احمد بن طولونؒ معتز باللہ کے زمانے میں مصر کے حاکم تھے۔ اس سے پہلے وہ معروف ترکی بادشاہ طولون کے پاس رہتے تھے، اور طولون نے انہیں اپنا بیٹا بنالیا تھا۔ اسی دوران یہ واقعہ پیش آیا کہ طولونؒ نے انہیں کسی کام سے دارالامارۃ بھیجا۔ وہاں انہوں نے بادشاہ کی ایک کنیز کو محل کے کسی خادم کے ساتھ بے حیائی میں مبتلا پایا۔ احمد بن طولونؒ اپنے کام سے فارغ ہوکر بادشاہ کے پاس واپس پہنچے لیکن اس قصے کا اس سے کوئی ذکر نہیں کیا۔ اُدھر کنیز کو یہ یقین ہوگیا کہ بن طولونؒ بادشاہ سے ضرور میری شکایت کردیں گے، اس لیے اُس نے یہ حرکت کی کہ طولون کے پاس جاکر احمد بن طولونؒ کی شکایت کردی کہ وہ ابھی میرے پاس آئے تھے اور مجھے بے حیائی پر آمادہ کرنا چاہتے تھے۔ کنیز نے شکایت اس انداز سے کی کہ بادشاہ اس سے بہت متاثر ہوا اور اس نے فوراً احمد بن طولونؒ کو بلوایا اور کنیز کی شکایت کا زبانی طور سے تو کچھ ذکر نہیں کیا البتہ ایک مہر شدہ خط ان کے حوالے کردیا اور حکم دیا کہ یہ خط فلاں امیر کے پاس پہنچا دو۔ خط میں یہ لکھا تھا کہ ’’جو شخص یہ خط تمہارے پاس لارہا ہے اسے فوراً گرفتار کرکے قتل کردو اور اس کا سر میرے پاس بھیج دو‘‘۔
احمد بن طولونؒ کو ادنیٰ وہم بھی نہ تھا کہ ان کے خلاف سازش ہوچکی ہے۔ وہ خط لے کر روانہ ہوئے، راستے میں اسی کنیز سے ملاقات ہوگئی۔ کنیز یہ چاہتی تھی کہ بادشاہ، احمد بن طولونؒ کو مجھ سے باتیں کرتے ہوئے دیکھ لے تاکہ اسے یقین ہوجائے کہ میری شکایت درست تھی۔ چنانچہ اُس نے احمد بن طولونؒ کو باتوں میں الجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ مجھے ایک ضروری خط لکھوانا ہے، آپ خط لکھ دیجیے، اور آپ بادشاہ کا جو مکتوب لے کر جارہے ہیں وہ میں دوسرے خادم کے ذریعے بھجوا دیتی ہوں۔ چنانچہ اس نے بادشاہ کا مکتوب اُسی خادم کے حوالے کردیا جس کے ساتھ وہ مبتلا ہوئی تھی۔ وہ خادم خط لے کر اسی امیر کے پاس پہنچا اور امیر نے خط پڑھتے ہی اسے قتل کرادیا اور اس کا سر طولون کے پاس بھیج دیا۔ بادشاہ وہ سر دیکھ کر حیران رہ گیا، اور احمد بن طولونؒ کو بلوایا۔ احمد بن طولونؒ نے سارا ماجرا سنادیا اور کنیر نے بھی اپنے جرم کا اعتراف کرلیا۔ اُس دن کے بعد سے بادشاہ کی نظر میں احمد بن طولونؒ کی وقعت دوچند ہوگئی اور اس نے وصیت کی کہ میرے بعد ان کو بادشاہ بنایا جائے۔
(البدایہ والنہایہ، ص 46، ج 11) (مفتی محمد تقی عثمانی۔”تراشے“)