مرکزی قیادت کے ہمراہ سراج الحق کا دورئہ راولپنڈی

ملکی ترقی کے لیے جماعت اسلامی واحد آپشن ہے

جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق، سیکرٹری جنرل امیرالعظیم، نائب امیر لیاقت بلوچ، میاں اسلم، راشد نسیم، پروفیسر ابراہیم، ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی، اسد اللہ بھٹو، ڈاکٹر فرید پراچہ، جماعت اسلامی شمالی پنجاب کے امیر ڈاکٹر طارق سلیم اور دیگر مرکزی عہدیداروں اور صوبائی عہدیداروں نے راولپنڈی کا دورہ کیا۔ تین روزہ دورے کے دوران راولپنڈی میں قومی اسمبلی کے 7 اور صوبائی اسمبلی کے13 حلقوں واہ کینٹ، مری، گوجر خان، کلر سیداں سمیت دیگر حلقوں میں جماعت اسلامی راولپنڈی کی جانب سے کارکنوں کے علاوہ تاجروں اور ہر شعبہ زندگی کے کاروبار سے وابستہ افراد سے جماعت اسلامی کے مرکزی رہنمائوں اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی براہِ راست ملاقاتیں کرائی گئیں، جس کا مقصد ان کے مسائل معلوم کرنا اور انہیں جماعت اسلامی کے ملکی سیاست میں قومی کردار سے براہِ راست آگاہی فراہم کرنا تھا۔ راولپنڈی کی تحصیل کی سطح پر بھی پروگرام ہوئے۔ راولپنڈی پنجاب کا بہت ہی اہم ضلع اور سیاسی اہمیت کے اعتبار سے اہم شہر ہے۔ متعدد اہم تاریخی واقعات کے باعث اس کی سیاسی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان، پہلی خاتون سابق وزیراعظم اسی شہر میں قتل ہوئیں۔ پیپلزپارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو اسی شہر میں پھانسی دی گئی۔ جی ایچ کیو اسی شہر میں موجود ہے۔ کاروبار کے لحاظ سے آزاد کشمیر اور کسی حد تک کے پی کے کی مارکیٹوں کے لیے یہ بڑی منڈی ہے۔ گیس، تیل اور دیگر معدنیات یہاں دفن ہیں۔ راولپنڈی کی سرحد پر جہلم کے ساتھ یہاں دنیا کا سب سے بڑا ڈیم منگلا ڈیم ہے۔ گویا سیاسی، جغرافیائی اور کاروباری لحاظ سے یہ شہر کسی تعارف کا محتاج نہیں، اور نہ سیاسی لحاظ سے کم اہمیت کا حامل ہے۔ اسی لیے یہاں جماعت اسلامی کے مرکزی رہنمائوں کے تین روزہ دورے کی اہمیت اور دورے کے اثرات اور نتائج اہمیت کے حامل ہیں۔ جماعت اسلامی راولپنڈی کے امیر سید عارف شیرازی اور سیکرٹری عثمان اکاش، نائب امراء، سیکرٹری اطلاعات ملک محمداعظم کے علاوہ شہر کے ارکان اور کارکنوں نے خوب محنت کی۔ الخدمت فائونڈیشن، این ایل ایف، تنظیم اساتذہ، شعبہ خواتین، جماعت اسلامی یوتھ، جے آئی لیبر، وکلاء، نوجوانوں، مقامی رہنمائوں کے وفود، اسکولوں اور شادی ہالوں کی تنظیم کے نمائندوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ اس دورے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے حتی الامکان کوشش کی گئی کہ جماعت اسلامی کے مرکزی نظم کے وقت کو زیادہ سے زیادہ موثر استعمال میں لایا جائے، یہی وجہ تھی کہ الخدمت فائونڈیشن اور پریم یونین نے بھی یہاں اپنے پروگرامات شامل کیے تاکہ ہر شعبہ مرکزی نظم کی نگاہوں میں لایا جاسکے اور ان شعبوں میں بہتر منصوبہ بندی کے لیے لائحہ عمل ترتیب دیا جاسکے۔ اس دورے سے کارکنوں میں ایک تحریک پیدا ہوئی اور یقیناً متعدد تجاویز، سفارشات بھی منظوری کے عمل سے گزری ہوں گی اور فیصلے بھی کیے گئے ہوں گے۔ تاہم اس دورے کا سب سے بڑا فائدہ بہترین فالو اپ کے ذریعے ہی مل سکتا ہے۔
