حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کو پانچواں خلیفہ راشد کہا جاتا ہے جو کئی دہائیوں کی ملوکیت کے بعد مسلمانوں کو نصیب ہوئے۔ خلیفہ بننے سے قبل ان کی زندگی شہزادوں سے بڑھ کر تھی۔ اعلیٰ سے اعلیٰ تر لباس پہنتے اور قیمتی سے قیمتی خوشبو استعمال کرتے، مگر خلیفہ بنتے ہی ان کی زندگی میں وہ تبدیلی آئی کہ تاریخ انہیں عمر ثانی لکھنے پر مجبور ہوگئی۔ ان کی دیانت کی اَن گنت مثالیں تاریخ کے صفحات پر رقم ہیں۔ ایک رات کا واقعہ ہے کہ آپ چراغ کی روشنی میں سرکاری کام کررہے تھے کہ اتنے میں ایک ملازم آگیا اور باتیں کرنے لگا۔ یہ باتیں گھریلو امور سے متعلق تھیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے ملازم سے فرمایا: ’’پہلے چراغ بجھا دو، پھر جس قدر چاہو باتیں کرو۔ چراغ کا تیل بیت المال سے آیا ہے، اس کا استعمال صرف سرکاری کام کے لیے جائز ہے، گھریلو باتوں کے لیے نہیں‘‘۔ یہ ایک بنیاد پرست اور انتہا پسند حکمران کی نہ صرف سوچ تھی بلکہ عمل بھی تھا، مگر آج روشن خیال ترقی پسند حکمرانوں کے دور میں سرکاری وسائل کا ذاتی استعمال کس قدر ہوتا ہے، یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔
(ماہنامہ چشم بیدار، فروری 2021ء)