کتاب
:
حجاج بن یوسف
تاریخ و حقائق
تالیف
:
ڈاکٹر محمود زیادۃ
مترجم
:
حافظ قمر حسن
نظرثانی و حواشی
:
محمد فہد حارث
صفحات
:
536 قیمت: درج نہیں
ناشر
:
حارث پبلی کیشنز، کراچی
رابطہ
:
03009216491
برقی پتا
:
haris.publications@gmail.com
دورِ بنو امیہ و بنو عباس میں عربی ادب میں شاید ہی کسی شخصیت کو اتنی اہمیت دی گئی ہو جتنی حجاج بن یوسف بن الحکم الثقفی (41ھ/661ء۔ 95ھ/714ء) کو دی گئی۔ ایسے قصے اور اشعار، جن میں اس کے حق میں اور خلاف دلائل دیے گئے، بے شمار ہیں۔ حجاج بن یوسف کا شمار بنوامیہ کے سب سے مشہور اور لائق ترین گورنروں میں ہوتا ہے۔ جس دور میں زمامِ امارت حجاج کے ہاتھ آئی، وہ اسلامی تاریخ کا ایک نازک دور تھا۔ ہر سو بغاوتوں اور انقلابوں کا دور دورہ تھا۔ لیکن حجاج کی اطاعت شعاری اور جذبہ خدمت گزاری کی بھی کوئی انتہا نہ تھی۔ اس کے نزدیک ریاست کے خلاف کسی بھی قسم کی حکم عدولی ایک جرم تھی۔ اس نے باغیوں کے خلاف اپنی تمام تر توانائیاں صرف کیں۔ خارجیوں کی مسلسل سازشوں کے باعث عراق کی گورنری اسلامی ریاست کا سب سے اہم اور ذمے دار انتظامی عہدہ تھا۔ حجاج نے 33 برس کی عمر میں یہ عہدہ سنبھالا اور 20 برس (75ھ تا 95ھ) عراق پر حکومت کی۔
حجاج خالص عربی زبان کو بہت اہمیت دیتا تھا، ادبی ذوق رکھتا تھا اور شعراء کی سرپرستی کرتا تھا۔ لیکن ساتھ ہی ہجو گو شعراء کو سزا بھی دیتا تھا۔ حجاج کی خطابت کا بھی کوئی جواب نہ تھا۔ وہ بڑی فصاحت و بلاغت سے بات کہنے کا ہنر جانتا تھا۔ وہ جب دھمکی سے بھرپور خطاب کرتا تو اس کے الفاظ توپ کے گولے بن کر برستے۔ حجاج کی شخصیت سے متعلق ظلم و شقاوت کی مبالغہ آمیز کہانیاں زبان زدِ عام ہونے کی ایک وجہ اس کے وہ تنبیہی اور سرزنشی خطابات بھی ہیں جو اس نے عوام کے سامنے انھیں بغاوتوں سے باز رکھنے کے لیے دھمکی اور وعید کے طور پر کیے تھے۔ ان خطابات نے لوگوں کے سامنے حجاج کی شخصیت کو ایک نہایت سخت اور ظالم منتظم کے طور پر پیش کیا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے تنقید برداشت نہیں ہوتی تھی چاہے وہ کیسی ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ وہ تنقید کرنے والے شخص کو سزا دینے کے درپے رہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کی کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جس میں حجاج کی قساوتِ قلبی کا اشارہ نہ ملتا ہو۔
لیکن یہ بھی امرِواقع ہے کہ اپنے زمانہ امارت میں حجاج نے نہ صرف بغاوتوں کو فرو کیا بلکہ متعدد تعمیراتی منصوبوں کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچایا، اور انتظامی و سیاسی اصلاحات کیں۔ قرآن کریم پر اعراب لگوائے۔ ایک نیا شہر ”واسط“ تعمیر کرایا۔ سکّے ڈھالنے کے لیے ٹکسال بنوائی۔ دورِ جدید سے سیکڑوں سال پہلے اس نے یہ نظام نافذ کیا تھا کہ شہری علاقوں میں رات کو کس وقت تک چہل پہل جاری رہ سکتی ہے۔ وہ تاریخ کا پہلا حکمران تھا جس نے گلیوں، بازاروں میں گند ڈالنے اور شہری آداب کی خلاف ورزی پر قید کی سزا مقرر کی تھی۔ اسی طرح اس نے آوارہ کتوں کے خاتمے کا منصوبہ متعارف کرایا تھا تاکہ وہ شہریوں کو ایذا نہ دیں اور امراض کے پھیلائو کا باعث نہ بنیں۔ ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لیے پروانہ راہداری (Passport) کا نظام بنایا۔ علاوہ ازیں زراعت کو ترقی دینے کے سلسلے میں حجاج کی کوششیں خصوصی اہمیت کی حامل تھیں۔ اموی حکومت کی مشرق میں کابل تک اور شمال میں چینی ترکستان تک پھیلی ہوئی شاندار فتوحات بھی حجاج ہی کی مساعی کی مرہونِ منت تھیں۔ قتیبہ بن مسلم، مجاعہ بن سعر، اور محمد بن قاسم… ان تینوں ممتاز سپہ سالاروں سے حجاج نے بڑی دانش مندی سے ان کی صلاحیتوں اور لیاقت کے مطابق کام لیا تھا۔
