پروفیسر گوہر صدیقی ایک عظیم شخصیت تھے۔ گلدستۂ تحریکِ اسلامی میں ان کا ممتاز مقام تھا۔ وہ سید مودودیؒ کے اُن ساتھیوں میں سے تھے جنھوں نے تحریکِ اسلامی کے قافلے میں شمولیت اختیار کی تو تمام کشتیاں جلا کر آئے، پھر مڑ کر کبھی اِدھر اُدھر نہیں دیکھا۔ زندگی بھر یکسوئی کے ساتھ جانبِ منزل رواں دواں رہے۔ پروفیسر گوہر صدیقی صاحب سے راقم کا نیازمندانہ تعلق 1967ء میں اُس وقت قائم ہوا جب آپ جماعت کی مرکزی و صوبائی شورائوں میں شرکت فرمایا کرتے تھے۔ راقم اُس وقت اسلامی جمعیت طلبہ لاہور میں مختلف ذمہ داریوں پر خدمت سرانجام دے رہا تھا۔ بعد میں لاہور جمعیت کی نظامت اور مرکزی مجلس شوریٰ کی رکنیت کے دوران گوہر صدیقی صاحب کی سرپرستی و رہنمائی ہمیشہ حاصل رہی۔
جب بھٹو کے دور میں تعلیمی ادارے قومیا لیے گئے، تو گوہر صدیقی صاحب تنظیمِ اساتذہ میں سرگرمِ عمل ہوئے، مگر اس کے ساتھ انھوں نے جماعت اسلامی کی تنظیم میں بھی اپنی مہارت و قابلیت سے بے پناہ خدمات سرانجام دیں۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد جب میں جماعت اسلامی کا رکن بنا، تو گوہر صاحب کے ساتھ نیازمندانہ تعلق بے تکلفانہ دوستی میں تبدیل ہوگیا۔ گوہر صاحب کے خطابات کئی تربیت گاہوں میں سنے اور ان سے بہت کچھ حاصل کیا۔ مجھے بھی تربیت گاہوں میں گفتگو کی دعوت دی جاتی تھی۔ جن بزرگوں نے ہمیشہ حوصلہ افزائی کی اُن میں گوہر صاحب بھی شامل تھے۔ کئی مرتبہ اکٹھے سفر کا موقع ملا اور انھیں ہر حال میں ایک عظیم انسان پایا۔ یوں سمجھیں کہ گوہر صاحب سے تعلق نصف صدی سے زیادہ عرصے پر محیط رہا۔
راقم الحروف بیرونِ ملک بارہ سال گزارنے کے بعد 1985ء میں امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد صاحب کے حکم سے پاکستان واپس آیا۔ آتے ہی مرکز میں نائب قیم کی ذمہ داری لگائی گئی۔ مجھے دفتر سے زیادہ فیلڈ میں کام کرنے کا حکم ملا۔ ملک بھر کے اضلاع میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اُس زمانے میں جھنگ بار بار حاضری ہوئی۔ اُس دور میں جناب گوہر صاحب نہایت کامیابی کے ساتھ اپنے تعلیمی ادارے غزالی اسکولز و کالج کے نام سے منظم کرچکے تھے۔ ان اداروں میں آپ کا تحرک قابلِ دید تھا، مگر اس کے ساتھ جماعتی و تحریکی ذمہ داریوں میں بھی کبھی کوتاہی نہ کی۔ بعد میں جب مجھے قاضی حسین احمد مرحوم کی امارت کے دوران 1991ء میں امارتِ صوبہ پنجاب کی ذمہ داری دی گئی، تو اب پہلے سے بھی زیادہ میدان میں متحرک ہونا پڑا۔ اس دوران کئی اضلاع کے تربیتی پروگراموں میں میری تحریک پر گوہر صدیقی صاحب بھی ہمارے ساتھ شرکت فرماتے رہے۔ ان کا اندازِ گفتگو بہت دھیما، مدلل اور دل میں اترنے والا ہوتا تھا۔ گفتگو میں اشعار بھی برموقع استعمال کرتے، اور موقع محل کے مطابق پُرلطف مزاح سے بھی سامعین کو محظوظ فرماتے۔
