”آپ نے اینٹی بائیوٹک لکھی ڈاکٹر صاحب؟“
”جی نہیں، میرا خیال ہے ضرورت نہیں۔“
”مگر اس کے بغیر تو یہ کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوتا۔ جب نزلہ، زکام ہوتا ہے، ڈاکٹر ہمیشہ اینٹی بائیوٹک لکھتے ہیں۔“
وہ مجھے نام گنوانے لگے، پھر کہا ”آپ چاہ رہے ہیں میں دوبارہ آؤں؟“
”بالکل بھی نہیں، میرے خیال میں وائرل انفیکشن ہے، چند دنوں میں ٹھیک ہوجائے گا۔“
اس طرح کے مکالمے روز کئی مرتبہ کلینک میں، ایمرجنسی روم میں، خاندان کی کسی پارٹی میں سننے کو ملتے ہیں۔
یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اینٹی بائیوٹک ہوتی کیا ہے؟ کیسے کام کرتی ہے؟ کہاں ضرورت ہے؟ کہاں بلاجواز استعمال سے نقصان ہوگا۔
بیماری کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، جن میں سے دو مشہور وجوہات بچوں میں وائرس اور بیکٹیریا ہیں۔ اور بچوں میں خاص طور پر وائرس سے ہونے والی بیماریوں کا تناسب بیکٹیریا کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
اب اگر بچہ بیمار ہے اور اُس کا ڈاکٹر سمجھتا ہے کہ یہ انفیکشن بیکٹیریا کی وجہ سے ہے تو وہ آپ کے بچے کو اس انفیکشن کی مناسبت سے کوئی اینٹی بائیوٹک تجویز کرے گا، اور اس میں بعض اوقات لیبارٹری کے ٹیسٹ سے بھی مدد لے گا۔ یہ اینٹی بائیوٹک دوا، سیرپ، گولی، کیپسول یا انجکشن کسی بھی صورت میں دی جاسکتی ہے۔
مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اینٹی بائیوٹک کی ضرورت ہے؟
مثلاً بچے کا گلا خراب ہے اور معائنے سے اندازہ ہوا کہ یہ خرابی بیکٹیریا (Streptococcus) کی وجہ سے ہے جس کی کچھ علامات ڈاکٹر گلے کے معائنے میں دیکھے گا تو اینٹی بائیوٹک لکھ دے گا۔
لیکن اگر بچے کا گلا خراب ہے اور وہ بظاہر وائرس کی وجہ سے خراب لگتا ہے، تو ایسی صورت میں اینٹی بائیوٹک کی ضرورت بالکل بھی نہیں۔
اسی طرح بخار ہے اور ساتھ میں بچے کو ڈائریا ہورہا ہے تو ضروری نہیں کہ بیکٹیریا ہو۔
اکثریت میں تو وائرل انفیکشنز ہوتے ہیں ۔ لیکن اگر ڈاکٹر کو محسوس ہورہا ہے کہ یہ بخار زیادہ طویل ہوگیا ہے، ڈائریا بھی بہت ہے اور علامات کچھ ٹائیفائیڈ (میعادی بخار) کی وجہ سے ہیں یا پیشاب کے انفیکشن کی وجہ سے، تو وہ یقیناً آپ کو اینٹی بائیوٹک تجویز کریں گے، اور ساتھ ہی ساتھ خون/ پیشاب کے ٹیسٹ/ کلچر پر بھی اصرار کریں گے۔
تیز بخار ہے اور مسلسل بخار ہے تو شاید ڈینگی وائرس یا ملیریا ہو، تو یہاں پر اینٹی بائیوٹک ادویہ کا استعمال بالکل بھی نہیں ہونا چاہیے، سوائے اس کے کہ کوئی بچہ ایک ساتھ دو یا تین مختلف بیماریوں یعنی ٹائیفائیڈ اور ڈینگی/ ملیریا میں ایک ساتھ مبتلا ہوجائے، یہ بہت ہی کم کم دیکھنے کو ملتا ہے مگر ایسا ممکن ہے۔
صحیح یا غلط، اب بات کرتے ہیں کہ اگر اینٹی بائیوٹک دے دی گئی ہے اور اس کو صحیح طریقے سے استعمال نہیں کیا گیا تو کیا ہوگا؟
آپ سوچیں کسی بچے کو ٹائیفائیڈ ہوگیا اور وہ بھی بگڑا ہوا ٹائیفائیڈ… ڈاکٹر صاحب بہت تیزی سے تشخیص پر پہنچ گئے اور دوا بھی شروع کروا دی گئی۔ اب والدین نے دیکھا کہ بچہ چند دنوں کے بعد بہتر لگنے لگا، انہوں نے سوچا کہ چلو اب تو کچھ کھانے پینے بھی لگا ہے اور بخار بھی کم آتا ہے اور اتر بھی جلدی جاتا ہے، ڈاکٹر صاحب نے جو دوا لکھی ہے وہ بھی بہت مہنگی ہے، اور ایک ہفتے سے زیادہ استعمال بھی کرلی، کچھ دن پہلے ہی بند کرلیتے ہیں۔ بظاہر تو سب ٹھیک لگ رہا ہے، مگر اس طرح بغیر کورس مکمل کیے بند کرلینے سے بیکٹیریا کو موقع مل جاتا ہے اور کچھ پیچھے ہٹ کر جوں ہی اینٹی بائیوٹک بند ہوتی ہیں، دوبارہ حملہ آور ہوتا ہے۔ اس کو Recurrence(دوبارہ بیماری) کہا جاتا ہے، یعنی مرض مکمل طور پر ختم نہیں ہوا تھا، صرف اینٹی بائیوٹک کی وجہ سے دب گیا تھا، اور بند کرتے ہی دوبارہ زیادہ شدت سے حملہ آور ہوا۔
