ایک شخص صبح منہ اندھیرے حمام کی طرف جانے کے لیے گھر سے نکلا۔ راستے میں اسے ایک دوست ملا۔ اس نے دوست کہا: ’’آئو ذرا حمام تک اکٹھے چلتے ہیں‘‘۔ دوست نے کہا کہ میں حمام کے اندر تمہارے ساتھ نہیں جاسکوں گا کیونکہ مجھے کام ہے، بہرحال حمام تک ہمارا ساتھ رہے گا۔ حمام سے کچھ پہلے ہی دوست بغیر بتائے اپنے راستے کی طرف مڑ گیا۔ حمام سے باہر سڑک پر اس نے ایک شخص کو دیکھا اور سمجھا کہ وہ کوئی ٹھگ ہے۔ اتفاق سے ایک ٹھگ اس کے پیچھے بھی آرہا تھا جس کا قطعاً اسے علم نہ تھا، بلکہ وہ یہی سمجھ رہا تھا کہ اس کا دوست ہی اس کے پیچھے ہے۔ اس کے پاس سو دینار تھے۔ اس نے نکالے، پگڑی کے پلو میں باندھے اور پیچھے انے والے ٹھگ کو دوست سمجھتے ہوئے دے دیے اور کہاکہ یہ میری امانت اپنے پاس امانت رکھو، حمام سے فارغ ہوکر میں بعد میں آپ سے لے لوں گا۔ وہ شخص حمام سے فارغ ہوا تو اپنی امانت کے لیے اپنے دوست کے گھر کی طرف چل پڑا کہ ٹھگ نے اسے آواز دی: اے جواں مرد! اپنی رقم واپس لے لے، اس کے بعد کہیں جانا، تیری امانت کے باعث میں اپنا کام کرنے سے قاصر رہا ہوں‘‘۔ اس شخص نے پوچھا: ’’کون سی امانت؟‘‘، ’’ابھی حمام میں جانے سے پہلے تم نے جو دی تھی‘‘، ٹھگ نے بتایا، تو اس شخص نے پوچھا: ”مگر وہ تو میں نے اپنے دوست کو دی تھی، تمہارے پاس کیسے آگئی اور تم کون ہو؟“’’تم نے دوست کے دھوکے میں امانت میرے حوالے کردی اور میں ایک ٹھگ ہوں‘‘ ٹھگ نے بتایا تو اس شخص نے پوچھا: ’’اگر تم ٹھگ ہو تو یہ رقم کیوں نہیں لے اُڑے؟‘‘ ٹھگ بولا: ’’اگر میں اپنی ہنرمندی سے حاصل کرتا تو اور بات تھی مگر امانت میں خیانت کو میں کسی مرد کے شایانِ شان نہیں سمجھتا‘‘۔ ( ماہنامہ چشم ِبیدار۔ فروری 2021ء)