جرم اور قانون شکنی سے دنیا کا کوئی بھی معاشرہ محفوظ نہیں۔ قانون کی پوری طرح بالادستی اسے کم تر سطح پر رکھتی ہے۔ جہاں سرکار، قانون نافذ کرنے والے ادارے، سیاسی جماعتیں، سماجی تنظیمیں ان برائیوں کے خلاف ایسے مؤقف کی حامل ہوتی ہیں کہ جس سے معاشرے کے اندر جرم کے لیے کسی طرح کی حمایت کا شائبہ نہیں ہوتا اُس معاشرے میں عمومی طور پر منظرنامہ بہت مختلف ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں سیاسی و سماجی طبقات، اقتدار کے حامل افراد، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مبینہ ترجیحات کے باعث جرائم پیشہ افراد کی معاونت ہوئی ہے۔ علی الخصوص بلوچستان کے اندر مختلف پہلوئوں سے مختلف النوع جرائم کو شہ ملی ہے۔ بڑے سیاسی خاندانوں کے افراد قومی شاہراہوں پر ڈکیتیوں، لوٹ مار، اغوا برائے تاوان سمیت مختلف جرائم میں ملوث رہے ہیں۔ صوبے کے اندر پُرتشدد سیاست کو مختلف سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی حاصل رہی ہے، بلکہ ہنوز حمایت کے رنگ و جذبات پائے جاتے ہیں۔ فرقوں کی بنیاد پر تخریب کاری و دہشت گردی اور ہدفی قتل کے واقعات کو بھی سیاسی حمایت حاصل رہی۔ پُرتشدد سیاست کرنے والوں کی جانب سے ہدفی قتل، بم دھماکوں، تنصیبات کی تباہی اور سرکار کی تاوان کی غرض سے اغوا کی وارداتوں پر خاموشی دراصل ان کی حمایت ہے۔ بھاری رقومات کے حصول کے لیے لوگوں کو اغوا کیا جاتا ہے۔ اس میں وہ لوگ و گروہ بھی پیچھے نہیں جنہیں سرکار کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ اس مجموعی صورتِ حال میں سیاست دان، اساتذہ، وکیل، جج، ڈاکٹر، بیوروکریٹ، تاجر، کمسن بچے اور مزدور سمیت ہر طبقے کے لوگ نشانہ بن چکے ہیں۔ امریکی شہری ’’جان سلوکی‘‘ جو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین سے وابستہ تھے اور کوئٹہ میں متعین تھے، دن دہاڑے چمن ہائوسنگ سوسائٹی سے اٹھائے گئے۔ یہ سن2009ء کی بات ہے۔ طویل عرصہ اغوا کاروں کے چنگل میں رہے۔ رہائی کے بدلے بھاری رقم ادا کی گئی تو رات کی تاریکی میں مستونگ کے علاقے کھڈ کوچہ میں قومی شاہراہ کے قریب انگور کے باغ میں پھینکے گئے۔ جان سلوکی کے اغوا میں بلوچ عسکریت پسند گروہ ملوث تھا۔ سن 2013ء میں ایران سے کوئٹہ آنے والی چیک ری پبلک کی دو سیاح خواتین کے اغوا کی شرمناک واردات ہوئی۔ طویل عرصہ یہ خواتین قید رہیں۔ آخرکار مارچ2015ء میں ان کے ملک کی طرف سے تاوان کی بھاری رقم کی ادائیگی کے بعد انہیں رہائی ملی۔ اس فعل میں البتہ کسی بلوچ عسکریت پسند کے بجائے قدموں کے نشان حُبِ پاکستان کا نعرہ لگانے والے گروہ کی طرف جاتے پائے گئے۔ مئی 2017ء میں کوئٹہ کے پوش علاقے جناح روڈ سے چینی جوڑے کا دن کی روشنی میں اغوا ہوا۔ فوج، لائٹ بٹالین کمانڈوز اور دیگر سیکورٹی فورسز نے کوئٹہ کے جنوب میں ضلع مستونگ کے پہاڑی سلسلے اسپلنجی میں داعش کے سندھ و بلوچستان چیپٹر کے بڑے کیمپ کے خلاف آپریشن کیا۔ درجن سے زائد دہشت گرد مارے گئے، گرفتاریاں ہوئیں۔ چند بحفاظت نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ اس دوران دہشت گردوں نے چینی جوڑے کو قتل کردیا۔ اغوا برائے تاوان میں ملوث بعض مارے جانے والے افراد کو بعض سیاسی حلقے گوریلا کمانڈر کے خطابات دے چکے ہیں۔
