سورۂ بقرہ رکوع 19 میں ہے:
’’ہم تمہیں کچھ خوف و خطر، فقر و فاقہ، جان و مال اور اولاد کے نقصانات میں مبتلا کرکے ضرور آزمائیں گے۔ جو لوگ ان حالات میں صابر رہیں اور ہر مصیبت کے وقت کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے انہیں خوشخبری دے دو۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اس کی رحمت نازل ہوگی اور ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘
ان آیات میں خاص طور سے بڑی بڑی مشکلات کا ذکر کیا گیا ہے جن میں مسلمان افراد انفرادی و اجتماعی دونوں حیثیتوں سے بطور آزمائش ڈالے اور پگھلائے جاتے ہیں، اور اگر صبر و استقامت کا جوہر رکھتے ہوں تو وہاں سے زرِ خالص بن کر نکلتے اور خدا کی عنایتوں اور رحمتوں کے مستحق ہوتے ہیں۔ لنبلون تاکید کا صیغہ ہے جس سے یہ حقیقت ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ:
یہ شہادت گہِ اُلفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
نیز اس تنبیہ و تاکید سے اہلِ ایمان کو اس جانب متوجہ کرنا مقصود ہے کہ ایمان لانے کے بعد انہیں اس اخلاقی تربیت اور قوت کے بہم پہنچانے کا سامان کرنا چاہیے جس کے زیرِ اثر وہ خدائی آزمائشوں میں پورے اتر سکیں، ورنہ اگر انہوں نے اس سے غفلت برتی اور صرف دعوائے اسلام پر اکتفا کر گئے تو مقتضیاتِ ایمان کو پورا کرنے کے کبھی اہل نہ ہوسکیں گے۔
خدا نے اپنی آزمائشوں میں سب سے پہلے ’’خوف‘‘ کا ذکر فرمایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اعلانِ اسلام کے بعد مختلف قسم کے خطرات اور اندیشے مومن کے سر پر سیاہ ابر کی طرح منڈلانے لگتے ہیں۔ غیر ایمانی حالت میں حاصل کی ہوئی عزت، کمایا ہوا مال اور جمع کیے ہوئے ذرائع آمدنی سب خطرے میں پڑ جاتے ہیں، حتیٰ کہ اس کی جان جو کبھی ہر طرح مامون و محفوظ تھی دشمنوں اور مخالفوں کے ہاتھوں خطرے سے نہیں بچتی۔ حرام و حلال کی تمیز اور بندگیٔ رب کے سوا تمام قسم کی بندگیوں سے بے زاری اس کی پوری معاشی، معاشرتی اور سیاسی زندگی پر خوف و دہشت کی گہری تاریکی مسلط کردیتی ہے۔ گھر کے بڑے بوڑھے اس سے ناراض، خاندان کے سربرآوردہ لوگ اس سے متنفر اور قوم کے بڑے بڑے پیشوا اس کے دشمن ہوجاتے ہیں۔ اعزا و اقربا اور دوست احباب کا ایک بڑا حلقہ اس سے اپنا تعلق منقطع کرتا اور بعض اوقات اس کے جانی دوست جانی دشمن ہوجاتے ہیں۔ حکومت ِ باطلہ بھی اس کو آنکھیں دکھاتی ہے۔ اس کی عزت کو پامال کرنے کے لیے قید و بند، اور اس کو مالی نقصانات پہنچانے کے لیے ضبطِ اموال کی کارروائیاں کی جاتی ہیں، اور کبھی تو اس کی جان ہی کے درپے ہوجاتی ہے۔
دوسرا مرحلہ جوع یعنی فقر و فاقہ اور معاشی تنگ دستی و بدحالی کا مرحلہ ہے، اور یہ بڑا سخت اور جاں گسل مرحلہ ہے۔ فقر و افلاس بقول ایک عربی شاعر کے کفر کے بعد دنیا کی سب سے بدتر چیز ہے، کیونکہ انسان اپنی ضروریات کو پورا کرنے پر ہر طرح مجبور ہے، اور جب وہ کسی طرح پوری ہوتی نظر نہیں آتیں تو وہ سخت پریشانیوں اور تفکرات میں مبتلا ہوجاتا ہے، اور یہ پریشانیاں اس کے دماغ کو معطل، اس کے قویٰ کو مضمحل اور اس کی فکر کو منتشر کردیتی ہیں۔ اس کے احساسات و جذبات میں ایک طوفان سا اٹھتا رہتا ہے جو اس کی اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کی صلاحیتوں کو بھی طوفان زدہ کشتی کی طرح جھکولے دے دیتا ہے۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کے اردگرد لوگ اپنی ضمنی و فروعی ضروریات کو بھی بڑی فراخی سے پورا کررہے ہیں بلکہ بکثرت لوگ تو فضولیات و لغویات تک کو ضروریات بنائے ہوئے ہیں اور نہایت اطمینان سے ان کو انجام دے رہے ہیں درانحالیکہ اسے اپنی بنیادی ضروریات تک کے پورا کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو قدرتی طور پر اس کے دل و دماغ کو سخت دھکا لگتا ہے، پیٹ کی آگ ایسی تیز و تند، اتنی بلاانگیز اور اس قدر شعلہ افگن ہوتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے ساری دنیا اس میں جل کر بھسم ہوجائے گی، اسی کے ہاتھوں مجبور ہوکر خدا کا پیغمبرؐ تک تلاشِ غذا میں کاشانۂ مبارک سے نکل کھڑا ہوتا ہے، حضرت ابوبکرؓ راہ میں ملتے ہیں تو دریافت کرنے پر بتاتے ہیں کہ وہ بھی اسی کے لیے فکرمند ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ترجیحِ دنیا پر آخرت کے وساوس انسان کے دل و دماغ میں گھستے اور اسے سخت متزلزل کردیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ خدا سے ’’رزقِ کفاف‘‘ کی دعا کی ہے۔
جب ایک مومن ’’خوف‘‘ میں مبتلا کیا جاتا ہے تو بہت مشکل ہے کہ وہ ’’جوع‘‘ کی دشوار گزار گھاٹی سے بچ کر دور ہی دور نکل جائے، اسے اس راہ سے ضرور گزارا جاتا ہے تاکہ زندگی کا ہرنشیب و فراز اس کی نظر میں آجائے۔