گوہرِ نایاب محترم پروفیسر گوہر صدیقی کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ایک دلسوز تحریر
بولنے والی کی کانوں سنی، آنکھوں دیکھی روایت نہ ہوتی تو ہم بھی اردو ڈائجسٹ کی کہانی سمجھ کے لپیٹ دیتے۔ ایسا اس زمیں میں کیسے ممکن ہوسکا کہ بے سروسامان مہاجر تیرہ سالہ لڑکا چوکیداری کرتے کرتے ایک پورے خطے میں تعلیمی انقلاب کی نوید بن جائے؟ ملاقات میں اپنی بے چارگی اور زمانے کی بے عنایتی کی داستاں کہنے کے بجائے خوشی، اُمید، عزم بانٹتا جائے؟ اپنے کانوں سنی، آنکھوں دیکھی کو جھٹلا نہیں پارہی کہ بہتے آنسوئوں کی نمی چہرے پر باقی ہے، جو ایک خاکی پیکر کے ثبات، ہمت اور محنت کو خراج پیش کررہی ہے۔ اس کے ابا ریاست پٹیالہ کی عمل داری میں تھانیدار تھے۔ علاقے میں قوت اور حشمت میں ممتاز تھے۔ تین جون کے منصوبے کا اعلان ہوتے ہی ریاست کے مسلمان ملازمین سے ہتھیار لے لیے گئے۔ جب اردگرد کے علاقوں میں فسادات بڑھ گئے تو لوگ اس کے گھر جمع ہوگئے۔ آخری رات جو اسے یاد تھی، وہ جب حویلی لوگوں سے پٹی ہوئی تھی، مہاراجا کی آشیرباد سے ہونے والے حملے کا رُخ انہی کی طرف تھا۔ حویلی میں پناہ گزیں مردوں کو ختم کرنے کے بعد عورتوں کا جو حشر ہوا سو ہوا۔ کیا نیا پن تھا اس میں؟
وہ بتا رہی تھی اور میں سوچ رہی تھی کہ تیرہ سال کیسی عمر ہوتی ہے… لڑکپن اور بلوغت کی درمیانی سرحد، جب دونوں بازوئوں میں گولیاں کھائے، ایک باڑھ سینے میں اتار کے گرتے ہوئے اپنے پیارے باپ کے بریدہ بدن اور اپنے ننھے منے ڈیڑھ سالہ بھائی کے بسمل لاشے کے ساتھ دو دن پیاروں کی لاشوں کے بیچ میں ادھ موئے پڑے رہنے کے بعد بارش کی پھوار سے زندگی کا احساس پا کے جب اٹھا تو زخم سڑنا شروع ہوچکا تھا۔ زخم کے کیڑوں اور جمے ہوئے خون سے جوتوں میں چپکے پیروں سے اس نے کیسے قدم اٹھایا ہوگا! اور جب کسی مہربان نے وہ جوتے کاٹ کے اتارے ہوں گے تو وہ کیسے انہی گلیوں میں بہتے خون، سڑتی لاشوں، جلتے مکانوں کے بیچ سے نکلا ہوگا! جانے کیسے اس کی فگار انگلیوں نے وہ روٹی تھامی ہوگی جس نے اسے احساس دلایا کہ تین روز سے اس کے حلق سے کچھ نہیں اُترا۔ اور وہ کیسا احساس ہوگا جب اس کا زخمی بازو روٹی کے نوالے اس کے منہ تک پہنچانے کے لیے نہیں اُٹھ سکا تھا! اس زخم زخم لڑکے نے رستے میں ایک ماں کی آنکھوں کی التجا کیسے پڑھ لی تھی جس کی گود میں لٹکے مدقوق بچے کی آنکھوں میں بھوک، بیماری کا صدمہ ٹھیر چکا تھا! لمحہ ہی تو تھا جب اس نے اپنے سوکھے ہونٹ اور خالی پیٹ کے تقاضے کو قربان کردیا۔ روٹی کا وہ ٹکڑا کیسا تھا کہ ستم رسیدہ ماں کے دل سے نکلا ’’پتر! رب تینوں وڈا ماسٹر بنائے‘‘۔ شاید وہی لمحہ تھا جب لوح پر گھسٹتے یزداں کے قلم نے لکھا ہوگا کہ وہ اپنے درد و رنج سے نجات پاکے اپنی سانسوں کی آخری ڈور تک انسانوں کے دکھوں کا درماں بنے گا۔ قدسیوں کے پروں کی چھائوں میں لڑکھڑاتا، گھسٹتا جب وہ کیمپ پہنچا تو بچھڑی ماں کی گود میں جا اترا۔ سر پر تلوار کا گھائو کھائے تین سالہ بہن کو پہچان کے آگے بڑھا جو صدمے کی شدت سے اس کے ساتھ جانے سے انکاری تھی تو ماں کا کلیجہ کیوں کر نہ شق ہوتا ہوگا! جانے کس جتن سے کتنے دن میں ستلج پار کرکے دوسرے کنارے اترے تو شاہ جیونہ نے اپنی بانہیں استقبال کے لیے وا کیں۔ وہاں اپنی بیوہ ماں اور دو ننھی یتیم بہنوں کے تیرہ سالہ سرپرست نے مزدوری تلاش کی۔ رات رات بھر چوکسی کے عوض اپنے گھرانے کے لیے قوتِ لایموت کا انتظام کرنے والے لڑکے نے اسی وقت کو اپنا ٹوٹا تعلیمی سلسلہ جوڑنے میں برتا۔ تھڑوں اور گلیوں میں ٹمٹماتے چراغ علم کے اس پیاسے کے رہنما ہوگئے، اور وہ تعلیمی مدارج طے کرتا آگے بڑھتا گیا۔ وہ کیسی پیاس تھی کہ اپنا ظرف بھرنے کے بعد ساقی بنا علاقے بھر میں تعلیم کے جام لنڈھانے چل نکلا۔ ایک ادارہ قائم ہوا، دوسرا، تیسرا… دفتر شاہی کے فیتوں سے الجھتا، اکھڑ لوگوں کو تعلیم کی اہمیت سمجھاتا، داخلوں کے لیے قائل کرتا، اپنا راستہ بناتا اس وقت بھی نہیں گھبرایا جب اس کا سب اثاثہ قومیا لیا گیا۔ وہ رخ بدل کے بہتا رہا، بڑھتا اور چڑھتا رہا، اور ایک سے پچیس اداروں تک جا پہنچا۔ وہ ساہوکار نہیں تھا۔ روحانی باپ تھا۔ ستّاسی سالہ حیات میں اس کا دامن دنیا بھر میں پھیلے ہیرے موتیوں سے بھرا تھا۔
اس لڑکے کو وڈّا بنانا قسامِ ازل نے لکھا تھا جو انتہائے جوانی میں اس کی پیاری بیوی، پانچ ننھے بچوں کی ماں بیمار رہ کے مالک کے حضور حاضر ہوگئی۔ میں پوچھنا چاہتی تھی کہ موت، خوف، بھوک، سلطنت کے جبر کا مقابلہ کرنے والا قدرت کے اس وار کو سہتے ہوئے کیسے بلبلایا ہوگا؟ اس نے کتنے برس شکوہ کرنے اور اپنی حالت کا ماتم کرنے میں لگائے؟ وہ کون سی قوت تھی جو وہ مسکراتے ہوئے ہاتھ جھاڑتا تھا اور منزل کی جستجو میں بڑھ جاتا تھا؟ جھنگ کے اُس وڈے ماسٹر کا چائلڈ ہڈ ٹراما، اڈولسنس اسٹریس سے ہوتا ہوا کمپلیکس ٹراما میں کیوں نہیں بدلا؟ اس نے کون سی ریمیڈی، کون سی اسٹرینتھ ملٹی پلائی کی تھی کہ وقتِ رخصتی دنیا کے سات براعظموں میں پھیلے اس کے ہزاروں بچے آنسو بہاتے چلے آرہے تھے؟ اس کے ایک درجن صلبی بچے حیران تھے کہ ان کا نقصان زیادہ ہے یا اُس کا جو ڈپلومیٹک آن بان بھول کے روتا تھا اور کہتا تھا کہ میں گلیوں میں آوارہ پھر کے نشہ کیا کرتا اگر اک گوہر تاب دار مجھے غزالی ایجوکیشن کی آغوش کے سپرد نہ کرتا۔ میں اُس روز جھنگ کے سرسید کی پروردہ جانِ پدر،نورِ چشم کے سامنے سراپا سوال تھی کہ وہ لب کھولے، قلم کو ریڑھ دے، اس کے ابا کو طاقت کس نظریے نے پہنچائی؟ ان کی قوت کون سی صحبت تھی؟ کیوں نا وہ ایک محنت کش سے وڈے ماسٹر بننے کا سفر رقم کرے؟ وہ ماسٹر جس کی ڈیفالٹ پروگرامنگ، عرش کو چیرتی، پٹیالے کی خون آلود فضا میں اُبھری اک ماں کی صدا کے جواب میں پرماننٹ فیڈ ہوگئی تھی ۔
مصنفہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں شعبہ اصول الدین میں پروفیسر ہیں اور تحریکِ اسلامی کی رہنما محترمہ ام کلثوم کی صاحبزادی ہیں۔
(بہ شکریہ: اردو ڈائجسٹ)