طالبان کی افغانستان میں سیاسی برتری کے بعد سب سے بڑا سوال مستقبل کے افغانستان سے متعلق ہے۔ کیونکہ طالبان کی سیاسی برتری نے جہاں اُن کے لیے کامیابی کی راہ ہموار کی ہے، وہیں ان کے بارے میں افغانستان سمیت دنیا بھر میں کئی طرح کے خدشات، خوف اور تحفظات پائے جاتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ طالبان حکومت کا ماضی ہے جس میں تشدد، خوف، زبردستی کی عملی سیاست غالب تھی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ طالبان کی کابل سمیت افغانستان پر حالیہ سیاسی برتری یا عملی طور پر کابل پر قبضے کا عمل بہت ہی پُرامن اور بغیر کسی تشدد کے دیکھنے کو ملا ہے جو واقعی حیران کن ہے۔
طالبان کے لیے سب سے بڑا چیلنج افغانستان کے مختلف فریقوں سمیت افغان معاشرے میں اپنی سیاسی ساکھ قائم کرنا ہے۔ اب طالبان کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ماضی کے طالبان سے مختلف ہیں، اور ان کی سوچ و فکر کو ماضی کے طالبان کے ساتھ جوڑ کر نہ دیکھاجائے۔ اسی نکتے کو بنیاد بناکر افغان طالبان نے اپنی جو سیاسی پالیسی جاری کی ہے وہ واقعی قابلِ غور بھی ہے اور حوصلہ افزا بھی:
(1) افغانستان میں مکمل طور پر ایمنسٹی کا اعلان کیا گیا ہے، یعنی تمام مخالفین کے لیے عام معافی ہوگی اورکسی سے انتقام نہیں لیا جائے گا۔
(2) عورتوں اور اقلیتوں سمیت ہر فریق کے انسانی حقوق کا احترام کیا جائے گا، ہرفرد کو مذہبی آزادی ہوگی، عورتوں کو بغیر کسی ڈر و خوف کے کام کرنے، سیاست کرنے، باہر نکلنے اور مردوں کے ساتھ کام کرنے کی مکمل اجازت ہوگی۔
(3) جلد عبوری حکومت کا فیصلہ ہوگا، قابلِ قبول قیادت دی جائے گی، جس میں مخالفین کو بھی حکومتی ٹیم کا حصہ بنایا جائے گا، یعنی یہ تمام فریقین پر مشتمل حکومت ہوگی۔
(4) تمام دنیا کو تعلقات استوار کرنے کی دعوت دیتے ہیں، اورکسی بھی اہم بلاک کا حصہ نہیں بنیں گے۔
(5) افغان سرزمین کسی بھی طرح کی دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔
(6) میڈیا کو آزادی دی جائے گی اور حکومت پر تنقید کا بھی حق ہوگا۔
(7) ہمارا تحریک طالبان پاکستان یا القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا، اور نہ ہی ان کی کسی بھی سطح پر سیاسی سرپرستی کی جائے گی۔
طالبان کی قیادت دنیا کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ ہم دنیا کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں اور ہمیں اس بات کا پوری طرح احساس ہے کہ دنیا کو ساتھ ملائے بغیر ہم افغانستان کو امن اور ترقی کی جانب نہیں لے جاسکیں گے۔ طالبان کی قیادت نے اعتراف کیا ہے کہ ہم نے ماضی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے نکل کر ہر سطح پر ایسی حکمت عملی اختیار کریں جو ہمیں افغانستان سمیت دنیا کے ساتھ جوڑنے میں مدد فراہم کرسکے۔ حالیہ دنوں میں افغان طالبان نے مندر اور گرجا گھر جاکر اقلیتوں کو تحفظ دینے، ہسپتالوں میں جاکر لیڈی ڈاکٹروں کو ساتھ لے کر چلنے، اور میڈیا میں کام کرنے والی خواتین کو مکمل طور پر تحفظ دینے کا جو تاثر قائم کیا ہے وہ بھی امیدکا پہلو ہے۔ سوال یہی ہے کہ کیا طالبان کا یہ نیا سیاسی چہرہ مستقل بنیادوں پر قائم رہے گا، کچھ دن قبل تک طالبان قیادت تنِ تنہا حکومت بنانا چاہتی تھی اور ان کے بقول ہم کسی عبوری سیٹ اَپ کو قبول نہیں کریں گے۔ لیکن اب ان کی جانب سے تمام فریقین پر مشتمل حکومت کی یقین دہانی بھی اچھا قدم ہے، جو نہ صرف مستحکم عبوری سیٹ اپ یا حکومت بنانے، اور اس کی ساکھ قائم کرنے میں بھی مدد فراہم کرے گا۔
