بصرہ کے ایک شخص نے بکریاں پال رکھی تھیں اور ان کا دودھ فروخت کرکے گھر کا خرچ چلاتا تھا۔ بکریوں کو چَرانے اور دودھ دوہنے کے لیے اس نے ایک ملازم رکھا ہوا تھا۔ نوکر دودھ لے کر مالک کے پاس آتا تو مالک اس میں پانی ملانا شروع کردیتا، نوکر سمجھاتا کہ ’’حضور! بے ایمانی ٹھیک نہیں، قیامت کے روز اللہ کو کیا جواب دیں گے؟‘‘ مالک نوکر کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی اسے ڈانٹ کر چپ کرا دیتا۔ ایک دن نوکر بکریوں کو پہاڑ کے دامن میں بٹھاکر کسی کام کے لیے اوپر چلا گیا۔ اس دوران بہت تیز بارش ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے طوفان کی شکل اختیار کر گئی۔ اس قدر تیز سیلاب آیا کہ راستے میں پڑے بڑے بڑے پتھر اور درخت بھی اس میں بہہ گئے۔ پانی کا ایک ریلا بکریوں کو بھی بہا لے گیا۔ شام کو نوکر دودھ کے بغیر مالک کے گھر پہنچا تو اس نے پوچھا ’’دودھ کہاں ہے؟‘‘ نوکر نے کہا’’آپ روزانہ دودھ میں پانی ملاتے تھے، آج سارا پانی جمع ہوکر سیلاب بنا اور بکریوں کو بہا لے گیا‘‘۔ (ماہنامہ چشمِ بیدار۔ فروری 2021ء)