کراچی قائداعظم کا شہر ہے… جہاں تعلیم ہے، شعور ہے، وسائل ہیں، ملک کی مجموعی آبادی کا 10 فیصد کراچی میں آباد ہے، جسے منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ یہاں ہر خطے کے باشندے آباد ہیں۔ اس کا شمار دنیا کے دس بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ کراچی ملک کے محصولات کا 70 فیصد فراہم کرتا ہے۔ کراچی میں ملک کی 60 فیصد صنعتیں موجود ہیں۔ لیکن یہ شہر ہمیشہ حکمرانوں کی عدم توجہی کا شکار رہا ہے۔ یہ کہنا تو شاید مسئلے کی سنگینی کو اجاگر نہیں کرتا، البتہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ یہ شہر ہمیشہ حکمرانوں کی سفاکی کا شکار رہا ہے۔ یہ حکمرانوں کی ضرورت بھی ہے، اور لگتا ہے حکمرانوں کو اس سے الرجی بھی ہے۔ کراچی سے پورے ملک کے عوام کی امیدیں وابستہ ہیں۔ نئی حکومت آئی تھی تو اس سے امید بندھی تھی۔
عمران خان اِس وقت کراچی کے دورے پر ہیں، لیکن اب ان کے اعلانات اور دوروں پر سے شہر کے لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا ہے، حالانکہ ان کو بھی کراچی کے عوام نے جھولی بھر بھر کر ووٹ دیے، دل دیا۔ لیکن انہوں نے بھی اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جو اُن سے پہلے کے حکمران کرتے آئے ہیں، یعنی عمران خان کی حکومت بھی کراچی میں زرداری اور نوازشریف کا تسلسل ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان اس شہر کے لیے کوئی نیا منصوبہ لاتے، خستہ حال شہر کی صورت تبدیل کرنے میں اپنی دلچسپی ظاہر کرتے تو شہر خودبخود اندھیرے سے روشنی کی طرف چلا جاتا۔ لیکن وہ تو اُن لوگوں کے ساتھ جاکر بیٹھ گئے جنہوں نے اس شہر کو برباد کیا۔ اور خود عمران خان یہ کہتے رہے ہیں کہ ایم کیو ایم نے کراچی کو دہشت گردی، بدامنی اور نوجوانوں کو تباہی کے سوا کچھ نہیں دیا، لیکن اب وہ اُسی ایم کیو ایم کو اپنے ساتھ بٹھائے ہوئے ہیں۔ اس وقت شہر جرائم کی آماج گاہ بنا ہوا ہے، اس میں ہر قسم کے جرائم کھلے عام ہورہے ہیں، اور نوجوانوں کی بڑی تعداد ان گھنائونے جرائم کی طرف راغب ہورہی ہے۔
کراچی میں لوگ دن دہاڑے لٹ رہے ہیں۔ شہر میں جس طرح کورونا کی وبا پھیلی ہوئی ہے اسی طرح رہزنی اور لوٹ مار کی وبا بھی پھیلی ہوئی ہے۔ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا عفریت تھما تو اسٹریٹ کرائمز شہر کا سب سے بڑامسئلہ بن گئے۔ اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں کی وجہ سے شہریوں میں خوف و ہراس بڑھتا جارہا ہے۔ پولیس، رینجرز اور صوبائی حکومت جرائم کو روکنے میں یکسر ناکام ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ لوٹ مار کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی وجہ سے لوگ اب اے ٹی ایم سے معمولی رقم نکلوانے میں بھی خوف محسوس کرتے ہیں۔
