فتح کابل ۔۔۔افغانستان میں مغربی دنیا کی مکمل ناکامی کا منتظر

طالبان نے افغانستان کے 25 سے زیادہ صوبائی دارالحکومتوں کو فتح کرنے کے بعد بالآخر کابل کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ الجزیزہ ٹیلی وژن کے مطابق طالبان کابل کے صدارتی محل میں موجود ہیں۔ اطلاعات کے مطابق افغانستان کے صدر اشرف غنی ملک سے فرار ہو کر تاجکستان پہنچ گئے ہیں، ایک اطلاع یہ ہے کہ انہوں نے امریکی سفارت خانے میں پناہ حاصل کی ہے۔ افغانستان کے مفاہمتی کمیشن کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے اشرف غنی کے فرار ہونے کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اشرف غنی مشکل وقت میں ملک کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ یقینا اللہ تعالیٰ انہیں سمجھے گا۔ افغانستان کے وزیردفاع بسم اللہ محمدی نے اشرف غنی پر الزام لگایا کہ انہوں نے ہمارے ہاتھ کمر کے پیچھے باندھے اور ملک کو فروخت کر ڈالا۔ حق آیا اور باطل مٹ گیا بلاشبہ باطل مٹنے کے لیے ہی ہے۔ طالبان نے کابل میں داخل ہوتے ہوئے عام معافی کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کے زیر سایہ ہر شہری کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ ہے۔ طالبان نے کہا کہ ابھی ہمارا ارادہ کابل میں داخل ہونے کا نہیں تھا تاہم ہم اس خیال سے کابل میں داخل ہوئے کہ کہیں قانون شکن عناصر سیکورٹی کے خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کے جان و مال سے نہ کھیلنے لگیں۔
بلاشبہ یہ افغانستان میں امریکہ کی مکمل شکست کا منظرنامہ ہے لیکن افغانستان میں صرف امریکہ کو شکست نہیں ہوئی بلکہ افغانستان میں پوری مغربی دنیا شکست کھا گئی ہے۔ اس لیے کہ امریکہ افغانستان میں تنہا نہیں آیا تھا۔ دیگر 48 ممالک بھی اس کے ساتھ تھے۔ ان ممالک میں یورپ کا کم و بیش ہر ملک شامل تھا۔ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ناکامیوں کی فہرست طویل ہے۔ امریکہ افغانستان میں طالبان کو ختم کرنے آیا تھا مگر طالبان امریکی جارحیت کے 20 سال ہضم کر گئے۔ بلکہ اب وہ پہلے سے زیادہ توانا ہیں۔ بلاشبہ امریکہ نے 20 سال میں ہزاروں طالبان اور لاکھوں افغانوں کا خون بہایا ہے مگر وہ طالبان کے عزم اور حوصلے کو فتح کرنے میں کرنے میں ناکام رہا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ طالبان حق پر تھے اور امریکہ اور اس کے اتحادی باطل کی علامت تھے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ طالبان گزشتہ 20 برسوں کے دوران افغانستان میں کبھی عوامی حمایت سے محروم نہیں ہوئے۔ انہوں نے امریکہ کے خلاف گوریلا جنگ لڑی ہے اور گوریلا جنگ لڑنے کے لیے مقامی آبادی کی حمایت ضروری ہوتی ہے۔ گوریلے حملے کرتے ہیں اور کسی بھی گھر میں چھپ جاتے ہیں۔ گوریلوں کو پناہ دینے والے موجود نہ ہوں تو گوریلے اپنی جنگ جاری نہیں رکھ سکتے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے طالبان کے خلاف غیر معمولی پروپیگنڈا کیا۔ انہیں وحشی اور درندے ثابت کرنے کی کوشش کی مگر افغانستان کے عوام کی اکثریت نے امریکہ اور اتحادیوں کے پروپیگنڈے سے کوئی اثر نہ لیا اور وہ طالبان ہی کو ہیرو اور نجات دہندہ سمجھتے رہے۔ چنانچہ طالبان 20 سال پر محیط طویل جنگ لڑنے کے قابل رہے۔ بلاشبہ جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اللہ ان کا ساتھ دیتا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی دوسری ناکامی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ایجنٹوں اور جعلی جمہوریت کو افغانستان پر مسلط کرنے کی کوشش کی مگر مغربی دنیا کا کوئی ایجنٹ افغانستان میں قابل توقیر نہ ہو سکا۔ امریکہ نے حامد کرزئی کو افغان عوام پر مسلط کیا مگر وہ عوام میں مقبول نہ ہو سکے چنانچہ امریکہ نے خود ہی انہیں راستے سے ہٹا دیا۔ حامد کرزئی کی جگہ اشرف غنی کو لایا گیا مگر اشرف غنی کا یہ حال ہوا کہ طالبان کے کابل پر دستک دیتے ہی وہ ملک سے فرار ہو گئے۔ اشرف غنی کی جڑیں عوام میں ہوتیں تو وہ کابل میں رہتے اور طالبان کا مقابلہ کرتے۔ مگر اشرف غنی کو معلوم تھا کہ جب طالبان ان کا سر اتاریں گے تو ان کی موت پر کوئی دو آنسو بہانے والا بھی نہیں ہو گا۔ یہ افغانستان میں قیادت کا خلا ہے جس نے طالبان کے حوصلوں کو بڑھایا اور وہ ایک کے بعد دوسرے شہر کو فتح کرتے چلے گئے اور کابل تک آپہنچے، طالبان کی برق رفتار پیش قدمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مغربی دنیا کے انٹیلی جنس اداروں نے پہلے کہا کہ طالبان 90 روز میں کابل فتح کر سکتے ہیں۔ پھر انہوں نے کہا کہ طالبان 30 دن میں کابل کا کنٹرول حاصل کر سکتے ہیں۔ مگر طالبان نے صرف ایک ہفتے میں کابل پر گرفت حاصل کر لی۔ اس سلسلے میں امریکی صدر جوبائیڈن تک درست پیش گوئی کرنے میں ناکام رہے۔ جو بائیڈن نے چند روز پیشتر ہی کہا تھا کہ اشرف غنی کی حکومت مضبوط ہے اور وہ گرنے والی نہیں ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ایک ناکامی یہ ہے کہ مغربی ممالک افغانستان میں جمہوریت کا شت کرنے آئے تھے۔ انہوں نے انتخابات کرائے مگر ان انتخابات کا حال یہ تھا کہ اس میں دس فیصد سے بھی کم رائے دہندگان نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ انتخابات کو عبداللہ عبداللہ نے دھاندلی زدہ قرار دیا۔ چنانچہ کابل میں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے بیک وقت صدارت کے عہدوں کا حلف لیا۔ بعد میں امریکہ نے بیچ بچائو کرا کے عبداللہ عبداللہ کو شکست تسلیم کرنے پر مجبور کیا اس طرح افغانستان میں جمہوریت مذاق بن گئی۔ اس طرح مغربی دنیا افغانستان میں طالبان کا ’’متبادل‘‘ ایجاد کرنے میں بری طرح ناکام ہو گئی۔ طالبان کا متبادل ایجاد ہو جاتا تو آج طالبان افغانستان کے اصل حکمران بن کر سامنے نہ آتے۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ایک ہولناک اور شرمناک ناکامی یہ ہے کہ امریکہ وقت کا واحد سپرپاور ہے۔ اس کی سیاسی طاقت بے پناہ ہے۔ وہ جس سیاسی طاقت کے خلاف ہو جائے دنیا میں اس کا کوئی مستقبل نہیں رہتا۔ امریکہ اور طالبان کی طاقت میں ایک اور ایک لاکھ کی نسبت تھی۔ طالبان کی طاقت ایک کی طاقت تھی اور امریکہ کی طاقت ایک لاکھ کی طاقت تھی مگر امریکہ 20 سال میں طالبان کو سیاسی اعتبار سے غیر اہم نہیں بنا سکا۔ طالبان چین سے بھی رابطے میں رہے۔ روس بھی ان سے گفتگو کرتا رہا۔ یہاں تک کہ بالآخر امریکہ نے خود طالبان کو ایک جائز طاقت تسلیم کر لیا اور ان سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس طرح امریکہ 20 سال تک اپنے تھوکے ہوئے کو چاٹنے پر مجبور ہوا۔امریکہ نائن الیون کے بعد طالبان کو وحشی اور درندے کہتا تھا مگر بالآخر وہ انہی وحشی اور درندوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھا اور ان سے معاہدہ کرتا نظر آیا۔
طالبان نے مذاکرات میں بھی کمال کر دیا۔ امریکہ چاہتا تھا طالبان امریکہ کے پٹھو اشرف غنی سے مذاکرات کریں مگر طالبان نے پہلے مرحلے میں اشرف غنی کے ساتھ مذاکرات سے انکار کر دیا۔ طالبان نے امریکہ سے اپنے پانچ ہزار قیدی رہا کرا لیے۔ طالبان نے امریکہ سے کہا تم نے ہمیں دہشت گردوں کی فہرست میں ڈالا ہوا ہے۔ ہمیں اس فہرست سے نکالو اور امریکہ نے طالبان کے مطالبے کو تسلیم کیا۔ امریکہ آخری وقت تک کہتا رہا کہ طالبان جنگ بندی کر دیں مگر طالبان نے جنگ بندی کرنے سے انکار کر دیا اور اشرف غنی پر اپنا دبائو برقرار رکھا۔ اس طرح طالبان نے مذاکرات کی میز پر بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شکست سے دوچار کیا۔
امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی ایک ناکامی یہ ہے کے وہ دنیا میں عسکری اعتبار سے طاقت ور ترین ہیں۔ دنیا میں کون ہے جو امریکہ اور نیٹو کی مشترکہ عسکری طاقت کا مقابلہ کرے گا۔ یہ کام روس اور چین بھی نہیں کر سکتے۔ امریکہ کے پاس ایسے سیٹلائیٹس ہیں کہ وہ زمین پر رینگتی ہوئی چیونٹی کو مانیٹر کر سکتا ہے۔ اس کے پاس دور مار میزائل ہیں۔ ایف 16 اور بی۔ 52 طیارے ہیں۔ امریکہ کے پاس ڈیزی کٹر اور ایٹم بم ہے۔ مگر افغانستان میں امریکہ کا کوئی ہتھیار اس کے کام نہ آسکا۔ ہمیں یاد ہے کہ امریکہ نے ایک ٹیلی فون کال کی تھی اور جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کے ساتوں مطالبات مان کر پورا پاکستان امریکہ کے حوالے کر دیا تھا۔ بعد ازاں جنرل پرویز نے قوم کو بتایا تھا کہ ہم دس منٹ سے زیادہ امریکہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ یہ ایٹمی پاکستان کے صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف کا بیان تھا مگر جنرل پرویز جس امریکہ کے ساتھ دس منٹ نہیں لڑ سکتے تھے طالبان نے اس امریکہ کے خلاف 20 سال تک لڑ کر دکھا دیا۔ کہنے کو امریکہ وقت کی واحد سپر پاور ہے مگر درحقیقت امریکہ سے بھی بڑی سپرپاور طالبان ہیں۔ جنہوں نے امریکہ کے عسکری تکبر کو خاک میں ملا دیا۔ افغانستان میں صرف امریکہ کی عسکری طاقت ہی کی بھد نہیں اڑی افغانستان میں امریکہ کا ڈالر بھی دو کوڑی کا ثابت ہوا۔ کہنے والے کہتے ہیں جہاں امریکہ کے ایف 16، B-52 طیارے اور کروز میزائل بھی کام نہیں کرتے وہاں ڈالر کام کرتا ہے۔ امریکہ کی عسکری طاقت صرف سیاسی وفاداری خریدتی ہے مگر ڈالر تو لوگوں کا ایمان تک خرید لیتا ہے، لیکن امریکہ کا ڈالر بھی افغانستان میں بری طرح ناکام ہو گیا۔ سوال یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی غیرمعمولی کامیابی کے اسباب کیا ہیں؟
اسلام میں کامیابی کے چند اصول ہیں۔ اسلام میں کامیابی کی پہلی شرط یہ ہے کہ انسان حق کی گواہی دے اور اس پر ڈٹ جائے۔ کامیابی کا دوسرا اصول یہ ہے کہ حق کا علمبردار باطل کی مزاحمت کرے اور اس کا حق ادا کرنے کے لیے کوشاں ہو۔ کامیابی کی تیسری شرط یہ ہے کہ حق کی راہ میں جدوجہد کرتے ہوئے انسان قربانیاں پیش کرنے سے نہ ڈرے۔ کامیابی کی چوتھی شرط یہ ہے کہ صرف قربانیاں نہ دے ان پر صبر بھی کرے۔ جب ایک مسلمان یہ شرائط پوری کر دیتا ہے تو پھر اس چیز کا ظہور ہوتا ہے جسے نصرت الہٰی کہا جاتا ہے۔ طالبان کی جدوجہد کا سرسری مطالعہ بھی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ انہوں نے کامیابی کی تمام شرائط پوری کر کے دکھائی ہیں اس لیے انہیں نصرت الہٰی حاصل ہوئی ہے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ کیا کابل میں طالبان کی حکومت کو عالمی قبولیت حاصل ہو پائے گی؟ چین اور طالبان کے قریبی رابطوں کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ چین طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لے گا۔ روس نے بدترین حالات میں بھی کابل کے اندر اپنا سفارت خانہ بند کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ روس بھی طالبان کو تسلیم کرنے کی جانب جا سکتا ہے۔ ان دو بڑی طاقتوں کے بعد چھوٹے ممالک کے لیے طالبان کو تسلیم کرنا آسان ہو جائے گا۔
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے، کیا