اُس دور میں راقم دفتر میں کم اور مختلف علاقوںمیں زیادہ وقت گزارتا۔ جھنگ کے دورے میں اس عرصے میں گوہر صاحب اپنے گھر میں قیام کا بندوبست کرتے۔ اگرچہ بعض دیگر دوستوں کے ہاں بھی کئی مرتبہ قیام رہا، مگر زیادہ تر ہمارے میزبان گوہر صاحب ہی ہوتے تھے۔ کئی مرتبہ وہ اپنے بچپن کے واقعات، قیامِ پاکستان کا پس منظر اور اس چھوٹی سی عمر میں ہجرت سے قبل اور ہجرت کے دوران آزمائش و ابتلا کا تذکرہ کرتے تو سامعین کی آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ آزادی اور ہجرت کے وقت گوہر صاحب کی عمر چودہ سال کی تھی۔ اس عمر میں باپ اور چھوٹے بھائی کی شہادت کا سانحہ پیش آیا، تو اپنی والدہ اور دو چھوٹی بہنوں کے ساتھ سفرِ ہجرت کا ایک ایک لمحہ قیامت سے کم نہ تھا۔ خود گوہر صاحب شدید زخمی بھی ہوئے تھے اور حملہ انتہائی مہلک تھا۔ ایک گولی بازو کے آرپار ہوگئی تھی، مگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو اس زخم سے شفا عطا فرمائی۔
اپنی وفات سے چند سال قبل ایک مرتبہ منصورہ تشریف لائے، تو میں نے درخواست کی کہ آپ کچھ پرانی یادیں احباب کو سنائیں۔ مرکزِ جماعت کے کمیٹی روم میں ہم لوگ بیٹھ گئے۔ سات آٹھ ساتھی اس مجلس میں شریک تھے۔ میرا پوتا طلحہ ادریس بھی اس مجلس میں حاضر تھا۔ جب گوہر صاحب نے کسی دوست کی درخواست پر اپنے بازو سے قمیص ہٹاکر زخموں کے نتیجے میں بن جانے والے گڑھے دکھائے، تو آپ پر گزرنے والی ابتلا کا سب کو اندازہ ہوا، اور احباب کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اللہ اپنے بندوں کو آزمائشوں میں ڈال کر ان کو کندن بناتا اور پھر ان کے صبر و استقامت پر جنت کا مستحق قرار دیتا ہے۔
پاکستان کی طرف ہجرت سے قبل گوہر صاحب کے گائوں میں جو قتل ِ عام ہوا، اس کے نتیجے میں ان کے گھر کا پورا صحن اور گلی مسلمانوں کی لاشوں سے بھر گئی تھی۔ گوہر صاحب کے والد پولیس میں تھانیدار تھے۔ وہ خود اور گوہر صاحب کا چھوٹا بھائی ادریس شہید ہوگئے تھے۔ گوہر صاحب کے بازو میں جو گولی لگی وہ ایک جانب سے لگ کر دوسری جانب نکل گئی تھی۔ اس زخم کی تکلیف کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ نہ کوئی علاج معالجہ میسر تھا، نہ مرہم پٹی کی سہولت حاصل تھی۔ اسی حال میں قافلہ موت کے سائے اور بھوک کی شدت کے ساتھ پاکستان کی طرف بڑھتا رہا۔ قدم قدم پر موت کا خطرہ درپیش تھا، بالآخر یہ قافلہ پاکستان کی حدود میں داخل ہوا اور گوہر صاحب کے بقول جھنگ کے قصبے شاہ جیونہ کے ریلوے اسٹیشن پر گاڑی سے اترا۔ یہاں پر نہ کوئی جان پہچان تھی نہ ٹھکانہ۔ آخر مہاجرین کو مختلف متروکہ گھروں میں ٹھیرایا گیا۔ ایک چھوٹے سے کچے جھونپڑے میں گوہر صاحب کے خاندان کو بھی رہائش مل گئی۔