پیش نظر کتاب ”حجاج بن یوسف۔ تاریخ و حقائق“ ڈاکٹر محمود زیادۃ کے عربی مقالے ”الحجاج بن یوسف الثقفی۔ المفتری علیہ“ کا اردو ترجمہ ہے، جس پر انھیں جامعہ ازہر کے کلیۃ اللغۃ العربیۃ نے 1946ء میں ڈاکٹریٹ کی سند عطا کی تھی۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ محمد فہد حارث نے کیا، اور انھی کی کوششوں سے پہلی بار اشاعت پذیر ہوا ہے۔ نظرثانی و توضیحی حواشی کا فریضہ بھی انھوں نے سرانجام دیا ہے، اور بعض مقامات پر فاضل مولف کے خیالات و نتائج سے بجا طور پر اختلافِ رائے کا اظہار بھی کیا ہے۔ جب کہ کتاب کے فاضل مترجم حافظ قمر حسن نے مذکورہ کتاب کا ترجمہ اس خوبی سے کیا ہے کہ یہ اردو زبان ہی میں لکھی ہوئی ایک مستقل تصنیف معلوم ہوتی ہے۔
پیش نظر کتاب درجِ ذیل پانچ ابواب اور ذیلی فصلوں پر مشتمل ہے: 1۔ حجاج بن یوسف اور اس کے والدین.. حجاج کی ولادت، پرورش اور تعلیم و تربیت، خلفاء اور حکومتی عہدیداران سے وابستگی، حجاج اور ابن زبیر۔ 2۔ حجاج والی کی حیثیت سے.. ولایتِ حجاز، حجاج اور ولایتِ عراق، امیر حجاج بن یوسف کی معاشرتی اصلاحات، اموی خلفاء و امراء سے حجاج کے تعلقات۔ 3۔ عہد حجاج کی بغاوتی تحریکیں.. ابنِ جارود کی بغاوت، تحریکِ ازارقہ (خوارج)، خوارج صفریہ (صالحیہ و شبیبیہ) کی بغاوت، مطرف بن مغیرہ کی بغاوت، حروبِ خوارج کے بعد حجاج کے اثرو نفوذ میں اضافہ۔ 4۔ عہدِ حجاج کی فتوحات.. خراسان میں آل مہلب اور اس کی فتوحات، قتیبہ بن مسلم خراسان میں (فتوحات اور انجام)، محمد بن قاسم سندھ میں (فتوحات اور انجام)۔ 5۔ امیر حجاج کی نجی زندگی.. حجاج کا ادبی ذوق، حجاج کا شعری ذوق، حجاج بحیثیتِ خطیب و لکھاری، حجاج کے اخلاق و اوصاف اور دین داری، حجاج کا خاندان (بنو امیہ سے رشتے داری، اولاد کی تعلیم و تربیت، بیماری، وفات)۔ علاوہ ازیں درجِ ذیل دو ضمیمے بھی شامل ہیں: 1۔ اہم واقعات مع ہجری و عیسوی تواریخ، 2۔ حروب خوارج میں مذکور اہم مقامات، عہد حجاج میں فتح ہونے والے اہم مقامات۔
فاضل مولف و محقق نے حجاج بن یوسف کے سوانح حیات اور عمل و کردار کو موضوع بنا کر یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ وہ محض ایک میفل کردار نہیں تھا بلکہ وہ اس کے برعکس بہت سے مثبت رویوں کا حامل ایک صاحب ِکردار وزیر مملکت تھا۔ ڈاکٹر زیادۃ کا یہ مقالہ صرف حجاج بن یوسف ہی نہیں بلکہ اُس دور کی سیاسی تاریخ پر بھی شافی معلومات فراہم کرتا ہے۔ تاریخ کی عام کتابوں کے برعکس اس مقالے میں حجاج کو مجسم شیطان ثابت نہیں کیا گیا بلکہ ایک عام انسان اور حکومت کے ایک اہم فرد کی حیثیت سے اس کی خامیوں کے ساتھ ساتھ خوبیوں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ یوں بدرجہ غایت فصیح و بلیغ عربی میں تحریر کردہ ڈاکٹر محمود زیادۃ (باقی صفحہ 41پر)
کا یہ مقالہ تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتا ہے۔ فاضل مولف نے حجاج کے دور میں پیش آنے والے واقعات کا بھرپور تجزیہ کیا ہے اور محض روایتوں کی جمع آوری پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کا درایتاً بھی بھرپور جائزہ لیا ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ منصفانہ طرزِعمل یہ ہے کہ جس طرح کسی آدمی کی غلطیاں بیان کی جائیں اسی طرح اس کی اچھائیاں اور اس کے صحیح فیصلے بھی بیان کیے جائیں۔ڈاکٹر زیادۃ نے حتی المقدور تاریخ اسلامی کے بنیادی مصادر و ماخذ سے استفادہ کیا ہے لیکن چند مقامات پر حجاج کے اقدامات کی بے جا حمایت میں ایسے مصادر سے بھی استناد کیا ہے جو محققین کے نزدیک پایہ استناد کو نہیں پہنچتے۔ لیکن اس کے باوجود یہ کتاب نہ صرف حجاج بن یوسف کی زندگی کے ہر پہلو کو جامع ہے بلکہ عہدِ اموی کی سیاست و رجحانات کو سمجھنے کے لیے بھی بہت اہم اور لائقِ مطالعہ ہے۔ تاریخ و سیاست میں، بالخصوص اسلامی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کو ضرور اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