نثر کا باپ؟ ارے باپ رے باپ!

بھارت سے ایک قاریہ کا بھاری بھرکم اعتراض موصول ہوا ہے۔ لُبِّ لُباب خاتون کے اعتراض کا یہ ہے:
’’تم اپنے آپ کو ’ابونثر‘ کیوں لکھتے ہو؟ نثر کا باپ؟ بھلا یہ کیا نام ہوا؟ کیا کوئی شخص نثر کا باپ ہوسکتا ہے؟‘‘
ہم دِن دِہاڑے اپنے آپ کو ’نثر کا باپ‘ بنتے دیکھ کر’ارے باپ رے باپ‘ کہہ کر رہ گئے۔ کیوں کہ کسی خاتون سے، اور وہ بھی کسی معترض خاتون سے مُجادلہ کرنے کی جرأت تو شاید کسی کا باپ بھی نہ کرسکے۔
اکثر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ’اَبو‘ کا مطلب صرف ’اَبُّو‘ ہوتا ہے۔ ہمارے برادرِ بزرگ جناب وسیم زیدی تو ہمیں پُکارتے ہی ’نثر کے اَبُّو‘ کے نام سے ہیں۔ جب کہ سید خورشید عالم مرحوم نے اپنے ایک فکاہیے میں اس عاجز کا ذکر کرتے ہوئے اس مفہوم کی کوئی بات لکھی تھی کہ یہ نثر کے باپ ہیں اور ابن انشا نثر کے بیٹے، کیوں کہ نثر نگاری اور انشاپردازی ایک ہی چیز ہے۔ اِس رشتے سے یہ حضرت تو ابن انشا کے بھی نانا نکلے۔
اَبو کو ابّو سمجھنے کے باب میں ’بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا‘، اس کی تفصیل میں جانا پڑے تو آپ دیکھیں گے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے، صاحبِ علم لوگ بھی ابوترابؓ کا مطلب ’مٹی کا باپ‘ بتاتے ہیں، اور ابوہریرہؓ کے معنی ’بلی کے بچے کا باپ‘۔ خاتون کے اعتراض کو بجا مان لیا جائے تو پوچھا جا سکتا ہے کہ کوئی انسان، اور ایسا عظیم انسان جس کا نام احترام کے القاب کے بغیر نہیں لیا جاسکتا، کیا ریت، مٹی کا باپ یا بلی کے بچے کا باپ ہوسکتا ہے؟ بلی کے بچے کا باپ بننے کے تصور ہی سے گِھن اور اُبکائی آنے لگتی ہے۔
صاحبو! عربی کا ایک لفظ ہے کُنیت۔ کثیر المعانی ہے۔ اس کے معنوں میں شے کی حقیقت کو پہچاننا اور اشارتاً بات کرنا شامل ہے۔ ’کنایہ‘ اسی سے نکلا ہے۔کسی بات کے ظاہری معنوں کے بجائے کچھ اورمعنی لیے جاتے ہوں تویہ کنایہ ہے ۔ مثلاً اگر کہا جائے کہ فلاں کا دسترخوان بہت وسیع ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں لیا جائے گا کہ فلاں صاحب کے ہاں کوئی آٹھ دس گز لمبا اور اسی قدر چوڑا دسترخوان دھرا ہوا ہے۔ ممکن ہے دھرا ہوا بھی ہو، مگر اس سے مراد یہ لی جائے گی کہ فلاں صاحب بہت سخی، مہمان نواز اور کُشادہ دل آدمی ہیں۔ یہی کنایہ ہے۔