طالبان کی قیادت کو سمجھنا ہوگا کہ ان کی ماضی کی پالیسیوں کے باعث دنیا ان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ ان کے ہر اقدام کی کڑی نگرانی بھی کی جارہی ہے، اور ان کی حالیہ پالیسیوں کو بنیاد بناکر ہی ان کی قبولیت کا فیصلہ بھی سامنے آئے گا۔ طالبان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ افغانستان میں کئی دہائیوں سے جاری جنگ کے بعد افغان عوام اپنے ملک میں بھی اور علاقائی سطح پر بھی امن اور ترقی کے خواہش مند ہیں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب طالبان کی قیادت خود کو زیادہ ذمہ دار ثابت کرے، اور معاملات کو تدبر، فہم و فراست اور باہمی مشاورت کے ساتھ لے کر آگے بڑھے۔ طالبان کو اس بات سے بھی آگاہ ہونا چاہیے کہ اس وقت ان کی سیاسی برتری یا طاقت بہت سے لوگوں یا ممالک کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ ایک طرف طالبان مخالف قوتیں ہیں تو دوسری طرف عملی طور پر بھارت کا اپنا ایجنڈا بھی معاملات میں بگاڑ پیدا کرنا ہے۔ مستحکم افغانستان بھارت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لیے طالبان کو مخالفین کے بارے میں ردعمل کی سیاست کے بجائے ٹھیرائو کی پالیسی درکار ہے، اور ان کو اس معاملے میں زیادہ سوچ، فکر اورحکمتِ عملی درکار ہوگی کہ وہ کون سی قوتیں ہیں جو افغانستان کو غیر مستحکم رکھنا چاہتی ہیں۔
اسی طرح طالبان کے لیے یہ چیلنج بھی اہمیت رکھتا ہے کہ انہیں جہاں داخلی محاذ پر مسائل درپیش ہیں، وہیں اپنے اندر بھی اتحاد قائم رکھنا ہے۔ کیونکہ اگر طالبان کے اپنے اندر اختلافات پیدا ہوتے ہیں، یا اختلافات کی بنیاد پر ٹکرائو پیدا ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ ان کی کمزور حکومت کی صورت میں سامنے آئے گا۔ طالبان کو عبوری سیٹ اپ میں یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر بھی چلنا چاہتے ہیں اور مستقبل میں انتخابات کی مدد سے عوام کی منتخب حکومت بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی سوچ اور فکر طالبان کو دنیا میں قبولیت دلانے کا سبب بن سکے گی۔ کیونکہ افغانستان میں لوگوں میں ڈر اور خوف موجود ہے۔ اس لیے عملی طور پر طالبان کو یہ باورکروانا ہوگا کہ وہ سب کا تحفظ چاہتے ہیں۔
اسی طرح بڑا چیلنج عبوری سیٹ اپ کا ہے۔ مسئلہ فوری طور پر موجودہ سیاسی اور آئینی فریم ورک میں رہ کر معاملات کو حل کرنا ہے۔ طالبان اگر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ جمہوریت کو نہیں مانتے اور اس کے مقابلے میں شریعت نافذ ہوگی، اسی طرح یہ کہنا کہ عام انتخابات سے قبل جامع حکومت بنے گی اور وہ آئین کو تبدیل کرکے باقی امور انجام دے گی… یہ سوچ یقینی طور پر افغان فریقین میں بحران پیدا کرنے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اصل مسئلہ متفقہ عبوری حکومت کا قیام اور نئے انتخابات کی راہ ہموار کرنا ہے، اور جو بھی اکثریت کے ساتھ جیت کر آتا ہے وہ پارلیمنٹ کی مدد سے آئین کو تبدیل کرنے یا نظام کی تبدیلی پر کام کرسکتا ہے۔ اس سے قبل آئین میں چھیڑ چھاڑ، یا اسے ختم کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اس کے نتیجے میں انتشار پیدا ہوگا۔ اسی طرح افغانستان سے پاکستان مخالف ایجنڈے کو روکنا بھی طالبان کی اہم ذمہ داری کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ طالبان نے تین رکنی کمیشن بنادیا ہے جو ٹی ٹی پی کے معاملات کو دیکھے گا، اور ٹی ٹی پی کو بھی خبردار کیا گیا ہے کہ وہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے لیے استعمال نہ کرے۔ دوسری طرف افغان راہنما گلبدین حکمت یار نے بھی بھارت کو خبردار کیا ہے کہ وہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرے، وگرنہ اُسے افغان حکومت اور عوام کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینس اسٹولن برگ کے بقول پاکستان کی افغانستان سے متعلق بڑی ذمہ داری بنتی ہے، اور اس کی کوشش ہونی چاہیے کہ افغانستان دوبارہ دہشت گردی کی آماج گاہ نہ بنے۔ لیکن ضروری ہے کہ عالمی برادری بھی اپنی ذمہ داری پوری کرے اور بھارت سمیت جو بھی ممالک افغان امن کو خراب کرنا چاہتے ہیں ان کو ہر سطح پر روکا جائے۔ روس کے صدر پیوٹن نے بھی عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی مرضی مسلط کرنے کے بجائے افغان طالبان کو موقع دیں کہ وہ خود حالات کو درست کریں۔ اب یہ واقعی طالبان راہنمائوں کا امتحان ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں اپنی سیاسی ساکھ کیسے قائم کرتے ہیں اورکیسے اپنی قبولیت کو یقینی بناتے ہیں۔