شیخ تجمل الاسلام کی رحلت

آپ نے اپنی پوری جموں و کشمیر کی بھارتی تسلط سے آزادی کے لیے وقف کی ہوئی تھی

 

سید علی گیلانی کی رحلت کے بعد بزرگ صحافی، دانشور، کشمیر کاز کے علَم بردار، ”کشمیر میڈیا سروس“ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر، اور سید علی گیلانی کے قریبی ساتھی شیخ تجمل الاسلام کی رحلت کشمیر، کشمیریوں اور عالم اسلام کا درد رکھنے والوں کے لیے بڑا سانحہ ہے، اور علم و ادب کی دنیا کا بھی بڑا نقصان ہے۔ اتفاق کی بات ہے سید علی گیلانی کی رحلت کے بعد میں نے آپ سے رابطے کی کوشش کی تاکہ سید صاحب کی جدوجہد اور قربانیوں پر بات ہوسکے لیکن فون ریسیو نہیں ہوا۔ پھر کچھ دن بعد ہی ماہنامہ ترجمان القران کے سلیم منصور خالد صاحب نے واٹس ایپ پر آپ کی رحلت کی اطلاع دی اور بتایا کہ شیخ صاحب کورونا میں مبتلا ہوئے اور گزشتہ ایک ماہ سے اسلام آباد کے ایک اسپتال میں زیر علاج تھے، وینٹی لیٹر پر چلے گئے تھے لیکن جانبر نہ ہوسکے۔
شیخ تجمل الاسلام کا تعلق وادی کشمیر سے تھا۔ آپ کی کشمیر اور اس سے متعلقہ ایشوز، سیاست اور جدوجہد پر گہری اور عمیق نظر رہی۔ آپ جموں و کشمیر کے سب سے بڑے شہر سری نگر میں1954ء میں پیدا ہوئے، اسی خوب صورت مقام پر پلے بڑھے، اور یہیں سے جدوجہد کا سفر شروع کیا۔ آپ نے 1975ء میں کشمیر یونیورسٹی سری نگر سے ایل ایل بی اور 1980ء میں ایم اے اردو کی ڈگریاں حاصل کیں۔
تحصیلِ علم کے دوران 1979ء سے 1984ء تک مقبوضہ علاقے میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہے۔ اس دوران آپ نے کشمیر میں ایران کے اسلامی انقلاب کی طرز کا انقلاب برپا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ایک عالمی کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا، جس پر بھارت سیخ پا ہوا اور اُس نے اس کانفرنس کو بزور طاقت روک دیا، شیخ تجمل اور ان کے کچھ ساتھی گرفتار ہوئے، کچھ جلاوطن ہوئے، اور کچھ زیر زمین چلے گئے۔ اور اس کے بعد پھر یہ تحریک بتدریج آگے بڑھتی چلی گئی۔ سلیم منصور خالد صاحب کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق آپ 1973ء سے1980ء تک سری نگر سے شائع ہونے والے اخبار ”اذان“ کے چیف ایڈیٹر رہے اور کئی روزناموں اور ہفتہ وار اخبارات اور جرائد میں بطور مدیر کام کیا۔ 1974ء سے 1984ء کے درمیان کئی بار گرفتار کیے گئے۔ سری نگر میں ہی وکالت بھی کی۔ 1975ء میں شیخ عبداللہ اور اندرا گاندھی کے معاہدے کے خلاف، اور اس کے مضر اثرات کو لوگوں پر آشکارا کرنے کے لیے خاصا کام کیا۔ اس سلسلے میں آپ ایک مؤثر آواز تھے۔ متعدد بار قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، جس کے بعد آپ کو وادی سے پاکستان کی جانب ہجرت کرنی پڑی۔
