!!! یوم آزادی اوربند راستے

کراچی کے ساحلوں کو دیکھتے ایک عمر گزری ہے۔ کراچی سے تھوڑے فاصلے پر بلوچستان کے ساحلی علاقے خوبصورتی اور فطری حسن میں اپنی مثال آپ ہیں۔ نیلگوں سمندر، سمندری حیات اور پانی اتنا شفاف کہ سمندر کی تہ تک دیکھ لیں۔ ان حسین فطری مناظر میں انسان کھوکر رہ جاتا ہے۔
اس کے علاوہ متعدد مرتبہ صحرائے تھر دیکھنے کا اتفاق ہوا، اور بلوچستان کے کچھ مقامات اور سندھ میں گورکھ ہل اسٹیشن… ان علاقوں میں فطرت ایک نئے انداز سے جلوہ گر ہے اور اپنے اندر منفرد کشش رکھتی ہے۔ وہاں سے شمالی علاقوں کی جانب سفر کریں۔ مری سمیت گلیات، سوات، کاغان، ناران، چترال، گلگت بلتستان اور دیگر علاقوں کو بھی دیکھنے کے مواقع میسر آئے۔ وہاں کی خوبصورتی، فطری مناظر، برف پوش چوٹیاں، بل کھاتے دریا، شورمچاتے اور دلوں کو لبھاتے آبشار، جھیلیں اور دیگر مقامات، اور مہمان نواز مقامی باشندے… یوں لگتا ہے کہ جنتِ ارضی میں پہنچ گئے ہوں۔
پاکستان کو اللہ پاک نے ہر قسم کے فطری حسن سے نوازا ہے، معدنی دولت عطا کی ہے، جفاکش اور محنتی لوگ عطا کیے ہیں، ذہین اور باصلاحیت شہری ہیں، ملک کی آبادی کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ لوگوں میں کام کرنے کی لگن ہے، حوصلہ ہے، جذبہ ہے۔ لیکن قیادت نااہل، کرپٹ اور مفاد پرست ملی۔
قیام پاکستان کے ابتدائی چند سال مخلص اور بے لوث قیادت میسر آئی۔ بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح قیام پاکستان کے بعد صرف تیرہ ماہ حیات رہے، اور ان کی وفات کے صرف تین سال بعد ملک کے پہلے وزیراعظم قائدِ ملّت لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ہزاروں افراد کے سامنے ایک جلسہ عام میں شہید کردیا گیا۔ وہ بھی ایک گہری سازش کا نتیجہ تھا۔
اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ کو پہلے بالواسطہ اور پھر بلاواسطہ حکومت کرنے کا موقع مل گیا، اور اُس دن سے اب تک وہی حکومت کررہی ہے۔ اسی طبقے نے یہ بات مسلسل کہنا شروع کردی کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں نہیں آیا، بلکہ یہ سیکولر ریاست ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ تحریکِ پاکستان سیاست دانوں نے چلائی۔ پوری تحریک میں ببانگِ دہل کہا جاتا رہا کہ ہندوستان میں دو قومیں آباد ہیں، ہندو اور مسلمان، اسے دو قومی نظریہ بھی کہا جاتا ہے۔ اور یہ کہ مسلمان اپنا الگ ملک چاہتے ہیں تاکہ قرآن وسنت کے مطابق اپنی زندگی بسر کرسکیں۔ اس سلسلے میں بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی متعدد تقاریر اور بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں۔ خاص طور پر اُن کا یہ قول کہ ہمارا دستور چودہ سوسال قبل قرآن کی صورت میں دے دیا گیا تھا۔
یہ تو تھا وہ پس منظر، جس میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور مختلف مکاتیبِ فکر کے علماء سمیت تمام سیاست دان اس امر پر متفق تھے کہ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہوگی، اور یہاں اسلامی قوانین پر عمل اور اقامتِ دین ہوگی۔ اور یوں ایک خوشحال معاشرہ وجود میں آئے گا، جہاں بے روزگاری، مہنگائی اور کرپشن جیسی لعنتیں نہیں ہوں گی۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں عوام کو حقِ حکمرانی اور بنیادی سہولتیں میسر ہوں گی۔ لیکن یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا، اور لبرل اور اسلام دشمن طبقے نے اس راہ میں اتنی رکاو ٹیں کھڑی کیں کہ اسلام اُسی ملک میں اجنبی بن کر رہ گیا، جو اسلام کے نام پر قائم کیا گیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ یہ لبرل طبقہ کون ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کی تربیت برطانوی راج میں کی گئی تھی، تاکہ برطانوی سرکار کو مقامی افرادی قوت میسر آسکے۔ انگریز بہت آگے کی سوچتے تھے، کم از کم سوسال آگے کی۔ انہوں نے ہندوستان پر قبضے کے فوری بعد اس امر پر غور کرنا شروع کیا کہ ہندوستان میں اپنے اقتدار کو کیسے دوام بخشا جائے؟ اس حوالے سے بہت تحقیق اور غور وفکر کے بعد ایک ایسا تعلیمی نظام روشناس کرایا، جس کے تحت فارغ التحصیل ہونے والے بظاہر تو ہندوستانی (ان میں ہندو، مسلمان اور سکھ سب ہی شامل تھے) ہوتے لیکن ان کی سوچ انگریزی، لباس انگریزی، طرزِ رہائش انگریزی، طرزِ گفتگو انگریزی، غرض سرتاپا انگریزی۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کردی گئی تھی کہ انگریزی زبان اور تہذیب ہی ان کی ترقی کی ضامن ہیں، انگریز ہمارے نجات دہندہ ہیں اور انہوں نے ہی ہندوستان کو ترقی کی رفعتوں سے ہم کنار کیا، ورنہ مسلمان حکمران تو اقتدار کے نشے میں بدمست اور اوّل درجے کے عیاش تھے۔
