آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات کے بعد سے کشمیر کے مستقبل کے حوالے سے بہت سے پرانے اور چند نئے سوالات ایک بار پھر سر اٹھارہے ہیں۔ پہلا سوال تو یہی ہے کہ کیا اسلام آباد میں برسرِاقتدار جماعت کا آزاد کشمیر میں برسرِاقتدار ہونا ضروری ہے؟ چوں کہ عرصے سے یہی ہوتا رہا ہے، اس لیے یہ خود آزاد کشمیر کے انتخابات پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ جبکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنے، یا اتفاقاً ایسا ہونے سے کشمیر کاز کو کچھ فائدہ پہنچتا ہے، یا دنیا کو اس کا کوئی غلط پیغام جاتا ہے؟ دوسرا سر اٹھاتا ہوا اور پریشان کن سوال وہ ہے جو خود وزیراعظم پاکستان عمران خان نے یہ اعلان کرکے کھڑا کردیا ہے کہ آزاد کشمیر میں یہ ریفرنڈم کرائیں گے کہ آیا یہاں مقیم کشمیری پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزادانہ حیثیت میں۔ ایسی بات اور اعلان ہماری کسی سابقہ حکومت نے نہیں کیا، کیونکہ پاکستان اور آزاد کشمیر کا روزِ اوّل سے ایک ہی مؤقف رہا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے جس کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔ آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتیں اور حکومتیں الحاقِ پاکستان کی حامی ہیں۔ وہاں کی اسمبلی متعدد بار الحاقِ پاکستان کی قراردادیں منظور کرچکی ہے، جبکہ مقبوضہ کشمیر میں جانوں کی قربانیاں دینے والے نوجوان پاکستانی پرچم اٹھاکر شہادت کو گلے لگاتے ہیں، اور انہیں پاکستانی پرچموں میں لپیٹ کر دفن کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم کے مذکورہ اعلان سے اس اہم سوال نے جنم لیا ہے کہ کیا وزیراعظم نے مسئلہ کشمیر اور اس کے تاریخی پس منظر سے عدم واقفیت کی بنا پر محض جذبات میں یہ اعلان کردیا ہے، یا یہ کوئی عالمی ایجنڈا ہے؟ بدقسمتی سے اس اعلان پر ملکی سیاسی جماعتوں اور خود آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت کی خاموشی اور نیم دلانہ ردعمل نے سوالات کا ایک پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ کچھ حلقے اس خدشے کا بھی اظہار کررہے ہیں کہ کہیں جلد یا بدیر آزاد کشمیر کو صوبے کا درجہ نہ دے دیا جائے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دینے سے کشمیر پر پہلے ہی ہمارا مؤقف کمزور ہوا ہے۔ اس خدشے کو آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم راجا فاروق حیدر کے اس امکانی خدشے نے زیادہ تقویت دی ہے، جب انہوں نے چند ماہ قبل لاہور میں کہا تھا کہ وہ شاید آزاد کشمیر کے آخری وزیراعظم ہوں۔ اگرچہ سردار عبدالقیوم خان نیازی کے نئے وزیراعظم آزاد کشمیر بننے کے بعد راجا فاروق حیدر کی یہ بات تو درست ثابت نہیں ہوئی، لیکن وہ اب بھی بعض خدشات کا اظہار کررہے ہیں۔راجا فاروق حیدر نے چند ماہ قبل لاہور میں ایک سینئر صحافی کے گھر پر عشائیے کے دوران درجنوں صحافیوں کی موجودگی میں انتہائی دعوے کے ساتھ کہا تھا کہ پاکستان کی حکومتوں نے کشمیر کا مقدمہ ہمیشہ نیم دلی سے لڑا ہے۔
آئیے آج ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا ہم نے اس اہم قومی ایشو کے حل کے لیے دانستہ یا نادانستہ کچھ کوتاہیاں کی ہیں؟ یا مختلف وجوہات کی بنا پر ہم وہ بہت سے کام نہیں کرسکے جو ہمیں کرنا چاہیے تھے؟ اس معاملے میں سب سے اہم سوال تو اہلِ دانش ہی اٹھاتے ہیں کہ جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 1948ء میں کشمیر میں استصوابِ رائے کرانے کی قرارداد منظور کرلی تھی تو اُس کے بعد اِس قرارداد پر عمل درآمد کے لیے پاکستان نے سفارتی سطح پر کیا کوششیں کیں؟ اور خود آزاد کشمیر کی حکومت نے اپنی زندگی اور موت کے اس مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھانے اور منوانے کے لیے کیا کیا؟ اقوام متحدہ میں ہمارے نمائندوں نے سلامتی کونسل پر اپنے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے کتنا دبائو ڈالا، کتنے اقدامات کیے؟ اور اگر سلامتی کونسل اس بارے میں لیت و لعل کررہی تھی تو ہم نے عالمی حمایت حاصل کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ ہمارے سفارت خانے اس معاملے میں کتنے سرگرم رہے؟ کیا اس کے لیے ہم نے سفارتی سطح پر کوئی پراپیگنڈہ مہم چلائی، دنیا کے دیگر ممالک سے رابطے کرکے انہیں اپنے مؤقف سے آگاہ کیا، اور اُن کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی؟ کیا ہم نے اس اہم مسئلے کے لیے کوئی تشہیری مواد تیار کیا، کوئی مؤثر وفود دنیا کے مختلف ممالک میں بھیجے، اور کیا دیگر عالمی فورمز پر تسلسل کے ساتھ اپنی آواز اٹھائی؟ اور اگر ہمیں اس معاملے میں زیادہ کامیابی نہیں ہورہی تھی تو کیا ہم نے کوئی نئی اور مؤثر حکمت عملی ترتیب دی؟ ایک سوال یہ ہے کہ جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں بوگس انتخابات کے ذریعے اسمبلی اور حکومت بنانے کا انتظام کیا تو ہم نے اُنہیں رکوانے کے لیے کیا اقدامات کیے، کہ ایک متنازع علاقے میں جس کا مستقبل ابھی طے ہونا ہے ایک جابر قابض ملک کس طرح انتخابات کا ڈھکوسلہ کرسکتا ہے! وہاں تو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق استصواب ہونا چاہیے۔
بھارت پہلے دن سے مقبوضہ کشمیر کے نہتے شہریوں پر بدترین تشدد کررہا ہے، اور سرکاری مشینری کے ذریعے ہزاروں کشمیریوں کو شہید، ہزاروں کو معذور کرنے کے علاوہ بھارتی فوج اور پولیس وہاں سیکڑوں خواتین کی آبروریزی کرتی رہی ہیں۔ انسانی حقوق کی ان بدترین پامالیوں سے کیا ہم نے دنیا کو آگاہ کیا؟ انسانی حقوق کے اس مسئلے کو تواتر، اور مؤثر حکمت عملی کے ساتھ عالمی فورمز پر اٹھایا؟ کیا جنیوا میں انسانی حقوق کے عالمی کمیشن میں ہم نے اسے ایک سنگین انسانی مسئلہ بنا کر پیش کیا؟ کیا ہم نے استصوابِ رائے پر عمل درآمد اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر عالمی عدالتِ انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا؟ کیا اس معاملے میں دنیا بھر میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیموں سے رابطے کیے، یا محض ایک آدھ اخباری بیان دے کر بیٹھے رہے؟
ایک سوال یہ بھی ہے کہ خود بھارت کے اندر سے کشمیریوں کے حق میں جو آوازیں اُٹھتی رہی ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف جو سیاسی جماعتیں، سیاسی رہنما اور تنظیمیں احتجاج کرتی رہی ہیں ہم نے ان آوازوں کو عالمی میڈیا، بین الاقوامی اداروں اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں تک پہنچانے میں کوئی مؤثر کردار ادا کیا ہے؟
ایک سوال یہ بھی ہے کہ بھارت کے مختلف صوبوں اور علاقوں میں آزادی کی جو تحریکیں چلتی رہی ہیں، اور ان کے ساتھ بھارتی حکومتیں جس طرح کا وحشیانہ سلوک کرتی رہی ہیں، کیا ہم نے دنیا کو بھارت کا یہ چہرہ دکھانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے؟
بھارت اپنی اقلیتوں کے ساتھ جس طرح کا ناروا سلوک کرتا ہے، اور ان اقلیتوں کے جو بدتر حالات ہیں، ان کے حقوق کی جو پامالی کی جاتی رہی ہے، کیا ہم نے ان مظالم سے آج کی دنیا کو آگاہ کیا؟
کشمیر کی آزادی اور مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک کو ہم نے کبھی اپنے ادب کا حصہ بنایا، اور کیا اسے عالمی ادب کا حصہ بنانے کی کوشش کی؟ اس موضوع پر ہم نے معیاری ڈرامے، فلمیں بنائیں یا بنوائیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اکثر ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ خصوصاً نوجوان کشمیری ان کو زیادہ شدت سے محسوس کرتے ہیں اور کبھی کبھار اس پر اپنا ردعمل بھی ظاہر کرتے ہیں۔ یہ سوالات صرف پاکستانی حکومتوں سے نہیں، آزاد کشمیر کی حکومتوں اور قیادت سے بھی پوچھے جانے چاہئیں۔ کاش کوئی ادارہ اس پر کوئی تحقیقی کام کرسکے۔