70 کی دہائی میں دو اہم واقعات یعنی1971ء میں سقوط ڈھاکہ اور 1975ء میں اندرا عبداللہ معاہدے کے بعد بھارت نے یہ پروپیگنڈہ تیز کردیا کہ اب پاکستان کشمیریوں کی بھرپور حمایت کے قابل نہیں رہا۔ بھارت کے اس پروپیگنڈے نے کشمیریوں کے حوصلوں پر قدرے منفی اثرات مرتب کیے اور اس سے مقبوضہ علاقے میں جمود کی کیفیت طاری ہوگئی، جسے توڑنے کے لیے شیخ تجمل الاسلام نے 1982ء میں سری نگر میں بین الاقوامی کشمیر کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ بھارت نے بعد میں یہ کانفرنس نہ ہونے دی، مگر اس کی تیاریوں نے اہلِ کشمیر، خاص طور پر نوجوانوں میں آزادی کی ایک نئی تڑپ بیدار کردی۔ اب شیخ تجمل الاسلام بھارت کی نظروں میں کھٹکنے لگے۔ جب ان کے گرد شکنجہ کسا جانے لگا تو وہ نیپال منتقل ہوگئے۔ نیپال میں انہوں نے کشمیر کاز کے لیے بھرپور کام کیا۔ کٹھمنڈو میں قیام کے دوران اسلامک سیوک سنگھ نامی تنظیم کی بنیاد رکھی جو اس وقت نیپال کی سب سے بڑی مسلم تنظیم ہے۔ نیپال میں قیام کے دوران انہوں نے انٹرنیشنل اسلامک فیڈریشن آف اسٹوڈنٹ آرگنائزیشنز (آئی آئی ایف ایس او) کے تحت جنوبی ایشیا میں مسلم اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن کے کوآرڈی نیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ شیخ تجمل الاسلام پاکستان ہجرت کے بعد 1998ء سے 1999ء تک پاکستان ٹیلی ویژن کے نیوز سیکشن سے وابستہ رہے۔ انہوں نے 1992ء سے 2000ء تک انسٹی ٹیوٹ آف کشمیر افیئرز کی سربراہی کی۔ بعد ازاں 1999ء میں ”کشمیر میڈیا سروس“ کے ساتھ بطور ایگزیکٹو ڈائریکٹر وابستہ ہوگئے اور اپنی آخری سانس تک اس ادارے کے ساتھ منسلک رہے۔ وہ ”کشمیر اِن سائیٹ“ کے نام سے شائع ہونے والے انگریزی جریدے کے چیف ایڈیٹر بھی رہے۔ شیخ تجمل الاسلام نے بین الاقوامی سطح پر اور پاکستان میں کشمیر پر مختلف کانفرنسوں اور سیمیناروں میں شرکت کی اور اپنی تقاریر میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی ریشہ دوانیوں، مذموم منصوبوں، شاطرانہ چالوں کا پردہ چاک کرتے رہے۔ انہوں نے کشمیر پر انگریزی اور اردو میں مضامین اور تجزیے تحریر کیے۔ وہ ہمیشہ تنازع کشمیر کے انصاف پر مبنی حل کی حمایت کرتے رہے۔ ان کی دیانت داری اور دانش ورانہ مہارت کی وجہ سے صحافتی حلقوں میں ان کی بہت عزت و توقیر کی جاتی تھی۔ وہ نیشنل پولیس فائونڈیشن اسلام آباد میں رہائش پذیر تھے۔ کے ایم ایس کا عملہ اپنے ٹیم رہنما اور سرپرست کے انتقال پر دلی رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے غمزدہ لواحقین کے ساتھ بھرپور اظہار تعزیت کرتا اور مرحوم کے درجات کی بلندی اور لواحقین کے لیے صبر جمیل کی دعا کرتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل میں نے ایک طویل انٹرویو کے دوران آپ سے پوچھا تھا کہ ”آج اگر کشمیر میں جدوجہد ہے، اور دنیا اس کو مسئلہ کشمیر کے عنوان سے جانتی ہے، تو اس کی وجہ صرف اور صرف سید علی گیلانی اور مجاہدینِ کشمیر ہیں۔ آپ سید علی گیلانی کے بغیر اس تحریک کو کس طرح سے دیکھتے ہیں؟“
