کتاب
:
عملی منافقت کی علامات
مصنف
:
ڈاکٹر محمد سلیم
ضخامت
:
328 صفحات قیمت:490 روپے
ناشر
:
بن نذیر مطبوعات
29 جی ۔6 ماڈل ٹائون، لاہور
فون
:
03314905108
ملنے کا پتا
:
منشورات منصورہ ملتان
روڈ لاہور، 54790
فون
:
03320034909-042-35252210-11
برقی پتا
:
manshurat@gmail.com
قرآن مجید فرقانِ حمید کا مطالعہ کریں تو یہ بات نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے کہ منافقت کفر اور شرک سے بھی بڑا اور سنگین ترین جرم ہے۔ زیر نظر کتاب ’’عملی منافقت کی علامات‘‘کا موضوع بھی یہی ہے۔ کتاب کے مصنف اگرچہ پیشے کے لحاظ سے ماہر امراضِ اطفال ہیں، تاہم قرآن و حدیث کے مطالعے کا گہرا شغف رکھتے ہیں، اور اپنے اسی مطالعے کی روشنی میں معاشرے میں پائی جانے والی بعض اہم خرابیوں اور غلط فہمیوں سے متعلق نہایت سنجیدگی سے قلم اٹھاتے اور بعض ایسے نازک موضوعات کو چھیڑتے ہیں جن کی جانب عام لکھنے والوں کی توجہ جاتی ہی نہیں۔ زیر نظر کتاب کے علاوہ ان کی اب تک درج ذیل تصنیفات شائع ہوچکی ہیں:
’’تبلیغی جماعت کی علمی و عملی کمزوریاں‘‘، ’’برج اور ستارے… حقیقت کیا ہے؟‘‘، ’’شان و شوکت کی ہوس‘‘، ’’عملی منافقت کی 73 نشانیاں‘‘، ’’شیطان کی پیروی‘‘، ’’شفاعت، حقیقت کیا ہے؟‘‘
کتاب کے مقدمہ میں منافقت کی سنگینی کے اسباب کی وضاحت کرتے ہوئے مصنف یوں رقم طراز ہیں:
’’منافقین کا معاملہ کفار اور مشرکین سے اس لیے زیادہ سنگین ہے کیونکہ منافقین کلمہ پڑھ کر اسلام کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ سچے مسلمانوں کے ساتھ مسجد میں نمازیں پڑھنا، حج، عمرے کرنا، خیراتی کاموں میں حصہ لینا، داڑھی ٹوپی اور ایسے ہی کئی دوسرے بہروپ منافق کی اصلیت پر پردہ ڈالے رکھتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں، قرآنِ عظیم جہاں متقین صالحین کی صفات بیان کرتا ہے، وہاں مجرمین کی نقاب کشائی بھی کرتا ہے۔‘‘
موضوع سے متعلق پہلے سے موجود کتب کے ہوتے ہوئے اپنی اس تصنیف کی ضرورت خود ڈاکٹر محمد سلیم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
’’مارکیٹ میں منافقت کی علامات پر پہلے ہی کئی کتابیں موجود ہیں۔ تو پھر ان کتابوں کے ہوتے ہوئے اس نئی کتاب کی کیا ضرورت تھی؟ اس کتاب میں خصوصی کوشش کی گئی ہے کہ ہم موجودہ دور میں ایسی باتوں کو سامنے لائیں جو قرآنِ عظیم کی آیات کی روشنی میں عملی منافقت کے زمرے میں آتی ہیں مگر ہماری نظر میں وہ معمول کی باتیں ہوتی ہیں، مثلاً کسی منصوبے کا افتتاح کرتے وقت کسی بڑے آدمی کے نام کی تختی لگاکر اس کی نقاب کشائی، یا کسی عیسائی ملک کی شہریت حاصل کرنا، وغیرہ۔‘‘
کتاب کا موضوع اپنے اندر نہایت حساسیت لیے ہوئے ہے۔ مصنف نے قرآن و سنت کے واضح دلائل کے ساتھ نہایت سنجیدگی سے ہماری روزمرہ زندگی میں پائی جانے والی عملی منافقت کی علامات کی نشاندہی کی ہے، اور بہت سے ایسے امور اجاگر کیے ہیں جن کے برائی ہونے سے متعلق کبھی سوچا ہی نہیں گیا۔ مثال کے طور پر سورہ نور کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے مصنف متوجہ کرتے ہیں کہ اہم اور اجتماعی مشاورت کے لیے طلب کیے گئے اجلاس میں سے بلا اجازت اٹھ کر چلے جانا بھی منافقت کی نشانیوں میں سے ہے۔ اس ضمن میں ہمارے ارکانِ اسمبلی کے طرزِعمل کو زیر بحث لاتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں:
’’پاکستان کی قومی اسمبلی میں کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے اکثر اجلاس کو ملتوی کرنا پڑتا ہے۔ارکان کی قومی اہمیت کے معاملات میں دلچسپی ہی نہیں۔ اگر اجلاس ہو بھی جائے تو ایوان اکثر مچھلی منڈی بنا رہتا ہے۔ زیر بحث نشانی میں تو منافق ارکان کے بارے میں شکایت ہے کہ وہ اجلاس سے کھسک جاتے تھے، ہمارے ہاں معاملہ اس سے بھی آگے ہے کہ قائدِ ایوان (وزیراعظم) خود ہی کبھی کبھار اجلاس میں آتا ہے!‘‘
مختصر یہ کہ کتاب کے مطالعے سے انسان میں یہ احساس شدت سے پیدا ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کرتے ہوئے ہمیں ہر ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ شاعر کے الفاظ میں ؎
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
اس کار گہِ شیشہ گری کا
کتاب عمدہ کاغذ پر اعلیٰ معیارِ طباعت سے آراستہ ہے، حروف خوانی بھی خاصی توجہ سے کی گئی ہے، تاہم کتاب کے موضوع کی اہمیت اور مستقل نوعیت کے پیش نظر بہتر ہوتا کہ اسے کارڈ بورڈ کے بجائے گرد پوش کے ساتھ مجلد صورت میں شائع کیا جاتا۔ اسی طرح کتاب کا سرورق بھی تھوڑی سی توجہ سے زیادہ دلکش، پُرکشش اور موضوع کے حوالے سے بامقصد و بامعنی بنایا جا سکتا تھا۔ کتاب کا موضوع اس بات کا متقاضی ہے کہ کتاب کی اشاعت کو زیادہ سے زیادہ وسعت دی جائے اور معاشرے کے عام افراد خصوصاً کم پڑھے لکھے افراد تک اس کی رسائی کا اہتمام کیا جائے تاکہ اس کے عملی اثرات عام لوگوں پر مرتب ہوسکیں۔