کچھ سامان تو سب خاندانوں کو دے دیا گیا، مگر راشن وغیرہ حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو ایک قطار میں کھڑا ہونا پڑتا تھا۔ گوہر صاحب کے بقول وہ قطار میں کھڑے تھے اور زخم کی وجہ سے سخت تکلیف میں تھے۔ اچانک ایک شخص نے انھیں دیکھ لیا۔ یہ ان کے والد صاحب کے ساتھ بطور سپاہی کام کرنے والا شخص تھا جو جھنگ کا رہنے والا تھا۔ اسے مہر کہہ پکارا جاتا تھا۔ اس نے آپ کو دیکھا تو پہچان لیا اور آواز دے کر کہا ’’او خورشید! تھانیدار صاحب کہاں ہیں؟‘‘ گوہر صاحب نے اسے سارا واقعہ بتایا، تو وہ بہت آزردہ ہوا۔ وہ اس علاقے کے بڑے زمیندار اور سیاست دان کرنل عابد حسین شاہ کا خاص کارندہ تھا۔ کرنل عابد کی حیثیت یہاں ایک حکمران کی تھی۔ اس نے کرنل صاحب سے بات کی، تو انھوں نے ایک بڑے گھر میں رہائش کے لیے انتظام کیا، پھر وہ خود گوہر صاحب کے جھونپڑے میں تشریف لائے۔ گوہر صاحب کی والدہ نے کہا کہ ہمارے لیے یہی گھر ٹھیک ہے۔ یہاں ہمارے ساتھ ہجرت کرنے والے بہت سے لوگ اردگرد رہتے ہیں۔ ان کی ہمسائیگی کو چھوڑ کو کہیں اور جانا مناسب نہیں لگتا۔
گوہر صاحب کے زخم کی مرہم پٹی کرنے والا ڈسپنسر کہنے لگا کہ بازو کاٹنا پڑے گا۔ یہ سن کر گوہر صاحب نے فیصلہ کیا کہ اس سے آئندہ پٹی نہیں کرائوں گا۔ بہرحال علاج معالجہ ہوتا رہا اور اللہ نے زخم ٹھیک کردیا، مگر اس کا نشان آخر تک ایک گڑھے کی صورت میں بازو پر موجود رہا۔ کئی صحابہ کرامؓ کے واقعات میں بھی یہ بیان ہوا ہے کہ جہاد کے میدانوں میں ان کے بازو یا ٹانگوں پر ایسے زخم لگے تھے کہ جن کے مندمل ہوجانے کے بعد گڑھے باقی رہ گئے تھے۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ کے ایک ایسے ہی زخم کی باقیات سے ان کے چھوٹے بچے ان کی گود میں بیٹھ کر کھیلا کرتے تھے۔ گوہر صاحب نے یہاں اسکول میں داخلہ لیا اور پھر مشکل حالات میں تعلیم کی منزلیں طے کر تے چلے گئے۔ اللہ نے کامیابیوں کے دروازے کھولے اور اپنے اس یتیم و مہاجر بندے کو اعلیٰ مقام تک پہنچایا۔ وہ دوسروں کے لیے صدقۂ جاریہ بنے اور انھوں نے بے شمار بے سہارا نوجوانوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کیا۔
گوہر صاحب نے اس نشست کے اندر بہت سی باتیں بتائیں۔ آپ کی نانی اماں اور ماموں بھی ہجرت کرکے آئے تھے، لیکن ان کا اتاپتا نہیں تھا۔ آخر ماموں سے کسی طرح رابطہ ہوا، تو انھوں نے بتایا کہ ان کی والدہ گجرات میں مقیم ہیں۔ گوہر صاحب اپنے ماموں کے ساتھ ریل میں سفر کرتے ہوئے ڈِنگہ اور پھر گجرات پہنچے۔ نانی اماں سے ملاقات ہوئی اور یہاں گوہر صاحب نے پہلی بار خوب صورت پشاوری چپل خریدی۔ آپ کی والدہ اور بہنیں جھنگ میں مقیم تھیں۔ اب نانی اماں اور دوسرے رشتہ دار بھی جھنگ میں آگئے۔ گوہر صاحب کی بہت سی باتیں اس وقت ذہن میں نہیں ہیں۔ ہر واقعہ اتنا دلچسپ تھا کہ وقت گزرنے کا ہمیں احساس ہی نہ ہوا۔ اللہ اس عظیم بندے کی آزمائشوں اور کاوشوں کا بہترین اجر اسے عطا فرمائے۔
