کشمیر دنیا کے پیچیدہ ترین مسائل میں سے ایک ہے جہاں کئی ایٹمی طاقتیں جن میں دو علاقائی اور ایک عالمی حیثیت کی حامل طاقتیں آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہیں۔ علاقائی ایٹمی طاقتوںپاکستان اور بھارت کے درمیان کھینچا تانی ہی کیا کم تھی اب عالمی طاقت چین بھی سرگرم ہو کر تنازعے کے بیرونی فریقوں کی ایک مثلث بناچکا ہے۔قریب ہی روس جیسی قدیم عالمی طاقت بھی اس خطے کی جانب متجسسانہ انداز میں متوجہ ہے۔تنازعہ کی فالٹ لائن غیر فعال ہوتی تو شاید معاملات زیادہ سنگین نہ ہوتے یہاں فالٹ لائن پوری طرح سرگرم ہے اور پاکستان و بھارت مسلسل حالت جنگ میں ہیں ۔دوسال سے چین نے بھی پیش قدمی کرکے اس فالٹ لائن سے توانائی کے اخراج کے عمل کو تیز کرتے ہوئے معاملات کو مزید گھمبیر بنادیا ہے۔امریکہ خطے کے دواہم ملکوں سے تقریباََ بے دخل ہوچکا ہے ۔پاکستان نے برسوں پہلے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نقصانات اور امریکہ کی بھارت کے ساتھ کھلی قربت کے بعد اپنے شہروں سے امریکہ کی عملی موجودگی کی بساط لپیٹنا شروع کی تھی اور یوں امریکی سی آئی اے پاکستان میں بیٹھ کر اب کارروائیوں کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے۔مکمل فوجی انخلا کے بعد افغانستان سے بھی امریکہ بڑی حد تک بوریا بستر سمیٹ کر رخصت ہوا چاہتا ہے ۔امریکہ ان دو اہم ملکوں کے ٹھکانوں سے محروم ہونے کے بعد بھارت پر اپنا انحصار بڑھا دے گا ۔ہمالیہ کی بلندیاں دونوں کے درمیان نقطہ اتصال بن سکتی ہیں کیونکہ پاکستان چین اور روس بیک وقت یہیں سے قریب پڑتے ہیں ۔دنیا کے اس پیچیدہ ترین مسئلے کو حل کرنے کے لئے ہر دور میں
تجاویز اور فارمولے پیش کئے جاتے رہے ۔اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے ساتھ سر اوون ڈکسن کے فارمولے سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ کاٹھواری اور مشرف فارمولوں تک پہنچا۔اب امریکہ میں مقیم ورلڈ کشمیر اوئیرنس فورم کے سیکرٹری جنرل اور متحرک کشمیری راہنما ڈاکٹر غلام نبی فائی نے بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ایک اہم تجویز پیش کی ہے ۔ڈاکٹرفائی دہائیوں سے امریکہ میں مقیم ہیں اور وہاں ہمہ وقت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سرگرم ہیں۔امریکہ کے قانون ساز اداروں، تھنک ٹینکس اور میڈیا میں اپنا حلقہ اثر اور تعارف رکھتے ہیں۔ڈاکٹر فائی ایک ایسے وقت میں اپنی تجاویز کے ساتھ سامنے آئے ہیں جب بھارت کے پانچ اگست کے فیصلے کے بعد مسئلہ کشمیر کا دھاگا پہلے سے زیادہ اُلجھائو کا شکار ہو کر رہ گیا ہے اور دوردور تک کوئی پرامن حل نظر نہیں آرہا۔ پاکستان بھارت اور کشمیری عوام سمیت تمام روایتی فریق اپنی کھینچی ہوئی لکیروں پر کھڑے ہیں کوئی بھی اس سے سرمو انحراف کو تیار نہیں۔