کنیت بھی کنایہ ہی کی ایک صورت ہے۔ عربوں کا قاعدہ تھا کہ کسی کی پہچان کے لیے اُس کا اسمِ ذاتی استعمال کرنے کے بجائے تعظیماً اُس کی کنیت استعمال کرتے تھے۔ کنیت دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک تو وہی نسبی کُنیت، جس میں ’اَبو‘ کا مطلب ’باپ‘ لیا جاتا ہے، مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو آپؐ کے بڑے صاحبزادے حضرت قاسمؓ کی نسبت سے ابوالقاسم کہا جاتا ہے، اور حضرت علی رضی اللہ عنہٗ کو آپؓ کے بڑے صاحبزادے حضرت حسنؓ کی نسبت سے ابوالحسن کہا جاتا ہے۔ اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام کی کنیت ابوالبشر (انسانوں کے باوا) ہے۔ آج تک جتنے انسان اس زمین پر پیدا ہوتے چلے جا رہے ہیں سب ہی آدم کی اولاد ہیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلّم سمیت بہت سے انبیاء پیدا ہوئے۔ چناں چہ آپؑ کی کنیت ابوالانبیاء (نبیوں کا باپ) ہے۔
کُنیت کی دوسری قسم توصیفی ہوتی ہے۔ یعنی کسی شخص کی کوئی صفت یا کوئی وصف لے کر اُس کے ساتھ ’ابو‘ لگا دیا جاتا ہے۔ ایسی کنیت کا مطلب ’باپ‘ نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب وہی ہوتا ہے جو اُردو میں ’صاحب‘ یا ’والا‘ کا مطلب ہوتا ہے۔ مشہور واقعہ ہے کہ ایک بار سیدنا علی رضی اللہ عنہٗ کسی بات پر خفا ہوکر زمین پر لیٹ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم اپنے اس بھائی کو منانے کے لیے تشریف لے گئے، جس کی پرورش آپؐ نے اُس کے بچپن سے کی تھی۔ دیکھا کہ مٹی میں لیٹے ہوئے ہیں۔ رحمۃ للعالمینؐ، سیدنا علیؓ کے چہرے اور لباس سے، مٹی جھاڑتے جاتے تھے اور پیار سے پکارتے جاتے تھے ’’یا اَبا تُراب، یا اَبا تُراب‘ مطلب ’اے مٹی میں لیٹنے والے، اے مٹی میں لیٹنے والے‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی زبانِ اقدس سے پیار اور محبت بھرا یہ کلمہ سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہٗ نے اسے اپنی کنیت کے طور پر پسند فرما لیا۔
صحابیِ رسولؐ حضرت عبدالرحمٰن بن صخر رضی اللہ عنہٗ اصحابِ صُفّہ میں سے تھے۔ ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر رہا کرتے۔ انھیں کہیں سے بلی کا ایک بچہ مل گیا۔ آپؓ کو اس پر اتنا پیار آیا کہ اُسے اُٹھا کر اپنی آستین میں ڈال لیا۔ آپؓ خود فرماتے ہیں کہ رات کو میں اسے ایک درخت کی کھوہ میں چھپا دیتا۔ صبح کو جب بکریاں چَرانے جاتا تو ساتھ لے لیتا، پھر دن بھر ساتھ رکھتا۔ آپؓ کا یہ شوق دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے آپؓ کی کنیت ہی ابوہریرہؓ (بلی کے بچے والا) رکھ دی۔ یہ کنیت اتنی مقبول ہوئی کہ لوگ ان کا اصل نام بھول گئے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی بلی بھی ضرب المثل بن گئی۔ انگریزوں کے دور میں جب دہلی پر آفت ٹوٹی تو بہت سے لوگ دہلی چھوڑ گئے، مگر خواجہ حسن نظامی جو دہلی میں پیدا ہوئے تھے دہلی ہی میں ڈٹے رہے۔ اکبرؔ الٰہ آبادی کی دعوت پر بھی دہلی چھوڑ کر الٰہ آباد نہ گئے۔ اکبرؔ نے اُن کی استقامت کا ذکر اپنے ایک شعر میں یوں کیا ہے:
