تحریک انصاف کی حکومت پارلیمنٹ کی آئینی مدت میں تین سال گزار چکی ہے، باقی دو سال رہ گئے ہیں۔ حکومت تین سال مکمل ہونے پر خوشی منارہی ہے۔ عوام کا ایک بڑا طبقہ یہ رائے رکھتا ہے کہ ایک ایسی حکومت کے لیے جس نے اپنے پہلے سو دنوں کے لیے ایک مکمل پیکیج دیا ہو… پہلے 90 روز میں ملک سے کرپشن ختم کردینے، پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر، ایک کروڑ نوکریاں دینے، پہلے سو دنوں میں جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانے جیسے عہد کیے ہوں، اور ان میں سے کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہ کرسکی ہو اور ہر محاذ پر ناکام ہوئی ہے، اسے خوشی منانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ بلاشبہ معیشت، امورِ خارجہ، داخلی سلامتی اور تجارتی توازن قائم رکھنا کسی بھی کامیاب وفاقی حکومت کی نشانی ہوتے ہیں، مگر ان تین سالوں میں جس طرح ملک میں لاقانونیت، مہنگائی اور بے روزگاری بڑھی ہے اس نے عدم تحفظ کا احساس بڑھا دیا ہے، ملک کے سفید پوش طبقے کی قبا ادھیڑ کر رکھ دی ہے، ہر جانب دھیمی دھیمی وحشت پھیلی ہوئی ہے، معاشرے کا ہر طبقہ اس انتظار میں ہے کہ کب بہار آئے گی؟ جس طرح مفاہمت کی جانب قدم بڑھ رہے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی مخالف سیاسی دھڑوں کی جانب اٹھنے والی تلواروں کے منہ پھر گئے ہیں اور اب دل دھڑکنے کی صدا آرہی ہے۔ تحریک انصاف کے اقتدار کے لیے جن کی پوشاک پھاڑی گئی تھی اب پگڑی ان کے سر پر رکھے جانے کی اطلاعات ہیں۔ اب کہا جارہا ہے کہ آئندہ انتخابات میں سب کو موقع دیا جائے گا، کسی کو بھی دیوار کے ساتھ نہیں لگایا جائے گا۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ… اسے رویوں میں تبدیلی کہہ لیں یا مجبوریاں… کچھ بھی نام دیں، مستقبل میں ملک کے سیاسی نظام میں وہی ہوگا جو گلگت اور آزاد کشمیر کے انتخابات میں ہوا۔ جس طرح گم نام لوگوں کو یہاں پچھلی صفوں سے اٹھاکر اگلی صف میں بٹھایا گیا ہے بالکل یہی نظام آئندہ انتخابات کے بعد لائے جانے کا امکان ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے تین سالوں کی کارگزاری کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے اور سیاسی تجزیے کے لیے بنیادی نکتہ یہی لکھا جاسکتا ہے کہ جس طرح قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ کا زوال شروع ہوگیا تھا، بالکل اسی طرح تحریک انصاف کا گراف بھی اقتدار پالینے کے بعد گرنا شروع ہوگی ہے۔ اس کے تین سالوں میں آرڈیننس کی فیکٹری رواں رہی ہے۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی، امورِ خارجہ اور معیشت جیسے شعبوں کی کمر کے مہرے ہل چکے ہیں۔ حکومت نے تین سال کی کارکردگی سامنے رکھی ہے، اور تین سالہ جائزہ رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ کشمیر کا معاملہ ساری دنیا کے سامنے رکھا گیا اور بھارت کی انتہاپسند ہندوتوا سوچ پر سے پردہ اٹھایا گیا اور کرتار پور راہداری کا افتتاح کیا گیا۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان نے اسلامی ممالک کے درمیان پُل کا کردار ادا کیا ہے۔ ان دعووں پر کچھ نہیں کہہ سکتے البتہ ایک سوال اٹھاتے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف کا معاملہ حل ہوگیا؟ کشمیر بھارت کے آئین میں ترمیم کے بعد کہاں کھڑا ہے؟ آزاد کشمیر کے انتخابات میں تحریک انصاف آرٹیکل 370 اور35/A پر خاموش رہی۔ اگلے سال مقبوضہ کشمیر میں انتخابات ہونے جارہے ہیں، دیکھتے ہیں وہاں کیا نتیجہ آئے گا! خارجہ پالیسی کے حقائق یہ ہیں کہ کشمیر پر پاکستان کی پالیسی ناکام رہی ہے۔ او آئی سی کا کوئی اجلاس بلوا سکے اور نہ ہیومن رائٹس کمیشن میں کشمیر کے معاملے پر بحث کرا سکے ہیں، جس کا واضح مطلب ہے کہ ہمیں کشمیر کے سلسلے میں بین الاقوامی برادری کا تعاون حاصل نہیں رہا۔ تین برسوں میں افغانستان پاکستان کے لیے چیلنج تھا اور ہے۔ مغربی ممالک سے ہمیں مطلوبہ حمایت نہیں مل سکی۔ امریکہ اور ناٹو ممالک تو یہی چاہیں گے کہ افغانستان میں امن نہ ہو۔ کوشش یہی ہونی چاہیے کہ طالبان حکومت کو تسلیم کروانے میں کردار ادا کریں۔ امریکہ کے حوالے سے بات کی جائے تو سابق امریکی صدر ٹرمپ کی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں، لیکن نئی امریکی قیادت نے بات چیت کی کھڑکی نہیں کھولی۔ یہ پاکستان کی سفارتی کمزوری ہے کہ امریکی وزیر خارجہ جنوبی ایشیا کے دورے پر آئے لیکن پاکستان کا دورہ نہیں کیا۔ سفارتی امور کے ماہرین کی رائے ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے مغربی ممالک کے ساتھ غیر ضروری بحثیں چھیڑ لی ہیں اور تین سالوں میں اسی لیے وزیراعظم کا کسی یورپی ملک کا دورہ نہیں ہوسکا۔ حال ہی میں برطانیہ کا دورہ متوقع تھا لیکن وہ بھی اب التوا کا شکار ہوگیا ہے۔ جب عمران خان سے متعلق سوچا جارہا تھا تو یہ بھی ان کی خوبی شمار کی گئی تھی کہ انہیں مغربی دنیا میں مقبولیت حاصل ہے، مگر بے شمار معاملات میں سربراہِ حکومت کا بلا ضرورت تبصرہ سفارتی محاذ پر مشکلات کا باعث بنا۔ جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے حوالے سے بات کی جائے تو یہ پاکستان کی سفارتی ناکامی ہی ہے کہ یہ اسٹیٹس پاکستان سے واپس لیے جانے کی بات کی جارہی ہے۔ معاشی طور پر بھی حکومت خود کو بہتر منتظم ثابت نہیں کرسکی۔ معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر محمد زبیر کے خیال میں اس وقت پاکستان کی معیشت کمزور ہورہی ہے، جس کی بڑی وجہ بجٹ کا خسارہ ہے، جو اس سال 10 فیصد ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی آمدن کم اور اخراجات بہت زیادہ ہیں، اور ان خرچوں کو پورا کرنے کے لیے بینکوں سے قرضے لیے جا رہے ہیں۔ یہ سب معیشت کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
تین سالہ کارکردگی بیان کرنے کی تقریب میں وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں عام آدمی کی زندگی میں بہتری آئی ہے۔ اور اس سلسلے میں انہوں نے ملک میں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی بڑھتی ہوئی فروخت کو ثبوت کے طور پر بیان کیا۔ ماہرینِ اقتصادیات کے مطابق شہریوں کی زندگی میں آسانیوں یا مشکلات کا اندازہ روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ سے لگایا جانا چاہیے، نہ کہ موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کے کاروبار سے۔ سب جانتے ہیں کہ چینی، آٹے اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے عام شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت غیر ملکی ذخائر کو 16 ارب ڈالر کی کم ترین سطح سے بڑھا کر 27 ارب ڈالر تک لے جانے کا دعویٰ کرتی ہے تاہم وفاقی حکومت بیرونِ ملک سے حاصل کیے گئے قرضوں کی رقوم کو بھی غیر ملکی ذخائر کے حصے کے طور پر دکھا رہی ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین اور آئی ایم ایف سے حاصل ہونے والے 22 سے 23 ارب ڈالر کو بھی غیر ملکی ذخائر کا حصہ بنادیا گیا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے تازہ ماہانہ معاشی جائزے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ متوازن معاشی ترقی شروع ہوگئی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر ملک کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں جو 27ارب 30کروڑ ڈالر تک جا پہنچے ہیں، مالی خسارہ ایک سال پہلے کے 8.1 فیصدکی نسبت اِس سال جولائی میں 7.1فیصد رہا۔ ان مثبت اشاریوں کے مقابلے میں منفی اشاریے بھی انتہائی لائقِ توجہ ہیں، جس کرنٹ اکائونٹ خسارے کے ختم ہوجانے کو تاریخی کامیابی قرار دیا جارہا تھا، وہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے ماہ میں جاری کھاتے کا خسارہ جوگزشتہ سال اسی ماہ منفی 0.6فیصد تھا جس کی بنا پر 58کروڑ 30لاکھ ڈالرکی بچت ہوئی تھی، جولائی میں 2.8فیصد تک جا پہنچا، اور یہ 80کروڑ ڈالر ہے۔ ترسیلاتِ زر میں گزشتہ برس جولائی کے مقابلے میں 2.1 فیصد کمی ہوئی ہے، اور براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں30.1فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اسی طرح نان ٹیکس ریونیو میں12.3فیصد کمی ہوئی ہے، جس کا مطلب کاروباری مندی ہے۔ قومی معیشت کے یہ منفی پہلو بہتر بنائے جانے کے متقاضی ہیں۔ اس کے بغیرمعاشی ترقی ممکن ہی نہیں۔
ملکوں کی معیشت کے حوالے سے اس وقت سب سے اہم تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ دنیا میں معاشی ترقی کے مراکز بدل رہے ہیں، طاقت مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہورہی ہے، جس کی سب سے بڑی دلیل چین کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ ہے۔ یہ واحد منصوبہ ہے جو دنیا کے 60 سے زیادہ ممالک کو تجارت کے لیے ایک نیا راستہ فراہم کررہا ہے، جس کے تحت بحیرہ بالٹک اور بحر اوقیانوس کو سڑکوں، ریلوے لائنوں اور سمندری راستوں کے ذریعے ایک دوسرے سے ملایا جائے گا، آزادانہ تجارت کے مواقع ملیں گے۔ اس کی لاگت تقریباً 21.1 ٹریلین ڈالرز (21 کھرب 10 ارب ڈالر) ہوگی اور ایک اندازے کے مطابق یہ منصوبہ دنیا کی 80 فیصد آبادی کو مستفید کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چین نے اسے دو حصوں میں منقسم کر رکھا ہے۔ ایک ’سلک روڈ اکنامک بیلٹ‘ ہے، اور دوسرے کا نام ’میری ٹائم سلک روڈ‘ رکھا گیا ہے۔ اِس منصوبے میں چھ راہداریاں شامل ہیں۔ پہلی راہداری کا نام ’چائنا منگولیا رشیا اکنامک کوریڈور‘ ہے۔ دوسرے کو ’نیو یوریشین لینڈ برج‘ کہتے ہیں۔ تیسرے کو ’چائنا سینٹرل اینڈ ویسٹ ایشیا اکنامک کوریڈور‘ کا نام دیا گیا ہے۔ چوتھا ’چائنا، پیننسولا اکنامک کوریڈور‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پانچواں منصوبہ ’چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور‘ سی پیک ہے۔ اور چھٹے کو ’بنگلہ دیش چائنا انڈیا، میانمار اکنامک کوریڈور‘ کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن چین کے لیے ان منصوبوں میں سب سے اہم راہداری چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) ہے جس کے ذریعے چین کی گوادر بندرگاہ تک رسائی آسان ہوسکے گی اور پوری دنیا میں کم وقت اور کم خرچ کے ساتھ تجارت ممکن ہوگی۔ اس محاذ پر تحریک انصاف کیا بہتری لاسکی ہے اور منصوبے پر کام کی رفتار کیا ہے، اس بارے میں سچ بولیں تو آگ لگ جاتی ہے۔ تجزیہ کاروں کو امید ہے کہ حکمران اگلے دو سال میں پچھلی غلطیوں سے سیکھیں گے۔
اگر ملک کی داخلی صورت حال پر بات کی جائے تو سب سے پہلے مرکز اور صوبوں کے تعلقات کی نوعیت دیکھنا ہوگی۔ ایک سال قبل وزیراعظم عمران خان نے کراچی کو درپیش مسائل کے حل کے لیے 1113ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا، جس میں وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں کو اپنے اپنے حصے کا کام کرنا تھا۔ 1113 ارب روپے کے پیکیج کے تحت پانی کی فراہمی کے لیے 92 ارب، سیوریج کے لیے 141 ارب، سالڈویسٹ مینجمنٹ، نالوں کی صفائی اور آبادکاری کے لیے 267 ارب، سڑکوں کے لیے 41 ارب، اور ٹرانسپورٹ منصوبوں کے لیے 572 ارب (جس میں ماس ٹرانزٹ، ریل اور روڈ شامل ہیں) رکھے گئے تھے۔ تحریک انصاف نے ضلعی حکومتوں کے بجٹ لے کر اپنے اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی کو دیے ہیں، اپوزیشن ارکان کو ایک پیسہ بھی نہیں دیا گیا۔ کراچی پیکیج مستقبل میں ہونے والے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے لیے بہت بڑا امتحان ثابت ہوگا۔ جب پیکیج کا اعلان کیاگیا تھا اُس وقت وزیراعظم کی سربراہی میں کراچی کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی وزراء اسد عمر، شبلی فراز، علی زیدی، امین الحق، گورنر سندھ عمران اسماعیل، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ شریک ہوئے تھے۔ یہ سب کردار ابھی تک مرکزی اور صوبائی حکومت کا حصہ ہیں مگر ذمہ داری نہیں لے رہے۔ وزیراعظم عمران خان نے 1100 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا کہ اس سے کراچی کی سڑکوں، ٹرانسپورٹ اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے مسائل حل کیے جائیں گے، سرکلر ریلوے کا منصوبہ مکمل کیا جائے گا، نالوں کی صفائی اور بے گھر افراد کی بحالی کی جائے گی۔ ایک سال گزر گیا کراچی کا مسئلہ وہیں کا وہیں ہے۔ منصوبہ یہ تھا کہ جو فیصلے کیے گئے تھے ان میں ایک سال کے عرصے میں پہلا مرحلہ مکمل کرلیا جائے گا، مگر پہلے سال میں جو کام ہونا تھا اس کا پانچ فی صد بھی مکمل نہیں ہوا۔ پی سی آئی سی سے جو فیصلے ہوئے تھے یہ فیصلے عمل درآمد کے منتظر ہیں۔
ملکی معیشت کا عالم یہ ہے کہ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے تین سال کے دوران 27 ارب ڈالر کے نئے قرضے لیے ہیں، جبکہ 39 ارب ڈالر سے زائد کا قرض و سود ادا کیا۔ غیر ملکی قرضوں کا حجم تاریخ کی بلند ترین سطح 122 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ اسٹیٹ بینک کے اعدادو شمار کے مطابق ایک سال کے دوران 9 ارب ڈالر کا غیرملکی قرض لیا گیا جبکہ 13 ارب 42 کروڑ ڈالر قرض و سود کی ادائیگی پر خرچ ہوئے۔ ملک کی موجودہ اقتصادی صورت حال جس کیفیت سے دوچار ہے اگرچہ حکومت اسے سنبھلتا ہوا قرار دے رہی ہے، لیکن برآمدات میں کمی اور درآمدات میں ہونے والے اضافے کو دیکھتے ہوئے پریشانی بڑھ رہی ہے۔ وزارت خزانہ نے خبردار کیا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں خوردنی اجناس کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے اثرات معیشت کے لیے خطرناک ہیں۔ کورونا کی وبا کے پیش نظر لاک ڈائون کی پالیسیوں کا نجی شعبے پر اثر پڑ سکتا ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے ممکنہ خطرات پر قابو پانے کے لیے پالیسیاں وضع کرنے اور ان پر عمل درآمد کی ہدایت کی ہے، مگر مسلسل مہنگائی ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ اس وقت ترسیلاتِ زر یا آئی ایم ایف سے گزشتہ ہفتے ملنے والے 2.27 ملین ڈالر کے فنڈ زرمبادلہ کے ذخائر کو سنبھالے ہوئے ہیں جسے بیرونی قرضوں کے 43 ہزار ارب روپے کے بوجھ تلے دبی معیشت کے لیے پائیدار نہیں کہا جا سکتا۔ معیشت دانوں کی رائے ہے کہ خطرات سے نمٹنے کے لیے بہتر ہوگا کہ درآمدی بل میں حتی الوسع کمی لاتے ہوئے برآمدات زیادہ سے زیادہ بڑھائی جائیں۔ تین برسوں میں مہنگائی کی شرح بڑھ کر 8.9 فیصد پر آچکی ہے، اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں 6 روپے سے 538 روپے تک اضافہ ہوچکا ہے۔ معاشی ترقی کی رفتار 5.5 فیصد سے گر کر 1.5 فیصد ہوچکی ہے۔ مجموعی قرضہ بڑھ کر 45 ہزار 470 ارب ہوچکا ہے، گردشی قرضے 1180 ارب سے بڑھ کر 2370 ارب روپے ہوچکے ہیں، جبکہ افراط زر کی شرح 4.68 فیصد سے بڑھ کر 8.4 فیصد پر آچکی ہے۔ بجلی 5 روپے 80 پیسے فی یونٹ اور گیس 334 فیصد مہنگی ہوچکی ہے۔ اب پھر گیس 14 فیصد مزید مہنگی کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ آپ سارے لوگوں کو کچھ وقت کے لیے اور کچھ لوگوں کو تمام وقت کے لیے بے وقوف بنا سکتے ہیں، لیکن تمام لوگوں کو ہر وقت بے وقوف نہیں بناسکتے۔ ہر راز کو آخر فاش ہونا ہی ہوتا ہے۔ ’’دو نہیں ایک پاکستان‘‘ کا نعرہ سیاسی تھا یا جذباتی، حقیقت عوام کے سامنے آچکی ہے۔ کل بھی غریب اور امیر کا پاکستان الگ الگ تھا، آج بھی طاقتور اور کمزور کا پاکستان الگ الگ ہے۔ کوئی تبدیلی آئی نہ نیا پاکستان بنا۔