زیر زمین بہت نیچے، سیکڑوں فٹ گہرائی میں، تقریباً ایک میل تہہ میں گرم چٹانیں ہیں، جن سے کاربن فری توانائی پیدا کی جاسکتی ہے۔ ہم انتہائی دباؤ سے پانی ان چٹانوں کی جانب دھکیلتے ہیں، جہاں یہ حدت جذب کرکے دوسرے سوراخ میں داخل ہوتا ہے، اور ٹربائن کو حرکت دیتا ہے یا کسی بھی دوسرے طریقے سے بجلی پیدا کرتا ہے۔
مگر جب اپنے قدموں تلے کی حدت سے ہم فائدہ اٹھاتے ہیں تو اس کے کچھ منفی پہلو بھی ابھر کر سامنے آجاتے ہیں۔ اس توانائی کی کثافت، اس توانائی کی مقدار جو فی اسکوئر میٹر حاصل کرتے ہیں، بہت کم ہے۔ اپنی شاندار کتاب Sustainable Energy—Without the Hot Air میں ڈیوڈ میکے تخمینہ لگاتا ہے کہ جیوتھرمل انگلینڈ میں توانائی کی دو فیصد ضرورت پوری کرسکتا ہے، اور اس توانائی کی منتقلی کے لیے ملک کے ہر اسکوئر میٹرکوکھودا جائے گا، وہ بھی مفت ڈرلنگ کے ذریعے۔ اس کے علاوہ یہ بھی گڑھا کھودنے کے بعد ہی پتا چلے گا کہ یہاں کچھ ملنے بھی والا ہے یا نہیں، آیا اس گڑھے سے کتنی توانائی کب تک میسر آسکے گی۔ چالیس فیصد کیے گئے گڑھے جیو تھرمل کے لیے بے کار ثابت ہوئے ہیں۔
جیو تھرمل دنیا بھر کے چند مخصوص حصوں میں ہی دستیاب ہے۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں غیر معمولی آتش فشانی ہو۔ اگرچہ ان مسائل کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جیو تھرمل دنیا بھر کی بجلی پیداوار میں کچھ قابلِ ذکر حصہ نہیں لے سکتا، مگر اس کے استعمال کو مرحلہ وار ایسے ڈھب پر لایا جاسکتا ہے، کہ جس میں یہ زیادہ سے زیادہ مفید بن جائے۔ کمپنیاں اس ضمن میں نئی ٹیکنالوجی اور ایجادات پر کام کررہی ہیں، یہ گزشتہ چند سالوں میں تکنیکی جدتوں کے ذریعے تیل اور گیس ڈرلنگ کے طریقہ کار میں بہت بہتری لاچکی ہیں۔ مثال کے طور پر چند کمپنیاں جدید سینسرز تیارکررہی ہیں جن سے جیو تھرمل کنووں کی تلاش آسان تر ہوچکی ہے۔ دیگر اُفقی ڈرل کے طریقہ کار پر بھی کام کررہی ہیں تاکہ جیوتھرمل وسائل کا محفوظ تر اور مؤثرکھوج لگاسکیں۔ یہ ایسی عمدہ مثالیں ہیں جوظاہر کرتی ہیں کہ قدرتی ایندھن کی صنعت کے لیے تیار کی جانے والی ٹیکنالوجی کس طرح صفر کاربن تک رسائی میں ہماری مدد کرسکتی ہے۔
بجلی کا ذخیرہ
بیٹریاں: میں نے اپنے گمان سے بہت بڑھ کر بیٹری کی تعلیم پر وقت صرف کیا ہے۔ اسٹارٹ اَپ بیٹری کمپنیوں پر بھرپور سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ لیتھیم بیٹریاں کہ جولیپ ٹاپ اور موبائل فون وغیرہ میں استعمال کی جاتی ہیں، ان میں بہتری لانا مشکل ہے۔ ماہرین مسلسل ایسی دھاتوں کا مطالعہ کررہے ہیں جو بیٹریوں کے لیے استعمال کی جاسکیں، اور ایسا لگتا ہے کہ وہ مواد ملنا مشکل ہے جو موجودہ بیٹریوں سے بہتر کوئی چیز سامنے لاسکے۔ مگر ہم ایک اچھے موجد سے اچھی توقع رکھتے ہیں۔ میں کچھ ایسے ذہین انجینئرز سے مل چکا ہوں، جو ایسی بیٹریوں پر کام کررہے ہیں جوایک شہر کی ضرورت کی بجلی ذخیرہ کرسکتی ہیں، انہیں ہم گرڈ اسکیل بیٹریاں کہتے ہیں۔ ایک ماہرایک ایسی بیٹری پر کام کررہا ہے جس میں ٹھوس دھات کے بجائے مائع دھات لگائی جارہی ہے، جیسا کہ روایتی بیٹریوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ خیال یہ ہے کہ مائع دھات بہت زیادہ اور مؤثر توانائی ذخیرہ کرنے کی سہولت دیتی ہے، خاص طورپر اُس وقت جب ہم پورے شہر کی بجلی مہیا کرنے کی کوشش کررہے ہوں۔ یہ ٹیکنالوجی لیب میں ثابت ہوچکی ہے، اور ماہرین کی ٹیم اسے سستا سے سستا تیار کرنے کی کوشش بھی کررہی ہے۔
