حضرت ابن عمرؓ کے بارے میں ان کے معروف شاگرد حضرت نافعؒ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے پاس بیس ہزار سے زائد درہم آگئے، لیکن جس مجلس میں وہ آئے تھے، آپ وہاں سے اس وقت تک نہیں اٹھے جب تک پورے کے پورے خرچ نہ کردیئے۔ جب کچھ باقی نہ رہا تو اتفاق سے ایک سائل اور آگیا، آپ کے پاس دینے کے لئے کچھ نہ تھا تو جن لوگوں کو پہلے دے چکے تھے، ان سے قرض لے کر اسے دیا۔ ایک مرتبہ آپ بیمار ہوئے تو گھر والوں نے آپ کے لئے کچھ انگور منگوا دیئے، اتنے میں ایک سائل آگیا اور اس نے انگوروں ہی کا سوال کیا۔ حضرت ابن عمرؓ نے حکم دیا کہ وہ انگور اسی کو دے دیئے جائیں، گھر والوں نے بہت کہا کہ ہم اسے کچھ اور دے دیتے ہیں، لیکن حضرت ابن عمرؓ مصر رہے، یہاں تک کہ گھر والوں نے انگور اس سائل کو دیئے، اور بعد میں اسی سے خرید کر آپ کے سامنے پیش کئے۔
ساری عمر آپ کا یہی معمول رہا کہ کبھی تنہا کھانا نہیں کھایا، ہمیشہ کھانے کے وقت کچھ نادرا افراد کو بلاکر ان کو کھانے میں شریک کرتے تھے۔ ایک مرتبہ گھر والوں نے یہ تدبیر کی کہ قریب کے نادار افراد کو پہلے سے کھانا کھلادیا، اور ان سے کہاکہ جب حضرت ابن عمرؓ انہیں بلائیں تو ان سے عذر کردیجئے، چنانچہ آپ نے جب حسب معمول کھانے کے وقت انہیں دعوت دی تو انہوں نے عذر کیا حضرت ابن عمرؓ نے گھر آکر کھانا کھانے سے انکار کردیا اور اس رات کھانا ہی نہ کھایا۔
ایک مرتبہ ایک شخص آپ کے لئے ایک جوارش تحفے میں لایا اور کہاکہ اس سے کھانا اچھی طرح ہضم ہوجاتا ہے آپ نے فرمایا: ’’مجھ پر بعض اوقات پورا پورا مہینہ اس حالت میں گر جاتا ہے کہ میں پیٹ نہیں بھرتا، میں یہ جوارش لے کر کیا کروں گا؟‘‘۔ (مفتی محمد تقی عثمانی۔ تراشے)