تین روزہ دورے کے دوران جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی کارکنوں، ارکانِ جماعت، تاجروں، رئیل اسٹیٹ سے وابستہ افراد، اساتذہ، اور سیاسی کارکنوں سے براہِ راست ملاقاتیں ہوئیں۔ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بہت پریشان دکھائی دیے، اور اس دوران اُن کی گفتگو کے مرکزی نکات یہی رہے کہ موجودہ حکومت کے تین سالوں میں مہنگائی و بے روزگاری میں اضافہ اور مافیاز کی گرفت مزید مضبوط ہوئی، ادویہ کی قیمتوں میں بارہویں دفعہ اضافہ مافیاز کو ہی نوازنے کا تسلسل ہے۔ آٹا، چینی، پیٹرول، ڈرگ و لینڈ مافیاز نے باری باری ملک کو نچوڑا۔ سراج الحق نے پاناما کیس کا خاص ذکر بھی کیا کہ وزیراعظم عمران خان جن مجرموں کے خلاف سپریم کورٹ میں گئے تھے، چاہیے تھا کہ ان434 ملزموں کے خلاف کارروائی ہوتی، مگر ان میں سے بیشتر آج عمران خان کی حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں، پاکستان میں مافیاز نے 22 کروڑ عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن میں کس بات کی صلح کرائیں! دونوں ذاتی مفادات کے لیے برسرپیکار ہیں۔ ملک کا اہم ترین شہر راولپنڈی منشیات فروشی کا گڑھ بن گیا ہے۔ منشیات کے بڑے بڑے اڈے چلائے جارہے ہیں۔ سراج الحق نے شہریوں سے کہا کہ آئندہ انتخابات میں جماعت اسلامی ہر حلقے میں اپنا امیدوار اتارے گی، عوام انہیں ووٹ دیں، ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے جماعت اسلامی واحد اور بہترین آپشن ہے۔
اس دورے کے دوران مختلف پروگراموں میں ملک کی سیاسی اور اس خطے کی صورت حال پر بھی گفتگو ہوتی رہی۔ سراج الحق نے افغانستان کے حوالے سے طالبان سے اپیل کی کہ وہ افغان شہروں میں پُرامن طریقے سے داخل ہوں، جماعت اسلامی افغانستان میں امن کے لیے کردار ادا کرتی رہے گی۔
تین روزہ دورے کے اختتام پر میڈیا کے نمائندوں سے ملاقات میں اس دورے کا جائزہ پیش کیا گیا۔ سراج الحق نے بتایا کہ جہاں جہاں بھی گئے اور جس شہری سے بھی ملاقات ہوئی اندازہ یہی ہوا کہ پی ٹی آئی حکومت میں عوام مہنگائی کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ ادویہ کی قیمتوں میں 50 تا 300 گنا اضافہ ہوچکاہے۔ آٹا، چینی، پیٹرول، ڈرگ اور لینڈ مافیاز باری باری اربوں روپے عوام کی جیبوں سے نکلوا چکے ہیں۔ راولپنڈی کی صورت حال انتہائی افسوس ناک ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگاری سے تنگ آکر ڈگریاں جلا رہے ہیں۔ اسکولوں کی طالبات تک منشیات سے محفوظ نہیں ہیں۔ شہری صاف پانی سے محروم ہیں۔ بارش کے بعد سیوریج کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے جگہ جگہ بدبودار گندا پانی جمع ہے۔ شہر میں گھٹن کا ماحول ہے۔ شادی ہالوں کے 80 لاکھ لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ یہی حال تعلیمی اداروں کا ہے۔ بندشوں کا سارا نزلہ غریب عوام پر گرا ہے، عوام کرب میں مبتلا ہیں جبکہ کورونا اقتصادی پیکیج بڑے بڑے سرمایہ داروں کے کارخانوں کو دے دیا گیا، یا پھر انتظامی اخراجات پر اڑا دیا گیا۔
مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقاتوں کے دوران ملک میں احتساب کے عمل پر بھی گفتگو ہوئی۔ سراج الحق نے کہا کہ ملک میں احتساب نہیں ہے بلکہ نیب خود قابلِ احتساب ہے۔ ہر دور میں مافیاز کی حکومت رہی، عام آدمی کے لیے سانس لینا مشکل ہوگیا ہے، ملک پر اس وقت تیس ہزار ارب روپے کے قرضے پینتالیس ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گئے جن کا سارا بوجھ عوام پر ہی ہوگا۔ حکومت سودی نظام کو بھی ختم نہیں کرسکی جس سے اس ملک کا نظریہ بھی محفوظ نہیں۔ اہم سیاسی کارکنوں نے ملاقات کے دوران گھریلو تشدد کے بل پر بھی اپنے تحفظات ظاہر کیے۔