انگریزی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والوں کو ہی اعلیٰ اور ادنیٰ سرکاری عہدے اور ملازمتیں ملتی تھیں، یعنی انڈین سول سروس اور رائل انڈین آرمی… انگریزوں نے ان دونوں اداروں کا ایسا اسٹرکچر بنایا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ یعنی بہت منظم اور بہت اعلیٰ۔ انہیں کالے انگریز بھی کہا جاتا تھا۔ وہ انگریزوں ہی کی طرح سوچتے تھے، اور اپنے ہی ہم وطنوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔
حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ قیام پاکستان کی جدوجہد تو عوامی تھی اور سیاست دان اس کے ہراول دستے میں شامل تھے، لیکن جب پاکستان قائم ہوا تو اصل اقتدار ان ’کالے انگریزوں‘ کے ہاتھوں میں آیا۔ یعنی بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس۔ قیام پاکستان کے ابتدائی چند برسوں میں تو بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی وجہ سے ان کی جرأت نہیں ہوئی۔ ان کے بعد ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو راستے سے ہٹانے کے بعد انہیں اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کا موقع مل گیا۔
تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان میں زیادہ عرصے فوجی آمریت رہی، جمہوریت بہت کم عرصے… اور وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں ’’رکھیل‘‘۔ اس کے نتیجے میں ایک بڑا نقصان 1971ء میں پاکستان کے دولخت ہونے کا ہوا، ملک کا ایک بڑا حصہ بنگلہ دیش بن گیا۔ انگریز کی تربیت یافتہ اسٹیبلشمنٹ انگریزوں کے جانے کے بعد بھی اُن ہی کی طرح سوچتی اور کام کرتی رہی۔ یعنی اسلامی نظام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ۔ 1956ء سے لے کر 1973ء تک ملک کے تمام دساتیر میں یہ بات واضح طور پر درج رہی کہ کوئی قانون قرآن وسنت کے مطابق نہیں بنایا جائے گا۔ لیکن تمام قوانین قرآن وسنت کے خلاف بنتے رہے۔
سب سے بڑھ کر سودی معیشت کو جاری و ساری رکھا گیا، عوام بنیادی سہولتوں سے محروم رہے۔ کیونکہ ملک میں اب تک انگریزوں کے بنائے ہوئے کالے قوانین نافذ ہیں جن کی وجہ سے مظلوموں کو انصاف نہیں ملتا، اور میرٹ کے بجائے مرضی پر فیصلے ہوتے ہیں۔ حکمرانوں کو عوام کے دکھ درد کا احساس نہیں، بالکل اسی طرح جیسے انگریز راج میں ہوا کرتا تھا۔ انگریزوں کا مقولہ’Bloody Indian’اب بھی رائج ہے، اس کے الفاظ بدل گئے ہیں، لیکن انداز وہی ہیں۔
یہ غلط فہمی عام ہے کہ انگریز راج میں کرپشن نہیں تھی، یہ قیام ِپاکستان کے بعد شروع ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریز دور میں کرپشن تو نہیں، لوٹ مار کا دور دورہ تھا۔ ہندوستان کی دولت بے دردی سے لوٹی گئی، جو انگریزوں نے بھی لوٹی اور کالے انگریزوں نے بھی۔ اب بھی ملک کے طول وعرض میں ڈپٹی کمشنروں اور دیگر سرکاری افسروں کی وسیع وعریض رہائش گاہیں اور دفاتراس کے شاہد ہیں۔ انگریزوں نے کرپشن کی حوصلہ افزائی کی اور کالے انگریزوں میں جان بوجھ کر اسے پروان چڑھنے دیا۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد سیاست دان کرپشن سے پاک تھے، لیکن جب اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان پر قبضہ کیا تو اس میں سیاست دان بھی ملوث ہوتے چلے گئے۔
ایسی صورت میں اسلامی نظام کے لیے گنجائش ہی کہاں رہ جاتی ہے؟ اب تو اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک میں اسلام ہی سب سے زیادہ اجنبی ہے۔ بلکہ مہنگائی اور بنیادی سہولتوں سے محرومی کا یہ عالم ہے کہ شاید انگریز دور میں بھی نہ ہو۔ ہمارا ملک اب تک آزاد نہیں ہوا، اس کے بنیادی فیصلے باہر ہوتے ہیں۔
انگریزوں کی حکمتِ عملی اپناتے ہوئے نظامِ تعلیم کو اس انداز سے استوار کیا گیا کہ طلبہ اسلام ہی سے دور ہوں۔ چنانچہ نجی تعلیمی اداروں میں جہاں کیمبرج نظام ہے، وہاں نصاب میں اسلام اور پاکستان ہی شامل نہیں۔ اب کوششیں کی جارہی ہیں کہ پورے ملک کے تعلیمی اداروں کے نصاب سے اسلام اور پاکستان کے اسباق کو نکال دیا جائے۔
پاکستان خوبصورت فطری نظاروں سے مالامال، اور معدنی دولت اور دیگر قدرتی وسیلوں سے بھرپور ملک ہے… جہاں کسی چیز کی کمی نہیں، لیکن صرف ایک شے کی کمی ہے، یعنی آزادی اور عوام کی حکمرانی کی۔ اسے کیسے حاصل کیا جائے؟ ملک کے یومِ آزادی پر یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اور اس سے آگے تمام راستے بند نظر آتے ہیں۔