گوہر صاحب دو شخصیات کا تذکرہ اپنی یادداشتوں کو بیان کرتے ہوئے کیا کرتے تھے۔ ایک مولانا محمد بخش مسلم، اور دوسرے حضرت قاضی محمد سلیمان سلمان ؔ منصور پوری۔ راقم الحروف کو بھی ان دونوں شخصیات سے ایک قلبی تعلق رہا ہے۔ میں نے بچپن میں سیرت کے موضوع پر سب سے پہلی کتاب قاضی منصور پوریؒ کی ’’سیرتِ رحمت العالمینؐ‘‘ جلد اوّل پڑھی تھی۔ اس کتاب نے مجھے اس موضوع کا عاشق بنا دیا۔ پھر زندگی بھر اسی کوچے میں دل لگایا۔ دوسری شخصیت مولانا محمد بخش مسلم کے ساتھ دورِ طالب علمی میں یہ تعلق رہا کہ اُن کا خطبہ سننے کے لیے کبھی کبھار اپنے ہوسٹل، اسلامیہ کالج روڈ سے مسلم مسجد میں جمعہ پڑھنے کے لیے جایا کرتا تھا۔ وہ پُرجوش خطیب تھے، جن کے خطبے سے ایمان تازہ ہوتا تھا۔ گوہر صاحب کے بقول منصور پوری صاحب نے ان کی پیدائش پر ان کو دم کیا اور گھٹی بھی دی۔ مولانا مسلم صاحب تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن اور شعلہ نوا مقرر تھے۔ یہ دونوں شخصیات نابہ اور پٹیالہ کی ریاستوں میں بہت معروف تھیں۔ منصورپوری صاحب پٹیالہ میں جج تھے۔ مسلم صاحب کے تحریکِ پاکستان کی حمایت میں خطابات سن کر گوہر صاحب نے بچپن ہی سے ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘ اور ’’بن کے رہے گا پاکستان‘‘ کے عنوانات سے اپنے ہم عمر بچوں میں تقریریں شروع کردی تھیں۔
تحریک ِاسلامی میں ہماری باہمی دوستیاں خالصتاً اللہ کے لیے ہوتی ہیں اور حقیقت میں یہی حقیقی دوستی ہے۔ ہم نہ کسی لالچ اور مفاد کی وجہ سے دوستی قائم کرتے ہیں، نہ وقتی مصالح اور مادی منافع پیشِ نظرہوتا ہے۔ اس دوستی کی بنیاد اخلاصِ نیت اور حُبِ الٰہی کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ گوہر صاحب اپنے محلے کی مسجد میں خطبۂ جمعہ دیا کرتے تھے۔ میں جب بھی جمعہ کے روز کبھی گیا تو اصرار کے ساتھ فرمائش کرتے کہ خطبۂ جمعہ میں دوں۔ میں کہتا کہ جی چاہتا ہے آپ کا خطاب سنوں، مگر وہ اپنے مخصوص دھیمے اور محبت بھرے لہجے میں بزرگانہ حکم صادر کرتے، جس کی تعمیل سے مفرممکن نہ ہوتا۔ ان کی گفتگو سن کر عجیب لطف آیا کرتا تھا۔ اب ایسی شخصیات ناپید ہوتی جارہی ہیں۔
گوہر صدیقی صاحب بہت عرصہ مرکزی و صوبائی شوریٰ کے رکن رہے۔ شوریٰ کے اجلاسوں میں وہ ہمیشہ دانش مندانہ اور جچی تلی رائے دیا کرتے تھے۔ مرحوم نے سید مودودیؒ اور میاں طفیل محمدؒ کا دور دیکھا تھا۔ جماعت کے سارے اکابر سے آپ کا تعلق رہا۔ آپ کی یادداشت میں ایسے تاریخی واقعات محفوظ تھے کہ جب بیان کرتے تو تحریک کا سارا پس منظر آنکھوں کے سامنے تازہ ہوجاتا۔ ہر اجلاس میں ایجنڈے کے مطابق پوری تیاری کرکے تشریف لاتے۔ رائے کے اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے بعض دوستوں کے لہجے میں قدرے تلخی آجاتی ہے، مگر مرحوم اُن احباب میں سے تھے جو سخت بات بھی رسیلے لہجے اور شیریں انداز میں کہنے کا سلیقہ رکھتے تھے۔ ایسے لوگ ہی ہر مجلس کی شان اور اجتماعیت کی جان ہوتے ہیں۔
میں نے گوہر صدیقی کو ایک کھرا، بہادر، بے لوث اور ہمدرد رہنما پایا۔ جب آپ کے جنازے کے لیے میں مولانا عبدالمالک صاحب کی ہمراہی میں لاہور سے نکلا، تو سارے راستے یا تو زبان پر تلاوت رہی، یا دل میں اس عظیم مردِ مومن کی حسین یادیں۔ جب ہم جھنگ پہنچے، تو لوگوں کا ہجوم دیکھ کر یقین ہوگیاکہ جانے والادلوں کا حکمران تھا۔ ہم مغرب کی نماز سے قبل مرحوم کے تعلیمی ادارے کے وسیع لان میں پہنچے، تو جھنگ اور گردونواح کے اضلاع سے احباب کی بہت بڑی تعداد جنازے میں شرکت کے لیے آچکی تھی۔ جھنگ شہر سے ہر مکتبِ فکر کے قائدین و کارکنان، ہر سیاسی جماعت کے لیڈر اور عام لوگ، پروفیسر، ڈاکٹر، اعلیٰ افسران، مزدور اور کلرک سبھی جوق در جوق آرہے تھے۔
