ضیا شاہد , کارکن صحافی سے اخباری چین کے مالک تک

اَن گنت انسانی خوبیوں، کچھ بشری کمزوریوں، بے اندازہ صلاحیتوں، کچھ ارادی یا غیر ارادی کوتاہیوں، بے شمار پیشہ ورانہ مہارتوں، کچھ غیر پیشہ ورانہ رویوں، تحریر کی اعلیٰ ترین قوتوں اور زبان کی بہت سی لغزشوں کے ساتھ جناب ضیاء شاہد کورونا وبا کے دوران اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے۔ وہ اس سے قبل ایک سے زیادہ بار موت کو چھو کر واپس آئے تھے۔ وہ تمام زندگی متنازع رہے، لیکن یہی بات انہیں آگے بڑھاتی اور نمایاں کرتی رہی۔ اُن کی موت پر جس طرح اُن کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا وہ کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ اپنے پیشہ ورانہ سفر کو صفر سے شروع کرنے والے اِس شخص نے اس پیشے اور میڈیا انڈسٹری کے بامِ عروج کو چھوا۔ بہاولنگر سے بے سروسامانی کے عالم میں لاہور آکر انہوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا، اور اس مقصد کو پانے کے لیے راتوں کو شہر کی دیواروں پر رنگ اور برش کے ذریعے فلموں کے اشتہارات لکھتے رہے۔ یہ کام انہوں نے اپنی خوش خطی کے باعث حاصل کیا تھا، ورنہ اس کا انہیں کوئی تجربہ تھا نہ اس کی تربیت حاصل کی تھی۔ کسی کاروبار یا صنعت میں مزدورکی حیثیت سے داخل ہونے والے ایسے سیکڑوں لوگ آپ کو مل جائیں گے جو اپنی محنت اور لگن سے نہ صرف اس کاروبار یا صنعت کے مالک ہوئے، بلکہ چند روپے کی دیہاڑی سے آغاز کرنے والے ان لوگوں نے مرتے وقت کروڑوں اور اربوں روپے کا ترکہ چھوڑا۔ لیکن صحافت جیسے پیشے میں پروف ریڈر اور مترجم سے اخبارات کی ایک بڑی چین کے چیف ایڈیٹر، ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا کے چیف ایگزیکٹو کے عہدے تک پہنچنے والے لوگ خال خال ہی نظر آئیں گے۔ بلکہ جن عامل صحافیوں نے اپنے اخبارات و جرائد نکالے اُن میں سے زیادہ تر کو جلد یا بدیر ناکامی کا منہ ہی دیکھنا پڑا۔ لیکن ضیاء شاہد اس معاملے میں نشیب و فراز کے باوجود ایک کامیاب انسان رہے۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے روزنامہ ’تسنیم‘ سے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا، اور صحافت کی سب سے مشکل صنف ترجمہ میں طبع آزمائی کی۔ بہت جلد انہیں انگریزی اور عربی سے اردو ترجمہ کرنے میں مہارت حاصل ہوگئی۔
تسنیم کے بعد وہ ہفت روزہ اقدام، روزنامہ کوہستان، روزنامہ حالات اور روزنامہ مغربی پاکستان سے ہوتے ہوئے جناب الطاف حسن قریشی کے ماہنامہ اردو ڈائجسٹ پہنچے، جہاں ان کے کیے ہوئے تراجم کو شناخت اور پذیرائی ملی۔ خود میرا اُن سے تعارف اُن کے اردو ڈائجسٹ کے تراجم کے ذریعے ہی ہوا۔ یہاں سے وہ روزنامہ نوائے وقت چلے گئے جہاں میگزین ایڈیٹر اور ریزیڈنٹ ایڈیٹر کراچی رہے۔ جناب وحید قیصر، انور قدوائی اور اسد اللہ غالب کے ساتھ گاڑھی چھننے کے باعث چار کا یہ ٹولہ نوائے وقت کے اندر اور باہر خاصا مشہور ہوا۔ بھٹو دور میں نوائے وقت چھوڑ کر انہوںنے اپنا ذاتی ہفت روزہ کہانی اور ہفت روزہ صحافت نکالا۔ مگر ایک قابلِ اعتراض مواد شائع ہونے پر انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ انہوں نے کئی ماہ شاہی قلعہ لاہور میں گزارے۔ رہائی ہوئی تو دونوں جریدے بند ہوچکے تھے، چنانچہ دوبارہ نوائے وقت میں آگئے۔ 1983ء میں وہ ڈپٹی ایڈیٹر (میگزین) روزنامہ جنگ لاہور ہوگئے۔ یہاں انہوں نے جنگ فورم اور جنگ بک پبلشرز جیسے نئے اور کامیاب تجربات کیے۔ یہیں مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ان کے پاس بے پناہ آئیڈیاز تھے۔ لکھنے کی صلاحیت اور محنت کی عادت کے علاوہ پیشہ ورانہ مہارت موجود تھی، جس کی وجہ سے وہ ہر کام منٹوں میں کرلیتے تھے۔ جنگ اور نوائے وقت میں کئی بار آنے جانے کے تجربات کے بعد آخرکار انہوں نے ایک نیا اخبار نکالنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ میاں نوازشریف کی مشاورت سے جناب اکبر بھٹی نے سرمایہ فراہم کیا، اور ضیاء شاہد نے اپنی فنی مہارت اور تجربہ کار ٹیم کے ساتھ روزنامہ پاکستان جیسا کامیاب اخبار نکال لیا۔ لیکن اپنی افتادِطبع کی وجہ سے وہ زیادہ عرصہ ادویہ کے ایک بڑے تاجر کے ساتھ نہ چل سکے۔ یہی ان کی زندگی کا سب سے اہم موڑ تھا۔ انہوں نے کسی سیٹھ اور سرمایہ دار کی مدد کے بغیر اپنے بل بوتے پر اخبار نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اسٹاک ایکسچینج کی طرز پر اس کے حصص فروخت کیے۔ جماعت اسلامی سے ’’جسارت لاہور‘‘ کی نئی عمارت حاصل کی۔ اپنی زندگی بھر کی محنت کی کمائی اور وفا شعار بیوی کی گریجویٹی اور پراویڈنٹ فنڈ کی رقم اس منصوبے میں جھونکی۔ شہر بھر سے عالی دماغ صحافیوں اور لکھاریوں کو اکٹھا کیا۔ ملکی تاریخ کی سب سے بڑی رپورٹنگ ٹیم تیار کی، اور دن رات ایک کرکے ’’جہاں ظلم وہاں خبریں‘‘ کے نعرے کے ساتھ میدان میں آئے۔ وہ صرف خبر دینے یا اداریہ لکھ دینے کے قائل نہیں تھے۔ باقی مالکانِ اخبارات اور عامل صحافیوں کی رائے یہ تھی کہ خرابی اور جرم کی نشان دہی پریس کا کام ہے، اس پر گرفت کرنا، ملزمان کو پکڑنا اور انہیں سزائیں دینا اداروں کی ذمہ داری ہے۔ لیکن ضیاء شاہد ظالم کا پیچھا کرنے کے قائل تھے۔ وہ ظلم کی جس داستان کو چھیڑتے، ہفتوں اس کا فالواپ کرتے، یہاں تک کہ حکام کارروائی کرنے پر مجبور ہوجاتے۔ مختاراں مائی کا کیس انہوں نے ہی اٹھایا تھا جو سٹیزن جرنلزم کی بہترین مثال ہے۔ اس دوران انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر طرح طرح کے الزامات بھی لگے۔ یہ بھی کہا گیا کہ بلیک میلنگ جو پہلے کوئی فرد کرتا تھا اُسے ادارہ جاتی شکل دینے کا سہرا اُن کے سر ہے۔ یہ معاملہ اب اللہ کے سپرد ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے ’’جہاں ظلم وہاں خبریں‘‘ کے بینر تلے ظلم کی ایسی ایسی کہانیوں کو خبروں کی زینت بنایا جو سالہا سال سے دبی ہوئی تھیں۔ اس کام کے دوران کتنے ہی ظالم اپنے انجام کو پہنچے، اورکتنے ہی مظلوموں کی دادرسی ہوئی۔
روزنامہ خبریں پاکستان کا پہلا اخبار تھا جو بیک وقت سات شہروں سے شائع ہوتا تھا۔ پھر انہوں نے سندھی، پنجابی اور دیگر زبانوں کے اخبارات جاری کیے۔ شام کے اخبار ’نیا اخبار‘ کے علاوہ دوپہر کا ایک اخبار اور انگریزی روزنامہ ’دی پوسٹ‘ جاری کیا۔ ’چینل 5‘ کے نام سے ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا کا پورا نیٹ ورک بنایا۔ انہوں نے چھوٹے اخبارات کے مالکان کی ایک تنظیم بھی بنائی، اور بعد میں اے پی این ایس اور سی پی این ای کے عہدیدار بھی رہے۔
ماہنامہ اردو ڈائجسٹ اور روزنامہ نوائے وقت میں جناب ضیاء شاہد کی تحریروں کے ذریعے میں اُن سے غائبانہ طور پر متعارف ہوچکا تھا۔ ’کہانی‘ اور ’صحافت‘ نے اس تعارف کو مزید مضبوط کردیا۔ 1983ء میں وہ روزنامہ جنگ آئے تو ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی مل گیا۔ وہ چونکہ میرے میگزین ایڈیٹر تھے اس لیے اس تعلق کے باعث اُن سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ وہ صحافتی مواد، تصاویر، لے آئوٹ سے لے کر انٹرویو اور کالم تک پر عبور رکھتے تھے۔ لیکن کانوں کے کچے اور زبان کے بڑ بولے ہونے کے باعث بہت جلد متنازع ہوجاتے تھے۔ ذاتی زندگی میں وہ بہت ہمدرد اور دوسروں کی مدد کرنے والے تھے۔ ساتھیوں کی خوشی غمی میں شریک ہوتے۔ اُن ہی دنوں اُن کے ہونہار بیٹے عدنان شاہد ایک حادثے میں شدید زخمی ہوگئے تو میں نے انہیں بڑا رقیق القلب اور فکرمند باپ پایا۔ بدقسمتی سے چند سال بعد انہیں اپنے اس بیٹے کی موت کا صدمہ سہنا پڑا۔ بیمار وہ پہلے ہی تھے، اس حادثے نے اُن کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ وہ کچھ عرصہ نوازشریف کی مسلم لیگ کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن بھی رہے، ایک بار سینیٹ کا الیکشن بھی لڑا، لیکن صرف جماعت اسلامی کے دو ووٹ ہی لے سکے۔ آخری عمر میں انہوں نے اپنی تحریروں کوکتابی شکل دینے پر توجہ دی، اور کئی اچھی کتابیں بھی مرتب کرلیں۔ اپنے اخبارات اور چینل کو مشکل حالات کے باوجود چلاتے رہے، اور آخرکار لکھتے پڑھتے ہوئے 11اپریل 2021ء کو دائمی سفر پر روانہ ہوگئے۔