دیگر بہت سے ماہرین flow batteries پربھی کام کررہے ہیں، جن میںطاقت ور سیال کو کئی ٹینکوں میں ذخیرہ کیا جاتا ہے، اور پھر ان سے باہم پمپنگ کے ذریعے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ جتنے بڑے ٹینک ہوں گے، اتنی زیادہ توانائی ذخیرہ کی جاسکے گی، اور اتنی بڑی بیٹری تیار ہوسکے گی۔
پمپ ہائیڈرو
اس طریقہ کار میں ایک شہر کی ضرورت کی توانائی ذخیرہ کی جاتی ہے۔ جب بجلی سستی ہوتی ہے، پانی کا بڑا ذخیرہ پہاڑ کی اونچائی پر محفوظ کیا جاتا ہے۔ اور جب توانائی کی مانگ بڑھ جاتی ہے، پانی نیچے چھوڑ دیا جاتا ہے، یہ ٹربائن گھماتا ہے، اور بجلی پیدا کرتا ہے۔ پمپ ہائیڈرو گرڈ اسکیل ذخیرہ کی سب سے بڑی شکل ہے۔ بدقسمتی سے یہ کچھ زیادہ مددگار نہیں۔ امریکہ کی دس سب سے بڑی تنصیبات پورے ملک کے لیے ایک گھنٹے سے بھی کم ضرورت کی بجلی مہیا کرسکتی ہیں۔ تم سمجھ سکتے ہو کہ کیوں یہ طریقہ ہاتھوں ہاتھ نہیں لیا جاسکا۔ پھر پانی پہاڑ پر چڑھانے کی صلاحیت ہونی چاہیے، اور پہاڑ بھی ہونے چاہیئں، جوظاہر ہے ہر جگہ ممکن نہیں۔
تھرمل ذخیرہ
یہاں یہ خیال کارفرما ہے کہ جب بجلی وافرہو، تم اسے جلانے کا کام بھی لے لیتے ہو، اور جب تمہیں زیادہ بجلی کی ضرورت پڑجائے تو تم یہ توانائی حرارت سے بھی حاصل کرلیتے ہو۔ انجینئرز جانتے ہیں کہ ایسی بہت سی اشیاء ہیں، جنہیں بہت کم توانائی کے ذریعے بہت دیر تک گرم رکھا جاسکتا ہے۔ یہ ایک امید افزا طریقہ ہے جس پر چند سائنس دانوں کی کمپنیاں کام کررہی ہیں، پگھلے ہوئے نمک میں حدت ذخیرہ کی جارہی ہے۔
دیگرجدتیں
کاربن پرقابوپانا: ایک صورت یہ بھی ہے کہ ہم ویسے ہی بجلی پیدا کرتے رہیں کہ جس طرح کررہے ہیں، لیکن کاربن کو کسی طرح قابو کرلیں۔ اسے کاربن پر قابو پانا اورمحفوظ کرنا کہتے ہیں۔ اس کے لیے قدرتی ایندھن پلانٹس پر خاص آلات نصب کیے جاتے ہیں، جوکاربن اخراج پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ آلات دہائیوں سے کام کررہے ہیں، مگر بہت مہنگے پڑتے ہیں، اور ان کے استعمال سے بجلی کمپنیوں کا کچھ بھی ذاتی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ اس وقت بہت ہی کم استعمال میں ہیں۔ اچھی پبلک پالیسیاں ان آلات کے استعمال میں تیزی لاسکتی ہیں۔ اس موضوع پر ہم دسویں اور گیارہویں باب میں تفصیل سے بات کریں گے۔ اس سے پہلے میں ایسے ایک آلےDAC کا ذکر کرچکا ہوں۔ مگر یہ ایک بہت بڑا تکنیکی چیلنج ہے۔
میں اس خیال کا اسیر رہا ہوں کہ بجلی کا مؤثر اور صاف ستھرا استعمال ’’ بدلتے موسم‘‘ میں دراڑ ڈال سکتا ہے۔ میں نے یہ خیال پوری طرح کبھی ترک نہیں کیا، مگرجب مجھے یہ معلوم ہوا کہ کس قدر زیادہ زمین اس کے لیے درکار ہوگی، تو میں نے اس مؤقف میں کچھ نرمی پیدا کرلی، خاص طور پر سورج اور ہوا سے بننے والی توانائی کے معاملے میں۔
بہرکیف، ہمیں ہر اُس چیز کی ضرورت ہے جو موسمی تباہی سے کسی بھی درجے میں دنیا کوتحفظ دے سکے۔ جو بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں ، وہ یہ ہے کہ ہمیں ایسے ٹھوس منصوبوں کی ضرورت ہے جونئے پاور گرڈ تعمیر کرسکیں، جو قابلِ استطاعت صفر کاربن پائیدار بجلی پیدا کرسکیں۔ اگر کوئی جن میری ایک خواہش پوری کرنا چاہے تو میں اُسے ’’بدلتے موسم‘‘ کے خلاف کاربن سے پاک بجلی بنانے کا حکم دوں! کیونکہ یہ طبیعاتی معیشت سے کاربن کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