آج سب کو یہ معلوم ہوگیا کہ مرحوم محض جماعت اسلامی یا اپنے رشتہ داروں کا محبوب ہی نہیں تھا، وہ سبھی کے دلوں میں بستا تھا۔ گوہر صاحب نے بے شمار نوجوانوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا تھا۔ وہ سب اپنے استاد کے فراق میں بے ساختہ رو رہے تھے۔ عشا کی نماز کے بعد جب جنازہ اٹھا تو عجیب منظر تھا۔ جنازے کو کندھا دینے کے لیے لوگوں کی باری نہیں آرہی تھی۔ غزالی کیمپس کے قریب بہت وسیع و عریض ریلوے گرائونڈ میں روشنی اور سائونڈ سسٹم کا اہتمام کردیا گیا تھا۔ جب جنازے کے لیے صفیں بنیں تو وہ اتنی لمبی تھیں کہ پہلی صف کا دایاں اور بایاں حصہ ہمیں نظر نہیں آرہا تھا۔ آخر میں صفیں کہاں تک تھیں، کچھ اندازہ ہی نہ ہوسکا۔
جماعت اسلامی جھنگ کے قائد اور گوہر صاحب کے شاگردِ رشید مہر بہادر خان نے میرے متعلق اعلان کیا کہ جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما نمازِ جنازہ پڑھائیں گے، پھر انھوں نے جنازے سے قبل مختصر اظہار خیال کے لیے امیر جماعت اسلامی وسطی پنجاب محمد جاوید قصوری صاحب اور حضرت مولانا عبدالمالک صاحب کو یکے بعد دیگرے دعوت دی۔ ان دونوں رہنمائوں کے ایمان افروز خطابات میں مرحوم کی خوبیوں کو بہترین انداز میں اجاگر کیا گیا تھا۔ مولانا عبدالمالک صاحب نے بتایا کہ وہ چنیوٹ میں تدریس کا فریضہ ادا کرتے تھے کہ اس دوران گوہر صاحب ان کے پاس جماعت اسلامی کی دعوت لے کر پہنچے۔ انھوں نے اسعد گیلانی صاحب (امیر جماعت اسلامی فیصل آباد ڈویژن)کا سلام پہنچایا۔ پھر مسلسل رابطہ رہا تاآنکہ گوہر صاحب کے ساتھ جگری یار کا تعلق قائم ہوگیا۔
ان قائدین کے بعد مجھے جنازہ پڑھانے سے قبل تذکیر کی دعوت دی گئی۔ میں نے بھی اپنے برادرِ بزرگوار اور قائد محترم پروفیسر گوہر صدیقی کے بارے میں اپنی یادوں کا مختصر تذکر ہ کیا۔ تمام شرکاء کا شکریہ بھی ادا کیا۔ بالخصوص مختلف جماعتوں کے قائدین کا نام لے کر اظہارِ تشکر کے ساتھ معذرت کی کہ اس موقع پر خطابات کا زیادہ وقت نہیں، اِن شاء اللہ مرحوم کی یاد میں تعزیتی ریفرنس منعقد کیا جائے گا اور اس میں اپنے تمام قابلِ احترام مہمانوں کو اظہارِ خیال کا موقع ملے گا۔
مرحوم کی آخری زیارت کی تو بے ساختہ آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انتہائی پُرسکون چہرہ تسلی دے رہا تھا کہ اللہ کے راستے میں ساری زندگی جدوجہد کرنے والا اپنی منزل پہ کامیابی سے پہنچ گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی تمام حسنات کو شرفِ قبولیت بخشے اور حساب یسیر کے ساتھ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین!