جماعت اسلامی کراچی کے تحت عظیم الشان اجتماعِ عام بسلسلہ تاسیسِ جماعت اسلامی و بیادِ سید منور حسن عیدگاہ گراؤنڈ ناظم آباد میں منعقد ہوا۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد پروگرام تھا جس میں سید منورحسن کی زندگی اور جدوجہد پر اُن سے قربت رکھنے والوں نے انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اُن کی حیات اور خدمات پر گفتگو کی۔ اس اجتماع سے مرکزی نائب امیر اسد اللہ بھٹو، امیر صوبہ سندھ محمد حسین محنتی، مرکزی ڈپٹی سیکریٹری محمد اصغر، امیر کراچی حافظ نعیم الرحمٰن، سینئرصحافی، تجزیہ کار و کالم نگار مظہر عباس، سید منور حسن کے انتہائی قریبی رفقاء پروفیسر سعید عثمانی، شفیع نقی جامعی اور نائب امیر کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی نے اظہارِ خیال کیا۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق جو خصوصی طور پر اس پروگرام کے لیے کراچی پہنچے تھے انہوں نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ جس طرح جماعت اسلامی ایک خوشبو اور روشنی ہے جسے ختم اور قید نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح سید منور حسن روشنی اور خوشبو تھے۔ سید مودودی ؒکی تحریک کا ایک انمول ہیرا تھے۔سید مودودیؒ نے ہمیں قاضی حسین احمد،پروفیسر غفور،پروفیسر خورشید،میاں طفیل محمد جیسے ہیرے اور لعل دیئے۔ مودودیؒ صاحب سے میں کبھی نہیں ملا،میاں صاحب سے بھی کبھی نہیں ملا ،لیکن قاضی حسین احمد اور سید منور حسن کو میں نے بہت قریب سے دیکھا اور ان کے ساتھ وقت گزارا۔ ان دونوں نے ہمیشہ باپ کی شفقت،ماں کی محبت اور بھائی کی طرح پیار دیا۔ان کی دعائیں آج بھی میرے ساتھ ہیں۔امیر بننے کے بعد میں نے منور حسن صاحب سے کہا، میں جماعت ِاسلامی کا امیر ہوں اور میرے امیر آپ ہوں گے۔سید منور حسن نے مارکس اور لینن کو بھی پڑھا اور سید مودودیؒ کے لٹریچر کو بھی پڑھا،قرآن و حدیث کا بھی مطالعہ کیا۔اسی لٹریچر اور مطالعے نے ان کے دل کو فتح کیا، اور پھر وہ ساری زندگی اسی سوچ اور فکر پر ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہے۔
اسد اللہ بھٹو نے اپنے خطاب میں کہا کہ سید منور حسن نے جس مقصد اور نصب العین کو دل سے قبول کیا اور تحریک کا حصہ بنے تو پھر اسی تحریک کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ حق گوئی ان کی شخصیت میں رچی بسی ہوئی تھی۔ اطاعتِ نظم اور اجتماعیت کے ہمیشہ پابند رہے۔ ہمیں بھی عہد کرنا چاہیے کہ ہم ان کے نقشِ قدم پر چلیں گے۔
محمد حسین محنتی کا کہنا تھا کہ انہوں نے ثابت کیا اور بتایا کہ اللہ کے احکامات اور دین کے مطابق زندگی کو کس طرح گزارا اور کھپایا جاتا ہے، انہوں نے اللہ کے لیے جینا اور مرنا سکھایا، وہ تحریک اقامتِ دین اور جماعت اسلامی کی جیتی جاگتی تصویر تھے، سید مودودی ؒکی سوچ اور فکر کو میدانِ عمل میں اتر کر پورا کرکے دکھایا۔ ان کے اندر جذبہ، لگن اور خلوص بدرجہ اتم موجود تھا۔ اس گلے سڑے نظام کو چیلنج کرنے میں وہ سب سے آگے تھے۔ باطل اور طاغوت کے خلاف جدوجہد ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ ان کی وفات سے ہم ایک بہت بڑے اور قیمتی انسان سے محروم ہوگئے۔