اس طرح بغیر سوچے سمجھے اینٹی بائیوٹک بند کرنے سے ایک اور مسئلہ بہت زیادہ شدت سے سر اٹھا چکا ہے جس کو دوا کی مزاحمت یا Antibiotics Resistance کہا جاتا ہے۔
آپ نے سنا ہوگا کہ یہ دوا تو اب اِس پر کام ہی نہیں کرتی، دوا تو درست ہوتی ہے مگر جسم میں موجود بیکٹیریا اب اس دوا کی مزاحمت (Resistance) کرنے لگے ہیں۔ انہوں نے آپ کے پچھلی مرتبہ کورس مکمل کیے بغیر دوا بند کردینے کی وجہ سے اپنی ساخت میں تبدیلی کرلی ہے۔ Mutation ہوگئی ہے اس بیکٹیریا میں، اور اب وہ زیادہ خطرناک ہوگیا ہے، جیسے کہ آج کل ٹائیفائیڈ کی مختلف اقسام۔
تو جب ہم کسی بیماری میں سوچ سمجھ کر ڈاکٹر کے مشورے سے اینٹی بائیوٹک شروع کریں تو اس کے کورس کو مکمل طور پر استعمال کریں۔
اس میں ڈاکٹروں کی ذمہ داری زیادہ ہے کہ مریضوں کو یا ان کے تیمارداروں کو اچھی طرح مرض اور اس کے متعلق دوا کے استعمال کا طریقہ اور متعین وقت اچھی طرح سمجھائیں، تاکہ Antibiotics Resistance سے پیدا ہونے والے مسائل سے بچا جاسکے۔
پھر بعض اوقات اینٹی بائیوٹک کے برے اثرات بھی کچھ مریضوں کو برداشت کرنے پڑتے ہیں، مثلاً کچھ ادویہ بچوں کا پیٹ خراب کردیتی ہیں، کچھ سے منہ کا ذائقہ خراب ہو جاتا ہے، کچھ ادویہ سے خون کے ذرات (Platelets) میں کمی واقع ہوجاتی ہے، اور کچھ ادویہ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کام کرتی ہیں۔
کچھ اینٹی بائیوٹک آپ کے جسم میں موجود فائدہ مند بیکٹیریا کو بھی خراب کرتی ہیںجن کو Probiotics کہا جاتا ہے جو دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لیے فائدے کا کام کرتے ہیں۔
کچھ ادویہ شدید الرجی کا باعث بن سکتی ہیں جس میں موت بھی واقع ہوسکتی ہے، یعنی دوا کے استعمال کے بعد سانس کی گھٹن کی وجہ سے۔
اس لیے ڈاکٹر جب بھی اینٹی بائیوٹک لکھیں تو کسی بھی دوا سے الرجک ہونے سے متعلق مریض، اور مریض کے بچہ ہونے کی صورت میں اُس کے ماں باپ میں سے کوئی دوا سے الرجی کا سوال ضرور کرے، خاص طور پر جب آپ اینٹی بائیوٹک انجکشن دے رہے ہیں۔
جیسا کہ ہم پہلے بات کرچکے ہیں کہ اینٹی بائیوٹک ادویہ ہر مرض کا علاج نہیں ہیں، اس لیے ڈاکٹروں سے اینٹی بائیوٹک لکھنے پر اصرار نہ کریں۔
بہت سے بچے عام طور پر وائرل انفیکشنز کا شکار ہوتے ہیں اور عام طور پر ہفتہ، دس دن میں قدرتی نظام کے تحت ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ یعنی اگر بچہ نزلے کا شکار ہے اور اب بہتی ناک پانی کی طرح ہوکر پیلی یا ہری بھی ہوگئی ہے تو کوئی بات نہیں۔
یا بچے کو کھانسی کسی خاص موسم یا وجہ سے ہوتی ہے، تو اس کو ضرورت شاید اینٹی بائیوٹک کی نہیں بلکہ اینٹی الرجی کی ہے۔
بہت سارے امراض اینٹی بائیوٹک ادویہ کے بغیر بھی ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ قدرت کے نظامِ درستی کو کام کرنے دیں اور جلد بازی میں بلاوجہ اینٹی بائیوٹک ادویہ شروع نہ کروائیں، جب تک طبی طور پر یا تشخیصی معائنے سے ثابت نہ ہوجائے۔
جب اینٹی بائیوٹک ادویہ شروع کردی جائیں تو اس کا مجوزہ دورانیہ مکمل کریں، ورنہ اینٹی بائیوٹک ادویہ کی مزاحمت شروع ہوجائے گی اور پھر دوا کام کرنا چھوڑ دے گی، اور وجہ دوا کی خرابی نہیں بلکہ جراثیم/ بیکٹیریا کا اپنی شکل، ہیئت اور انداز کو تبدیل کرلینا ہے۔
چلتے چلتے اہم نکات سمجھ لیں:
ہر بیماری میں اینٹی بائیوٹک کی ضرورت نہیں۔
بچوں میں عام طور پر وائرل انفیکشنز عام ہیں، مثلاً نزلہ، زکام، کھانسی، بخار، ڈائریا۔
اینٹی بائیوٹک صرف ڈاکٹر کے مشورے سے استعمال کریں۔
اینٹی بائیوٹک کے انجکشن خون کے ٹیسٹ کے بعد ہی استعمال کریں۔