی بات سنے تو اسے بھی عقل آئے، حکومتی کارکردگی شور شرابے سے نہیں روکی جاسکتی، تین برس میں مثبت تبدیلیاں آئی ہیں، معیشت بہتر اور مستحکم ہوئی۔ انہوں نے انتخابی اصلاحات کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی اہمیت بھی اجاگر کی، اور رائے دی کہ اسے سیاسی فٹ بال نہ بنایا جائے۔ صدرِ مملکت کا خیال تھا کہ ملک کے ترقی سے محروم رہنے کا سبب ماضی کے حکمرانوں کی غلط ترجیحات اور بدعنوانی تھی، حزبِ اختلاف کو یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ پاکستان نے تین سال میں اندرونی اور بیرونی محاذ پر کامیابیاں حاصل کیں۔ جھوٹی خبروں کے سدباب پر زور دیتے ہوئے صدرِ محترم نے جمہوری اقدار کے فروغ اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی روایات کے استحکام کی بھی دعا کی۔ سی پیک کو گیم چینجر قرار دیتے ہوئے صدر نے کہا کہ بھارت پاکستان اور چین کے تعلقات میں دراڑ ڈالنے میں ناکام رہے گا۔ بھارت میں ایٹمی مواد کی چوری اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے انسانی حقوق کے عالمی منشور کی اس کھلی خلاف ورزی کو روکنے کا مطالبہ کیا۔ صدرِ محترم نے اس جانب بھی دنیا کو متوجہ کیا کہ سپر پاورز کے عاقبت نا اندیش اقدامات سے دہشت گردی بڑھی جس کا پاکستان نے بہادری سے مقابلہ کیا۔ افغانستان کی صورت حال سے متعلق صدر نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کا مؤقف اس ضمن میں درست ثابت ہوا ہے، ان کے سیاسی تدبر کو سراہا جانا چاہیے اور دنیا کو عمران خان کی شاگردی اور مریدی اختیار کرنا چاہیے۔
یوں صدرِ محترم کے خطاب کے مندرجات کو دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے ملکی اور بین الاقوامی حالات کا بھر پور تجزیہ قوم کے سامنے رکھا ہے، مگر افسوس ہے کہ قوم کا سب سے بڑا مسئلہ، سب سے اذیت ناک دکھ صدرِ مملکت کی توجہ حاصل کرنے سے مکمل طور پر محروم رہا۔ صدرِ مملکت نے یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ گزشتہ تین برس میں مہنگائی میں کتنا اضافہ ہوا ہے؟ ملک میں خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد کتنے فیصد بڑھ گئی ہے؟ تین برس میں بے روزگار ہونے والوں کی تعداد کتنی ہے؟ اور غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ کتنے مفلوک الحال لوگ بچوں کو اپنے ہاتھوں قتل کرنے کے بعد خودکشی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ؟ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو اس جانب بھی توجہ کی توفیق عطا فرمائے۔