علامہ ابن جوزیؒ نے نقل کیا ہے کہ ایک شخص کے گھر میں رات کو چور گھس آئے، مالک مکان کو گرفتار کرلیا اور اس کا سارا سامان سمیٹ کر لے جانے لگے۔ جانے سے پہلے انہوں نے مالک مکان کو قتل کرنے کا ارادہ کیا، لیکن ان کے سردار نے کہاکہ ’’اس کا سامان تو سارا لے جائو، مگر اسے زندہ چھوڑ دو، اور قرآن اس کے ہاتھ پر رکھ کر اسے قسم دو کہ میں کسی شخص کو یہ نہیں بتائوں گا کہ چور کون تھے؟ اور اگر میں نے کسی کو بتایا تو میری بیوی کو تین طلاق‘‘۔
مالک مکان نے جان بچانے کی خاطر یہ قسم کھالی، لیکن بعد میں بڑا پریشان ہوا۔ صبح کو بازار میں گیا تو دیکھا کہ وہی چور چوری کا مال بڑے دھڑلے سے فروخت کررہے ہیں، اور یہ بیوی پر طلاق کے خوف سے زبان بھی نہیں کھول سکتا، عاجز آکر یہ امام ابوحنیفہؒ کے پاس پہنچا اور ان کو بتایا کہ رات اس طرح کچھ چور میرے گھر میں گھس آئے تھے اور انہوں نے مجھے ایسی قسم دی، اب میں ان کا نام ظاہر نہیں کرسکتا، کیا کروں؟
امام صاحبؒ نے کہا کہ ’’تم اپنے محلے کے معزز افراد کو جمع کرو، میں ان سے ایک بات کہوں گا‘‘۔ اس شخص نے لوگوں کو جمع کرلیا۔ امام صاحبؒ نے وہاں پہنچ کر ان سے کہاکہ: ’’کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس شخص کو اس کا مال واپس مل جائے؟‘‘
’’ہاں چاہتے ہیں‘‘۔ ان سب نے کہا۔
امام صاحبؒ نے فرمایا: ’’پھر ایسا کیجیے کہ اپنے ہاں کے سارے غنڈوں کو جامع مسجد میں جمع کیجیے اور پھر ایک ایک کرکے انہیں باہر نکالیے۔ جب کوئی باہر نکلے تو آپ اس شخص سے پوچھیے کہ: ’’کیا یہی وہ چور ہے؟“ اگر وہ چور نہ ہو تو یہ انکار کردے، اور اگر وہی چور ہو تو خاموش رہے، نہ ہاں کہے، نہ نہیں۔ اس موقع پر آپ سمجھ جایئے کہ یہی وہ چور ہے، اس طرح چور کا پتا بھی لگ جائے گا اور اس کی بیوی پر طلاق بھی نہ ہوگی‘‘۔
سب نے اس تجویز پر عمل کیا، چور پکڑا گیا اور اس بے چارے کو اپنا مال بھی واپس مل گیا۔
(تقی الدین حمویؒ، ثمرات الاوراق علی المستطرف، ص 146، 147، ج 1) (مفتی محمد تقی عثمانی۔ تراشے)