تین روزہ دورے کے دوران الخدمت فائونڈیشن کے رازی ہسپتال کا بھی دورہ کیا گیا، جہاں ایک نئے بلاک کا افتتاح کیا گیا۔ اس موقع پر امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ الخدمت کا بنیادی مقصد مستحق افراد کو سستے اور قابل اعتماد علاج کی سہولت فراہم کرنا ہے۔ یہ کام عبادت سمجھ کر ہونا چاہیے۔ الخدمت فائونڈیشن پر شہریوں کا اعتماد ہی اصل سرمایہ ہے۔ اس تقریب میں الخدمت رازی ہسپتال کی مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین ابو عمیر زاہد نے ہسپتال کے پراجیکٹ سے متعلق بریفنگ دی۔ تقریب میں جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ، جماعت اسلامی شمالی پنجاب کے امیر ڈاکڑ طارق سلیم، جماعت اسلامی راولپنڈی کے مقامی رہنمائوں اور کارکنوں کے علاوہ فرینڈز آف الخدمت نے بڑی تعداد میں شرکت کی، ڈاکٹر عثمان ظفر نے درسِ قرآن پیش کیا۔
تین روزہ دورے میں شعبہ خواتین کی رہنمائوں اور کارکنوں سے بھی ملاقات کی گئی۔ اس موقع پر امیر جماعت اسلامی شمالی پنجاب ڈاکٹر طارق سلیم، صوبائی نائب ناظمہ رخسانہ غضنفر اور کوثر پروین بھی موجود تھیں۔ سراج الحق نے کہا کہ ملک میں حقیقی و انقلابی تبدیلی صرف جماعت اسلامی لاسکتی ہے۔ معاشرے میں قائم اور رائج باطل و باغی نظام سے اعلانِ برأت کرتے ہوئے اس کو چیلنج کرنا ہوگا۔ خواتین کا کردار ہر دور میں بہت اہم رہا ہے۔ خواتین ذمہ داران اور کارکنان اپنا دائرئہ کار وسیع کرتے ہوئے ہر گھر تک دعوت پہنچائیں۔ جے آئی یوتھ کی تنظیم کے عہدیداروں سے ملاقات میں کہا کہ میدان میں نکلیں، ظالم کے سامنے آہنی چٹان بن جائیں، ہم جمہوریت، سیاست، عدالت، پارلیمنٹ، تعلیم اور دیگر شعبوں میں قرآن و سنت کا نظام نافذ کریں گے۔
راولپنڈی پریس کلب میں جماعت اسلامی ضلع راولپنڈی حلقہ خواتین کے اجتماعِ ارکان اور یوتھ لیڈرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ کرپشن و ناانصافی ہر شعبے کے رگ و پے میں سرایت کرچکی ہے، ہر کسی نے خودغرضی اور مفاد پرستی کو اپنی ذات تک محدود کررکھا ہے۔ ملک کے بجائے اپنے خاندان اور مافیاز کو نوازا جاتا ہے۔ ملّی انحطاط نے ملک کو اپاہج کردیا ہے۔ اب فرد کی نہیں، نظام کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ بلدیاتی و عام انتخابات میں نوجوانوں کی بڑی تعداد کو ٹکٹ جاری کریں گے۔ نوجوان مایوس ہونے کے بجائے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے حکومت کا احتساب کریں، جماعت اسلامی اپنے اندر ایک مکمل جمہوری نظام رکھتی ہے۔ سراج الحق نے ارشد ندیم اور طلحہ طالب کو اولمپکس میں بہترین کارکردگی دکھانے پر مبارکباد دی اور کہا کہ ان نوجوانوں کی خصوصی طور پر رہنمائی و سرپرستی کی جانی چاہیے تاکہ آنے والے وقت میں بین الاقوامی سطح کے مقابلوں میں یہ پوزیشن حاصل کرسکیں۔
مقامی ہال میں بزنس کمیونٹی کے اعزاز میں ظہرانہ ہوا۔ جماعت اسلامی شمالی پنجاب کے امیر ڈاکٹر طارق سلیم نے خطاب کیا اور کہا کہ عوام اور تاجر تو ٹیکس دینے کے لیے تیار ہیں لیکن مسندِ اقتدارپر بیٹھے حکمران اس قابل نہیں کہ ان پر اعتماد کیا جاسکے۔ صدر چیمبرآف کامرس اینڈانڈسٹری محمدناصر مرزا، امیر ضلع سید عارف شیرازی، ضلعی صدر سیاسی کونسل رضا احمد شاہ، ضلعی سیکرٹری محمدعثمان آکاش سمیت دیگرعہدیداران نے بھی اس موقع پراظہارِ خیال کیا۔ وکلاء نمائندوں سے اپنی ملاقات میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا کہ ریاست کا استحکام قانون کی بالادستی سے مشروط ہے، مگر73برسوں میں ہمارے ہاں یہ تصور قائم نہیں ہو سکا۔ وجہ ملک پر مسلط ٹولہ ہے، پی ٹی آئی بھی اسی کنبے کا حصہ ہے۔ ملک میں طاقتور اور کمزور کی دو الگ دنیائیں ہیں، کروڑوں کی کرپشن کرنے والے قانون کو گھر کی لونڈی سمجھتے ہیں اور دندناتے پھرتے ہیں، مگر غریب ذرا سی غلطی پر سالوں جیل میں سڑتا ہے۔ وکلاء نمائندوںنے سراج الحق کو بتایا کہ اس وقت ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں 52ہزار، جب کہ چھوٹی عدالتوں میں 22لاکھ سے زائد کیس زیرالتواہیں۔