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے اپنے خطاب میں سید منور حسن کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں امریکہ ہار گیا اور سید منور حسن کا بیانیہ جیت گیا ہے۔ جماعت اسلامی ایک دستور اور نظام کے تحت جدوجہد کررہی ہے اور کرتی رہے گی۔ سید منور حسن ہمیشہ جماعت اسلامی کا وژن بیان کرتے تھے اور اسی کو لے کر چلتے تھے، اختلافات کے باوجود اجتماعیت پر یقین رکھتے اور اس کی مضبوطی کا باعث بنتے تھے۔ وہ مصلحت و حکمت اور بزدلی کے مفہوم اور فرق سے بہت اچھی طرح واقف تھے۔ راستے نکالنا اور ڈٹ جانا، کہاں راستہ نکالنا اور کہاں ڈٹ جانا ہے وہ خوب جانتے تھے۔ انہوں نے امریکہ کی جنگ میں شامل ہونے کی سخت مخالفت اور اس پر تنقید کی تھی، آج دنیا نے دیکھا کہ ان کا بیانیہ درست ثابت ہوا، امریکہ سمیت 40ملکوں کی فوج افغانستان میں شکست کھا گئی۔ وہ ایک پکے، سچے نظریاتی اور متقی شخص تھے، قرآن و حدیث، دورِ حاضر کے دیگر علوم، سامراجیت اور طاغوت کی حقیقت سے واقف تھے۔ اللہ کے احکامات کے تحت زندگی گزارنا نہایت آسان ہے، انہوں نے یہ دنیا میں کرکے دکھایا۔
محمد اصغر نے کہا کہ سید منور حسن کی سوچ اور فکر کا مرکز و محور صرف اور صرف جماعت اسلامی اور سید مودودیؒ کی فکر اور سوچ تھی۔ وہ جماعت اسلامی کی ترجمانی کرتے تھے۔ انہوں نے بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے اور آمریتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ”گو امریکہ گو“ تحریک چلائی۔ ہمارا فرض ہے کہ جماعت اسلامی کی دعوت اور پیغام کو عام کریں، جماعت اسلامی نے ہی ملک کو اسلامی بیانیہ دیا ہے، اور جماعت اسلامی ہی اس ملک کو ایک اسلامی اور ترقی یافتہ و خوشحال پاکستان بناسکتی ہے۔
صحافی مظہر عباس نے کہا کہ آج میں یہاں صرف سید منور حسن کی ذات اور شخصیت کی وجہ سے آیا ہوں، ہمارے درمیان شدید نظریاتی اختلاف رہا ہے لیکن ان سے ملاقاتیں ہوتی تھیں، ذاتی طور پر ان کو قریب سے دیکھا ہے، وہ ایک مختلف اور دوسری طرح کے انسان تھے، ان کی وفات سے یقیناً جماعت اسلامی کو بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ سیاست سے مزاحمت ختم ہوجائے تو مصلحت تو کوئی بھی کرسکتا ہے۔ وہ ہمیشہ مزاحمت کرتے رہے اندر بھی اور باہر بھی۔ وہ کہتے تھے کہ سوویت یونین کے ختم ہونے سے نظریاتی سیاست ختم ہوگئی ہے، اب بائیں بازو کو کوئی نیا بیانیہ لے کر آنا ہوگا۔ آج جمہوریت یرغمال ہے، ایک طرف جمہوریت اور دوسری طرف طاقت سے تبدیلی لانے والے لوگ ہیں، ملک میں کنٹرولڈ ڈیموکریسی کی سوچ پختہ ہورہی ہے۔ جماعت اسلامی یقیناً دوسری جماعتوں سے مختلف اور جمہوریت پر یقین رکھتی ہے۔ فکر و عمل کے دائرے میں آج بھی بہت سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔
سید منور حسن صاحب کے دوست اور پرانے ساتھی پروفیسر سعید عثمانی نے کہا کہ یہ چند دنوں کی بات نہیں بلکہ نصف صدی کا قصہ ہے۔ 1961ء میں ان سے پہلی ملاقات ہوئی، درمیان میں بہت نشیب و فراز آئے، لیکن زندگی کے آخری لمحے تک جب تک وہ ہوش میں رہے ان سے میرا رابطہ اور تعلق برقرار رہا۔ سادہ نفسی، سادگی، تقویٰ و عمل، دنیا داری سے دوری ان کی گھٹی میں شامل تھی۔ ان کی زندگی کی سادگی اور تقویٰ و پرہیزگاری کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ تنظیمی صلاحیتوں اور اصولوں پر کوئی رعایت نہ کرنا اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونا بھی ان کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ انہوں نے جمعیت کے دور میں اعلانِ تاشقند کے خلاف آواز بلند کی، مالی حیثیت کو بہتر بنانے کی ہر ترغیب کو ہمیشہ رد کیا اور طے کیا کہ جماعت اسلامی کے ساتھ رہتے ہوئے ہی ساری زندگی بسر کروں گا۔
شفیع نقی جامعی نے کہا کہ سیدمنور حسن اگر میری زندگی میں نہ ہوتے تو میں شاید وہ نہ ہوتا جو آج ہوں۔ انہوں نے حقیقتاً میری زندگی کا قبلہ درست کیا، مجھے برطانیہ بھی انہوں نے بھیجا۔ میں وہاں پڑھنے گیا تھا مگر پردیس کا ہوکر رہ گیا۔ ظالم اور جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا میں نے اُن ہی سیکھا ہے۔ وہ ایک بہترین مقرر، محقق، خطیب، ایمان اور ایقان کی پختگی والے انسان تھے۔ آج ان کو یاد کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