دنیا کے سب سے بڑے فوجی اتحاد نیٹو کے بعد امریکہ بھی قریب ہی افغانستان سے فوجی انخلا کے آخری مرحلے میں ہے ۔امریکہ اور یورپ نے افغانستان پر کنٹرول قائم رکھنے کے لئے بے پناہ جانی ومالی قربانی دی ہے ۔افغانستان میں بیتے ہوئے بیس سال وسائل کے استعمال اور جانوں کے زیاں سے ہی عبارت ہیں۔یہ انخلا کشمیر میں ایک ماڈل قرار پا سکتا ہے ۔یہاں بھی سب فریقوں کی قربانیاں بہی کھاتے کا حصہ ہیں مگر استخلاص وطن کے لئے کشمیریوں کی قربانیاں ان سب پر بھاری ہیں ۔ ڈاکٹر غلام نبی فائی نے خطے میں دیرپا امن اور کشیدگی کے خاتمے اور اعتماد سازی کے لئے ریاست جموں وکشمیر کے تمام منقسم حصوںآزادکشمیر وگلگت بلتستان،وادی لداخ اور جموں سے ڈی ملٹرائزیشن کی تجویز پیش کی ہے۔ تاہم ان کی تجویز میں اقصائے چین کی ڈی ملٹرائزیشن کا ذکر شامل نہیں ۔بھارت پاکستان سے زیادہ چین کے خطرے کو بنیاد بنا کر فوجی طاقت سمیٹتا رہا ہے اور اقصائے چین کی ڈی ملٹرائزیشن سے خطرے کا یہ جواز بھی باقی نہیں رہتا۔ ڈاکٹر فائی کے مطابق مکمل فوجی انخلا(فوجی اور نیم فوجی دونوں ) کے اس عمل کی نگرانی اقوام متحد ہ کی نگرانی میں ہونی چاہئے۔یہ انخلا مختلف فیزز میں ہو رہی ہے۔پہلے مرحلے ریاست کے اندرسے فوج کم کی جا سکتی ہے اور اس کے بعد ریاست کے باہر بھی دونوں فوجوں کی تعداد کم کی جا سکتی ہے۔ان کے خیال میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں یہ اقوام متحدہ، چین ،پاکستان ،بھارت،روس اور کشمیر پر مشتمل چھ فریقی عمل کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ امریکی سی آئی اے کے سابق چیف جیمز والسے نے بجا طور پر کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے پر اعتماد مکمل طور پر کھوچکے ہیں ۔ایسے میں تیسرا فریق ضروری ہے مگر بطور ثالث یا ضامن یہ تیسرا فریق اقوام متحدہ یا امریکہ کی بجائے عالمی قد کاٹھ کی حامل کوئی شخصیت ہو سکتی ہے۔اس عمل میں حتمی حل کے لئے اقوام متحدہ کے طے کردہ اصولوں اور ماضی سے مدد لی جا سکتی ہے۔ان کے خیال میں ڈومیسائل کے قانون کو فوری بحال کرکے اور ہر فریق کی جانب سے سیز فائر اور کسی پیشگی شرط کے بغیراس عمل کا آغاز کیا جا سکتا ہے ۔انہوںنے کچھ تجاویز کو’’نان سلوشن‘‘ کہہ کر مسترد کیا جن میں کنٹرول لائن کو مستقل سرحد بنانا اور کشمیر کو دونوں ملکوں کی مشترکہ عمل داری میں دینا شامل ہے ۔ڈاکٹر فائی نے ان تجاویز کو ایسی بارودی سرنگ سے تشبیہ دی جو کسی بھی وقت پھٹ کر نیوکلیئر طاقتوں کے درمیان نئے تصادم کی بنیاد بن سکتی ہے۔ڈاکٹر غلام نبی فائی کی طرف سے کشمیر کی’’ ڈی ملٹرائزیشن فارمولہ‘‘ پاکستان بھارت چین سمیت کہاں اپنی جگہ بناتا ہے اس کا فیصلہ آنے والے وقتوں میں ہوگا کیونکہ ایک وسیع وعریض خطہ ، بڑی آبادی اور وسائل کا حامل علاقہ تادیر کشیدگی کے بھنور میں پھنس کر نہیں رہ سکتا۔وقت کے دھارے کو تو آگے بڑھنا ہی ہوتا ہے۔