صرف جولائی 2021ء میں شہریوں کی 160 گاڑیاں چوری ہوئیں یا چھینی گئیں، اس کے ساتھ بھتا خوری کی بھی متعدد وارداتیں سامنے آئی ہیں اورشہر میں قتل کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ماہ جولائی کے دوران 42 افراد کو دن دہاڑے قتل کیا گیا۔ پچھلے سات ماہ میں وارداتیں 43 ہزار سے تجاوز کر گئی ہیں ، جبکہ گزشتہ برس ابتدائی سات ماہ کے دوران اسٹریٹ کرائمز کی 31 ہزار 527 وارداتیں رپورٹ ہوئی تھیں۔ اس طرح 2021ء کے ان 7 ماہ کے دوران گزشتہ سال کی نسبت 11 ہزار 570 وارداتیں زیادہ رپورٹ ہوئی ہیں۔ سی پی ایل سی کے تازہ اور گزشتہ برس کے ریکارڈ کا تقابلی جائزہ بتاتا ہے کہ گزشتہ سال کی نسبت اسٹریٹ کرائمز کی شرح میں رواں برس مجموعی طور پر 37 فیصد اضافہ ہوا۔اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ سال 2020ء کے مقابلے میں رواں سال موٹر سائیکل چھیننے کی وارداتوں میں 100 فیصد اضافہ ہوا۔ موٹر سائیکل کی چوری پچاس فیصد، گاڑیوں کی چوری 14 فیصد اور موبائل فون چھیننے کی شرح 10 فیصد بڑھ گئی۔جولائی کے آخری دنوں میںوزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں کراچی میں جرائم کی صورت حال کے حوالے سے آئی جی سندھ نے بتایا کہ 2021ء میں (15 جولائی تک) 254 افراد کو قتل کیا گیا تھا، ان میں سے 161 ملزمان کو گرفتار کرکے 126 کیسز کا پتا لگایا گیا ہے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ شہر میں ماہانہ اسٹریٹ کرائمز کے واقعات اوسطاً 2039.4 ریکارڈ کیے گئے ہیں، اس طرح روزانہ 67.6 واقعات کی شرح بنتی ہے۔ شہر میں ہر ماہ اوسطاً 16.9 فور وہیلرز گاڑیاں چھینی گئیں۔ فور وہیلرز گاڑیوں کی ماہانہ چوری کی اوسط 129.7 اور روزانہ 4.3 گاڑیاں ریکارڈ کی گئی۔ جبکہ موٹر سائیکل چھیننے کے 335.2 کیس رپورٹ ہوئے، یعنی روزانہ11.1 فیصد۔ یہ چوری ہر ماہ 3501.7 موٹر سائیکلیں ریکارڈ کی گئی ہے۔ اسٹریٹ کرائمز کے واقعات پر ایڈیشنل آئی جی کراچی عمران منہاس نے بتایا کہ 15 جولائی 2021ء تک اسٹریٹ کرائمز کے 3181 واقعات رپورٹ ہوئے۔
یہ اعداد و شمار پولیس کے بتائے ہوئے ہیں اور صرف اسٹریٹ کرائمز کے ہیں۔ گھروں میں ڈکیتی، چوریاں، بھتا خوری، اغوا برائے تاوان اور بینک ڈکیتی کی وارداتیں اس کے علاوہ ہیں۔ پولیس ہی کے مطابق اسٹریٹ کرائمز کی 90 فیصد وارداتیں تھانے میں رپورٹ نہیں ہوتیں، وہ وارداتیں رپورٹ ہوتی ہیں جن میں قانونی تقاضے لازمی ہوتے ہوں، یا کوئی شخص مارا جائے یا زخمی ہوجائے۔ گاڑیوں سے ساؤنڈ سسٹم، بیک ویو مرر، بیٹری کی چوری اس شہر میں بہت عام بات ہے۔ اسٹریٹ کرائمز سے تنگ شہریوں نے اپنی حفاظت کے لیے پولیس پر انحصار کرنے کے بجائے خود ہی بندوبست کرنا شروع کردیا ہے۔ حال ہی میں راشد منہاس روڈ پر دو ڈاکو رینٹ اے کار کے مالک کو لوٹ کر فرار ہورہے تھے کہ ایک شہری نے انہیں دیکھتے ہی فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں دونوں ڈاکو زخمی ہوگئے۔ عام شہریوں کے ہاتھوں ڈاکوؤں کے زخمی ہونے کے واقعات اب آئے روز پیش آنے لگے ہیں۔ روشنیوں کے شہر میں بڑھتی ہوئی بدامنی اور اسٹریٹ کرائمز کے باعث لوگوں کے حساس عدم تحفظ میں اضافہ ہوگیا ہے،جبکہ پولیس کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔ انسپکٹر جنرل آف پولیس سندھ اسٹریٹ کرائمز کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کا اعتراف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کرائمز کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے، یہاں تک کہ وارداتوں میں ٹریفک پولیس کا اسلحہ بھی استعمال ہوا ہے، اہم بات یہ ہے کہ کم سن لڑکے اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں ملوث ہیں جن کی عمریں چودہ سے اٹھارہ سال کے درمیان ہیں۔ اسٹریٹ کرائمز کی وجوہ پر پولیس حکام بتاتے ہیں کہ اسٹریٹ کرمنلز اور منشیات فروشوں کے درمیان گٹھ جوڑ، ملزمان کا اوّل تو گرفتار ہی نہ ہونا، اور ہوکر بھی کمزور پراسیکیوشن کے باعث عدالتوں سے رہا ہوجانا، رہا ہونے کے بعد دوبارہ سے وارداتوں میں ملوث ہوجانا ایک طرف… اور بے روزگاری دوسری جانب بڑا سبب ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جرائم میں اضافہ جہاں سیکورٹی اداروں کی غفلت، لاپروائی اور نان پروفیشنل ہونے کی وجہ سے ہے، وہاں یہ ایک معاشرتی اور سماجی مسئلہ بھی بن گیا ہے۔ کراچی میں تیس سال منظم دہشت گردی جاری رہی ہے، ماضی کی حکومتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے یا تو اپنی آنکھیں بند کیے رہے، یا سرپرستی کرتے رہے، اس لیے اب جب اسٹریٹ کرائمز اور جرائم میں اضافے کی خبریں روزانہ شائع اور نشر ہورہی ہیں تو لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ کیا کراچی ایک بار پھر منظم جرائم کی آماج گاہ بننے جارہا ہے؟ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس شہر کی روشنیاں اگر کسی نے چھینی ہیں تو وہ اس کے حکمراں اور سول و عسکری ادارے ہیں۔ کراچی 1980ء کی دہائی سے پہلے ایک پُرامن شہر تھا۔
روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا۔ اس کے مسائل تھے، مگر یہ منظرنامہ نہیں تھا۔ لیکن پھر عالمی تناظر، دبائو اور ضرورت کے تحت اس صورت حال کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا، اور پھر چند مہینوں میں ایسا ہوگیا کہ کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔پہلے اگر روزانہ درجنوں افراد ہلاک ہوتے تھے، گھر سے نکلنے والے کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ گھر واپس بھی آئے گا یا نہیں، اب اسٹریٹ کرائمز ہونے لگے ہیں۔ اس وقت کراچی کا کوئی حصہ،گلی محلہ، سڑک یا چوراہا لٹیروں سے محفوظ نہیں ہے۔آپ کسی سنسان سڑک پر دومنٹ سے زیادہ چلنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، لیکن رش والی جگہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ لگ یہ رہا ہے کہ آدھا شہر لٹیرا ہے اور آدھا شکار ۔اس ضمن میں سب سے خطرناک بات یہ ہے اور جس کا اظہار ان صفحات پر پہلے بھی کیا گیا ہے کہ یہ لوٹ مار گلی،محلوں کی سطح پر پھیل گئی ہے، اور دیکھنے میں آرہا ہے کہ بے روزگار نوجوان اس طرح کی لوٹ مار میں شریک ہیں، اور وہ جرائم پیشہ افراد کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے کی وجہ سے رہزنی کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ پورے ملک کی طرح کراچی میں مہنگائی اور بے روزگاری سے متاثر افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔کورونا لاک ڈاؤن نے معاشی صورت حال کو مزیدخراب کردیا ہے۔اس صورت حال میں سوال یہ بنتا ہے کہ ہمارے سیکورٹی ادارے کیا کررہے ہیں؟ پولیس کیا کررہی ہے ؟رینجرز کیا کررہے ہیں؟کیا کراچی اور کراچی کےتین کروڑ سے زیادہ شہریوں کا مقدر یہی ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر اپنی قیمتی اشیاء اور جانیں لٹیروں پر قربان کرتے رہیں؟