تو اس پر شیخ تجمل الاسلام نے جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”جدوجہدِ آزادی کا اہم عنصر جموں و کشمیر کے آزادی پسند عوام کی قربانیاں ہیں۔ ان کا عزم، حوصلہ اور ارادہ ہے۔ ان کی خواہشات کی ترجمانی جس کسی نے کی اُس کو انہوں نے محبوب رکھا اور اس پر اعتماد کیا۔ جناب سید علی گیلانی کشمیری عوام کی خواہشات کی پوری بے باکی کے ساتھ ترجمانی کرتے رہے ہیں، لہٰذا وہ کشمیری عوام کے محبوب راہنما ہیں۔ مجاہدین نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے بھارت کے لیے زبردست مشکلات پیدا کیں اور کشمیری عوام کو نئی امید عطا کی۔ لہٰذا کشمیری عوام ان کی پشت پر کھڑے رہے۔ قائدین کے بدلنے سے اس تحریک پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ بنیادی اعتبار سے اس تحریک میں عوام کا جذبہ اور ان کا یہ فیصلہ شامل ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو، وہ بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف مزاحمت کرتے رہیں گے۔“
اسی طرح اُن سے یہ سوال اور اس کا جواب آج بھی بہت اہم ہے کہ ”تحریکِ آزادی کی کامیابی کے سلسلے میں کتنے پُرامید ہیں اور آپ کی امید کی کیا بنیاد ہے؟“ تو کشمیر اور کشمیریوں کی جدوجہد اور ہندوستان کو پورا جاننے والے شیخ تجمل الاسلام نے کہا تھا کہ ”جموں و کشمیر کی تحریک آج جس جگہ پر ہے وہاں سے واپسی کی کوئی گنجائش نہیں۔ کشمیر کو بہرحال بھارت کے چنگل سے آزاد ہونا ہے۔ اس کے بہت سارے عوامل ہوسکتے ہیں۔ کئی بڑی طاقتیں ٹوٹ چکی ہیں، بھارت کیوں نہ ٹوٹے؟ ہندوتوا کا فلسفہ خود بھارت کے ٹوٹنے کا سبب بن جائے گا۔ آر ایس ایس اور بی جے پی بھارت کو تباہی کے دہانے کی طرف لے جارہی ہیں۔ بھارت کے لیے جموں و کشمیر کو کنٹرول کرنا مشکل بن گیا ہے۔ یہ صورت حال 1989ء سے برابر قائم ہے کہ وہ مقبوضہ علاقے میں اپنی پسند کی سیاسی سرگرمیاں برپا کرنے میں ناکام ہورہا ہے۔ بھارت کے اندر کی سوسائٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ بھارت کی 19 ریاستوں میں علیحدگی پسندی کی تحریکیں ہیں، اور اُس کے ہمسائے اُس سے تنگ آچکے ہیں۔ بھارت 1947ء میں ایک ملک کی حیثیت سے ابھرا، لیکن ایک مصنوعی اسٹیٹ کی صورت میں۔ یہ اس طرح پہلے کبھی متحد نہیں تھا اور نہ رہ سکتا ہے۔ انہی حالات میں جموں و کشمیر کا بھی فیصلہ ہوگا۔ البتہ یہ کب ہوگا؟ یہ وقت بتائے گا، اور آئندہ کے حالات اس بات کو سمجھنے میں مزید آسانی پیدا کریں گے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 5 اگست 2019ء کے بعد بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے صورت حال بدل چکی ہے۔ پہلے اس مسئلے کا تعارف ہماری ضرورت تھی، اب دنیا کا کوئی ملک نہیں جو اس بات کو اپنی ضرورت محسوس نہ کرتا ہو کہ وہ مسئلہ کشمیر پر اپنی کوئی پالیسی وضع کرے۔ مسئلہ کشمیر پر اب تحقیق کی جارہی ہے، مقالے لکھے جارہے ہیں، کتابیں تصنیف ہورہی ہیں، اور دن بدن مسئلہ کشمیر کے مختلف گوشے دنیا پر کھلتے جارہے ہیں۔“
شیخ تجمل الاسلام نے اپنی پوری زندگی تنازع کشمیر کے حل اور جموں و کشمیر کی بھارتی تسلط سے آزادی کے لیے وقف کی ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ آپ کی جدوجہد کو قبول فرمائے۔