امیر جماعت اسلامی نے ہفتہ کو تاجروں اور وکلاء سے ملاقاتوں کے علاوہ گلزار قائد میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کے اجتماع سے بھی خطاب کیا اور کہا کہ ملک کی ڈسٹرکٹ اور ہائی کورٹس میں ججوں کی کُل تعداد 3ہزار کے قریب ہے جب کہ ایک ہزار سے زائد اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ انہوں نے پالیمانی کمیٹی کے ایک حالیہ اقدام کی تحسین کی جس میں کورٹ آف سول پروسیجر میں ایک شق کو کلیئر کرکے جائداد سے متعلق ایک کیس کا فیصلہ ایک سال کے اندر ہونے کی راہ ہموار کی گئی ہے۔
سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی امیرالعظیم نے ایک اجتماع سے خطاب کیا اور کہا کہ جماعت اسلامی شاید دنیا میں واحد مثال ہے جس کا دستور پہلے بنا اور جماعت کی تشکیل بعد میں ہوئی۔ سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بیعت کو دستور پر عمل درآمد کے عہد سے بدل دیا۔ جب کوئی جماعت اسلامی کا حلف اٹھاتا ہے تو باربار اس دستور کو دہراتا ہے۔ 80سال گزر گئے، تحریک اسلامی میں آج تک کوئی گروپ نہیں بنا۔ جماعت میں نہ تو کوئی موروثیت کا نظریہ ہے اور نہ ہی یہاں امیر غریب کو الگ الگ عینک سے دیکھا جاتا ہے۔
دخترانِ اسلام اکیڈمی مری میں جماعت اسلامی پنجاب وسطی کے زیراہتمام لیڈرشپ ٹریننگ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے امیرالعظیم نے کہا کہ نظم کی پابندی افراد کو رکنیت کے فرض تک پہنچاتی ہے۔ دستور کے مطابق جماعت کا نظام شورائی ہے۔ نظمِ جماعت کے لیے شخصی اہمیت کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس ورکشاپ سے امیر جماعت اسلامی وسطی پنجاب جاوید قصوری نے بھی خطاب کیا۔ نائب امیر جماعت اسلامی، سیکرٹری جنرل ملّی یکجہتی کونسل لیاقت بلوچ نے کہاکہ ملک سیاسی، پارلیمانی، جمہوری، سماجی، اخلاقی، معاشرتی بحرانوں سے دوچار ہے۔ قومی قیادت اور ریاستی ادارے اپنی اجتماعی غلطی تسلیم کرلیں کہ قیامِ پاکستان سے انحراف، آئین و نظامِ عدل سے انکار اور نظامِ تعلیم کو بے مقصد بنانے اور اس میں اغیار کی خواہشات کو ترجیح دے کر بڑی تباہی کو خود دعوت دی گئی ہے۔ معززین و موثر شخصیات سے گفتگو کرتے ہوئے لیاقت بلوچ نے کہا کہ پاکستان قدرتی اور انسانی وسائل سے مالامال ہے۔ سُود کی لعنت، قرضوں کے ناقابلِ برداشت بوجھ، کرپشن، اور احتساب کا شفاف نظام نہ ہونے کی وجہ سے کرپٹ مافیا اور عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنے والے گروہ منظم ہوئے اور قومی بحران گمبھیر ہوتے جارہے ہیں۔ شفاف انتخابات، پائیدار جمہوری پارلیمانی روایات کا فروغ ہی پاکستان میں استحکام لائے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے 3 سال حکومت کے بجائے اپوزیشن والا اسلوب اپنائے رکھا، اور اب وہ 2023ء کے انتخابات کی تیاریوں میں لگ گئے ہیں۔ حکومت کی اِس نااہلی، ناتجربہ کاری اور ناکامی کی وجہ سے قومی وحدت ٹوٹ پھوٹ گئی ہے، قومی سلامتی کو درپیش مسائل نظرانداز ہوگئے ہیں۔ قومی ڈائیلاگ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے ضروری ہے۔ حکومت ضد، انا، ہٹ دھرمی اور غیر ذمے دارانہ اسلوبِ حکمرانی ترک کرے اور ملک و ملت کے دُکھ درد کا احساس کرے۔ شہریوں کے دکھوں کا مداوا کرنے جماعت اسلامی کی قیادت راولپنڈی آتی رہے گی۔