حضرت ابوہریرہؓ سے بلی نہ چُھٹ سکی
خواجہ حسن نظامی سے دلی نہ چُھٹ سکی
کُنیت مشہور ہوجانے کی وجہ سے اصل نام بھول جانے کی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔ مثلاً عبدالعزیٰ کا چہرہ آگ کے شعلوں کی طرح دہکتا ہوا سُرخ تھا۔ لوگ اس کا بھی اصل نام بھول گئے اور ابولہب (شعلے جیسے چہرے والا یا شعلہ رُو) کہہ کر پکارتے پھرے۔ اسی طرح عمرو بن ہشام، حق کو جاننے اور پہچاننے کے باوجود، اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے جاہلیت کے دھرم پر اَڑا رہا۔ اِس وجہ سے اُس کی کنیت ابوجہل (صاحبِ جہالت) اُس کا عُرف بن گئی اور یہی اُس کی شناخت ٹھیری۔
صراحی سے پانی یا کوئی مشروب اُنڈیلا جائے تو’’ قُل قُل قُل قُل‘‘ جیسی آواز نکلنے لگتی ہے، جسے ’قُلقُلِ مِینا‘ کہا جاتا ہے۔ (مِینا صراحی کو کہتے ہیں) صدائے قُلقُل کو قہقہے سے بھی تشبیہ دی گئی ہے۔ ذوقؔ کی وہ غزل شاید آپ نے بھی پڑھی ہو جس کا یہ شعر بہت مشہور ہے:
بڑے موذی کو مارا نفسِ اَمّارہ کو گر مارا
نہنگ و اژدہا و شیرِ نر مارا تو کیا مارا
اسی غزل میں شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ مزید فرماتے ہیں:
ہنسی کے ساتھ یاں رونا ہے مثلِ قُلقُلِ مِینا
کسی نے قہقہہ اے بے خبر مارا تو کیا مارا
اہلِ میکدہ نے قُلقُل کی اسی آواز کی مناسبت سے ساقی کی کُنیت ہی ’ابوالقُلقُل‘ رکھ چھوڑی، کیوں کہ میخانے کی ساری ’قُل قُل‘ اُسی کے دم سے ہے۔ یہاں بھی اس کا مطلب ’قُلقُل کا باپ‘ نہیں لیا جائے گا۔ ’صاحبِ قُلقُل‘ کہا جائے گا۔ حفیظؔ جالندھری بھی ’ابوالاثر‘ تھے۔
ان کے پُر اثر کلام کے اثرات قومی ترانے کی صورت میں ہر پاکستانی کے دل پر ہمیشہ ثبت رہیں گے۔
کنیت ہی نہیں، ہمارے ہاں بعض نام بھی ’اَبو‘ کا سابقہ لگا کر رکھے جاتے ہیں۔ مثلاً ابوالجلال (شان و شوکت، عظمت و بزرگی اور رعب داب والا)، ابوالحسنات (نیکیوں والا)، ابوالخیر (بھلائی والا)، ابوالاعلیٰ (بلند مرتبے والا) اور ابوالکلام (قدرتِ کلام والا)
مولانا ابوالکلام آزادؔ کے نام کا ہندی ترجمہ کرتے ہوئے کسی نے اُنھیں ’مہابکُّو چُھٹیرا‘ قرار دے ڈالا۔ چُھٹیرا اُسے کہتے ہیں جسے ہر طرح کی چھوٹ ملی ہوئی ہو۔ یعنی ہر پابندی سے آزاد ہو۔ ہمارا کوئی بقراط اگر ’ابوالکلام‘ کا ترجمہ کرنے پر اُتارُو ہوجائے تو انھیں ’بک بک کا باپ‘ بنا ڈالے گا۔ بک بک کرنا آپ کے نزدیک لاکھ بُرا سہی، مگر حیدرآباد دکن میں، سنا ہے کہ، جہاں ’فرمائیے‘ کہنے کا موقع ہوتا ہے، وہاں اہلِ دکن ’بکیے‘ کہا کرتے ہیں۔ گویا بکواس کرنا دکن والوں کے نزدیک ایک شائستہ شغل ہے۔ اس انکشاف کے بعد آپ ہی بتائیے کہ ’نثر کا باپ‘مزید کیا لکھواس کرے؟