جماعت اسلامی کے 80 برس جدوجہد تیز کرنے کا عزم

ملک کی منظم ترین، سو فیصد جمہوری، موروثیت، فرقہ واریت، علاقائیت، لسانیت، جاگیرداری، سرمایہ داری اور ذات برادری غرضیکہ ہر طرح کے تعصبات سے پاک، کرپشن و بدعنوانی کے ناسور سے محفوظ اور خدمت کے میدان میں بے مثال ریکارڈ کی حامل دینی سیاسی تحریک جماعت اسلامی کے قیام کو 80 برس مکمل ہوگئے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی قیادت میں 75 افراد کے جس قافلے نے 26 اگست 1941ء کو لاہور سے جماعت اسلامی کے نام سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا… خلوص، محبت اور خاکساری کا پیکر یہ قافلہ آج دنیا بھر کے ہر خطے، ہر شعبۂ زندگی اور ہر مکتبِ فکر میں اپنی جڑیں پھیلا چکا ہے، اور دورِ جدید کی سب سے بڑی، مؤثر اور متحرک جماعت کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔
جماعت اسلامی کے قیام کے 80 برس کی تکمیل پر جماعت اسلامی لاہور نے منصورہ آڈیٹوریم میں ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا، جس سے جماعت کے مرکزی امیر سراج الحق، عدالتِ عالیہ لاہور کے سابق جج جسٹس اعجاز احمد چودھری، نامور ٹی وی میزبان، بزرگ کالم نویس سجاد میر، لاہور جماعت کے امیر ذکر اللہ مجاہد اور دیگر رہنمائوں نے خطاب کیا۔
محترم سراج الحق نے اپنے خطاب میں کہا کہ جماعت اسلامی اس دور میں اس لحاظ سے ایک منفرد جماعت ہے کہ اسے بنایا تو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے، مگر انہوں نے اپنے کارکنوں کو اپنی ذات، اپنی اولاد، اپنے خاندان، اپنی خانقاہ یا اپنی گدی کے ساتھ منسلک نہیں کیا، بلکہ جو شخص بھی جماعت میں شامل ہوتا ہے وہ رکنیت کا ایک فارم پُر کرتا ہے، اس فارم میں کہیں یہ بات نہیں ہے کہ میں سید مودودیؒ کا وفادار رہوں گا، بلکہ اس میں وہ اس بات کا عہد کرتا ہے کہ میں ہر معاملے میں دیکھوں گا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کیا ہے۔ پھر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جماعت اسلامی کو جو دستور دیا ہے اُس میں پہلی بات یہی ہے کہ ہم مخلوقِ خدا کو خالق کی طرف بلائیں گے… اپنے پیر کی طرف، مولوی صاحب یا پارٹی لیڈر کی طرف نہیں بلائیں گے۔ یہ ایک منفرد اعزاز ہے جو جماعت اسلامی کو حاصل ہے۔ کوئی دوسری جماعت اس اعزاز کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔
عدالتِ عالیہ لاہور کے سابق جج جسٹس اعجاز احمد چودھری نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی ملک کی وہ واحد جماعت ہے جس نے سیرت کی اسلامی بنیادوں پر تعمیر کے ذریعے باکردار لوگ معاشرے کو دیئے۔ اس کی قیادت بھی باکردار لوگوں کے ہاتھ میں رہی اور اس میں شامل لوگ بھی اعلیٰ کردار کا نمونہ پیش کرتے رہے۔ جماعت مفادات کی سیاست سے ہمیشہ دور رہی، اور اسلام کے نظام کو غالب کرنے کے لیے تندہی سے جدوجہد جاری رکھی۔ میری دعا ہے کہ ملک میں اسلامی انقلاب کے لیے اس کی جدوجہد کامیاب و کامران ہو۔
ممتاز کالم نگار اور ٹی وی میزبان و تجزیہ کار جناب سجاد میر نے اپنی تقریر میں جماعت کے کارکنوں کو یاد دلایا کہ آپ تحریکِ اسلامی کے علَم بردار اور اس سوچ کے علَم بردار ہیں کہ دین اور سیاست کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا، بلکہ مسلمانوں کی سیاست ان کے دین کے تابع ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیصلے اس طرح نہیں ہوتے کہ انتخابات میں کس نے کتنی نشستیں حاصل کی ہیں، بلکہ فیصلے اس بنیاد پر ہوتے ہیں کہ کس نے معاشرے کو کتنا متاثر کیا ہے اور اسے کس حد تک اپنی سو چ کے مطابق ڈھالا ہے۔ آج انتخابات کے ذریعے جو لوگ اقتدار تک پہنچتے ہیں وہ بھی ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں، دوسرے لوگ بھی اسلام کی بات کرنے پر مجبور ہیں۔ آپ ترکی کا ماڈل دیکھیں، وہاں کی جماعت اسلامی اگرچہ براہِ راست اقتدار میں نہیں آئی، مگر وہاں جو لوگ آج اقتدار میں آئے ہیں وہ بہرحال اسلام کے نام لیوا ہیں۔ یہ وہاں کی جماعت اسلامی کے اُن لوگوں کی جدوجہد کا صدقہ ہے جنہوں نے وہاں بیٹھ کر اس شمع کو روشن کیا جو دین کی روشنی میں سیاست کرنے کا سبق دیتی ہے۔
جماعت اسلامی لاہور کے امیر ذکر اللہ مجاہد نے کہا کہ پاکستان میں اقتدار میں رہنے والوں کی فہرست پر نظر دوڑائیں تو ان کے خلاف کرپشن و بدعنوانی کے الزامات کی ایک طویل فہرست سامنے آتی ہے، اور لوٹ مار کی نہ ختم ہونے والی داستانیں سننے کو ملتی ہیں۔ مگر جماعت اسلامی کو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ فخر حاصل ہے کہ اس کے بہت سے لوگ اقتدار میں رہے، خود موجودہ امیر جماعت سراج الحق بھی دو دفعہ سینئر صوبائی وزیر رہے، وہ سینیٹر بھی رہے، مگر کوئی مائی کا لعل ہمارے امیر اور دیگر رہنمائوں میں سے کسی ایک کے خلاف کرپشن کا کوئی چھوٹا سا داغ بھی کسی کے دامن پر نہیں دکھا سکتا، ہمارے امیر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے ان کے کردار کو بدعنوانی اور کرپشن سے پاک ایک مثال کے طور پر تسلیم بھی کیا اور اس کا برملا اعتراف بھی کیا۔ جماعت آج جب اپنے قیام کے 80 برس مکمل کرچکی ہے، اس موقع پر ہم اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم اس جدوجہد کو پورے عزم و حوصلے کے ساتھ جاری رکھیں گے۔