یہاں ستم ظریفی یہ بھی دیکھنے کو ملی ہے کہ جرم کے اس تسلسل میں جانچے پرکھے بغیر ملکی اداروں پر الزام دھر دیے جاتے ہیں خواہ تفتیشی و تحقیقی ادارے کسی نتیجے پر پہنچے بھی نہ ہوں۔ یہ حضرات سیاسی مقاصد کے تحت فیصلے صادر کردیتے ہیں۔ ستمبر2020ء میں عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی سیکریٹری اطلاعات اسد اچکزئی چمن سے کوئٹہ جاتے ہوئے لاپتا ہوگئے تھے، جس کے فوراً بعد ہی مقامی و اعلیٰ قیادت نے حسبِ روایت ملبہ اداروں پر ڈالا۔ پھر ہوا یہ کہ کسی جرم میں پولیس کے ہتھے مستونگ لیویز کا سپاہی چڑھا۔ اس شخص سے گاڑی بھی برآمد ہوئی۔ تحقیق پر پتا چلا کہ گاڑی لاپتا اسد اچکزئی کی ہے۔ ملزم نے دورانِ تفتیش مان لیا کہ اس نے اسد اچکزئی کو قتل کرکے لاش کوئٹہ کے علاقے نوحصار میں کنویں میں پھینک دی ہے۔ ان کا قتل گاڑی چھیننے کے لیے کیا تھا۔ ملزم پر اس وقت مقدمہ چل رہا ہے۔ چناں چہ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر سابق سینیٹر عثمان خان کاکڑ کے انتقال کے دو یا تین دن بعد قائم کیا جانے والا ماحول ابھی زوروں پر تھا کہ چند دن بعد26 جون کو کاسی قبائل کے ایک سرکردہ شخص ملک عبیداللہ کاسی کو گھر کے قریب سے مسلح افراد نے گاڑی میں ڈال کر اغوا کرلیا۔ ملک عبیداللہ کاسی عوامی نیشنل پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن بھی تھے۔ وہ شریف النفس اور بے ضرر انسان تھے۔ کوئٹہ کے نواح کچلاغ کے علاقے کے رہائشی و زمیندار تھے۔ اغوا کے خلاف ان کی جماعت، علاقے اور شہر کے مختلف مکاتبِ فکر کی جانب سے احتجاج و تشویش کا اظہار ہوا۔ آخرکار سفاک اغواکاروں نے انہیں قتل کردیا۔ نعش پشین کے علاقے سرخاب سے ملی۔ ہاتھ ہتھکڑی اور پائوں رسّی سے بندھے ہوئے تھے۔ انہیں بھوکا پیاسا رکھا گیا تھا، بہیمانہ تشدد کیا گیا تھا جس سے ان کی موت واقع ہوئی۔ آئی جی پولیس بلوچستان رائے محمد طاہر کی سرکردگی میں پولیس اوّل روز سے متحرک تھی۔ پولیس ملزمان کے قریب پہنچی، جس پر اغوا کاروں نے مغوی کو قتل کردیا۔ چناں چہ 7 اگست کو پشین ہی میں قتل میں ملوث پانچ اغوا کار پولیس مقابلے میں مارے گئے، جبکہ شریکِ جرم دو افراد افغانستان فرار ہوگئے۔ ایک ملزم مقتول کا ہم قبیلہ اور گائوں کا رہائشی تھا۔ گویا اغوا کے اس معاملے میں بھی جلی و خفی الفاظ میں الزام اداروں پر لگانے کی کوششیں ہوئیں۔ حکومت مخالف تقریباً سبھی جماعتوں نے تحقیق و تفتیش کار بن کر الزامات کی بھرمار کردی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفند یار ولی کہہ چکے ہیں کہ انہیں اپنے موقف اور فکر سے ہٹانے کے لیے یہ جرم ہوا۔ سردار اختر مینگل نے بھی اپنی تفتیش و تحقیق شعر کہہ کر بیان کی کہ
بڑے ظالم ہیں تیرے شہر کے لوگ فراز
قتل کرکے پوچھتے ہیں یہ جنازہ کس کا ہے
پشتون خوا میپ نے اپنے 7 اگست کو کوئٹہ سائنس کالج میں منعقدہ جلسے کی قرارداد میں ملک عبیداللہ کاسی کے قتل کو ریاستی دہشت گردی کہا اور اعلیٰ سطح پر عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ حالانکہ ملک عبیداللہ کاسی کے قتل اور اغوا میں کچھ بھی پوشیدہ نہیں۔ پولیس ٹھیک ٹھیک ملزمان تک پہنچی ہے، جنہوں نے ملک عبیداللہ کو آسان ہدف سمجھ کر تاوان کی غرض سے اغوا کرلیا تھا۔ اس حوالے سے آئی جی پولیس رائے محمد طاہر کی کاوشیں بھی قابلِ تحسین ہیں۔ جرائم پیشہ گروہ اس نوع کی وارداتیں کرتے ہیں۔ مسلح تنظیمیں بھی ملوث ہیں۔ یقیناً صوبے کے اندر ایسے جتھے بھی ہیں جن کی پشت پناہی کے لیے سرکار کو مورد الزام ٹھیرایا جاتا ہے۔ یہ لوگ جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، لوگوں کی زمینیں ہتھیاتے ہیں۔ چناں چہ ان کا قلع قمع کرنا ضروری ہے۔