مملکتِ پاکستان کے قیام کا باقاعدہ اعلان

14 اگست 1947ء بمطابق 26 رمضان المبارک بروز جمعرات لارڈ مائونٹ بیٹن قائداعظم کے ہمراہ گورنر جنرل ہائوس کراچی سے جلوس کی شکل میں دستور ساز اسمبلی پہنچے۔ لارڈ مائونٹ بیٹن وائسرائے ہند نے بطور نمائندہ حکومتِ برطانیہ، پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے حکومتِ برطانیہ کی طرف سے قیام پاکستان کی خوشخبری سناتے ہوئے پاکستان کو مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے طرز حکومت کی تقلید کرنے کی تجویز پیش کی اور دستور ساز اسمبلی کو حکومتِ پاکستان کے اختیارات تفویض کرتے ہوئے اس نئی مملکت کے پھلنے پھولنے کی دعا کی۔ جواب میں پاکستان کے نامزد گورنر جنرل نے قیام پاکستان پر حکومتِ برطانیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے واضح کیا کہ ان کے پاس تیرہ سو برس کا واضح طرزِ حکمرانی موجود ہے۔ تقریب کے بعد لارڈمائونٹ بیٹن اور قائداعظم واپس گورنر جنرل ہائوس پہنچے۔ راستے میں لاکھوں عوام سڑکوں پر نعرے لگاتے ہوئے استقبال کے لیے موجود تھے۔ بعد دوپہر لارڈ اور لیڈی مائونٹ بیٹن بذریعہ ہوائی جہاز دہلی واپس چلے گئے۔ کراچی اور دیگر شہروں میں رات کو چراغاں کیا گیا۔ اسی رات یعنی جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب بمطابق لیلۃ القدر یعنی 27 رمضان المبارک کی نصف شب بارہ بجے رات لاہور ریڈیو اسٹیشن سے پاکستان ریڈیو کی افتتاحی نشریات شروع ہوئیں اور قیام پاکستان کے اعلان کے علاوہ اردو اور پنجابی کے خیرمقدمی نغمے بھی نشر ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کا قیام رمضان المبارک میں عمل میں آیا۔ اس سال بھی عیدالفطر اور یوم آزادی کی تاریخ ایک دوسرے سے قریب ہے۔ اُس سال مسلمانوں کی پہلی عیدالفطر کیسی گزری اور اس دن جس ظلم و سفاکی کا اظہار کیا گیا اس کا اندازہ وقار انبالوی صاحب کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے:
’’لیکن 18 اگست 1947ء کے روز عیدالفطر تھی۔ اس روز خوف و خطر کی فضائوں میں جالندھر کے مسلمان ہزاروں کی تعداد میں عید کی نماز ادا کرنے کے لیے عیدگاہ میں جمع تھے اور ابھی پہلی رکعت میں سجدہ ریز ہوئے ہی تھے کہ ہندوئوں اور سکھوں نے تلواروں، گنڈاسوں، برچھیوں اور بندوقوں سے مسلح ہوکر ان پر حملہ کردیا اور آنِ واحد میں سینکڑوں مسلمانوں کے سر تن سے جدا کردیے گئے، جو اس وحشیانہ حملے سے جان بچاکر عیدگاہ سے باہر بھاگے انہیں بھالوں کی نوک پر دھر لیا گیا۔ اس طرح جالندھر کی عیدگاہ لاشوں سے پٹ گئی۔ اس کے سکھانن ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں فرقہ پرست ہندو، سکھ طے شدہ پروگرام کے مطابق جالندھر کے آسودہ حال اور ذی اثر مسلمانوںکے گھروں سے زبردستی پردہ نشین عورتوں کو گھیر کر عیدگاہ تک لائے، یہاں ان کے برقعے اور ان کی چادریں ہی سروں سے نہ اتاریں بلکہ ان کے لباس اتارکر انہیں برہنہ کردیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے مردوں کو عید مبارک کہیں اور قیام پاکستان کی خوشی میں ان کی لاشوں کے آس پاس رقص کریں۔ یہ وحشیانہ سلوک اور سنگدلانہ کارروائی ایسی تھی جس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ شوہروں، بھائیوں اور بیٹوں کی لاشوں پر ان کو رونے بھی نہ دیا گیا۔ برہنہ حالت میں حیا کی ماری عورتیں جب سکڑنے، سمٹنے اور ایک دوسرے کے ساتھ لپٹنے لگتیں تو ان کو بھالوںکی نوک چبھو چبھو کر نہ صرف ایک دوسرے سے الگ کیا جاتا بلکہ چرکے اور کچوکے اس طرح دیے جاتے کہ وہ تڑپنے لگتیں اور قاتل قہقہے لگاتے‘‘۔
عید کے دن مسلمانوں کو جو تحفہ ہندوئوں اور سکھوں کی طرف سے بھیجا گیا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے خواجہ افتخار لکھتے ہیں:
’’انہوں نے عید کے موقع پر ہندوستان سے لاہور آنے والی ایک مال گاڑی کے ڈبے میں مسلمان عورتوں کی کٹی چھاتیاں، معصوم بچوں کی گردنیں اور کٹے ہوئے ہاتھ عید کے تحفے کے طور پر اسلامیانِ پاکستان کو ارسال کیے۔ جب وہ ڈبہ لاہور کے اسٹیشن پر پہنچا تو اس پر ’’پاکستانی مسلمانوں کے لیے تحفہ‘‘ کے اشتعال انگیز الفاظ لکھے ہوئے تھے‘‘۔
[’’جب امرتسر جل رہا تھا‘‘۔ از خواجہ افتخار احمد۔ ص 266,265]

چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی

علامہ بسا اوقات غفلت اور بے عملی میں ڈوبی ہوئی اپنی قوم کو جگانے کے لیے غصے اور جلال کا مظاہرہ بھی کرتے ہیںتو اگلے لمحے یہ بتا دیتے ہیں کہ میرے کلام کی تلخی دراصل اس کڑوی دوا کی طرح ہوتی ہے جس کے نتیجے میں مریض کو شفا نصیب ہوتی ہے، اور اسی طرح بعض اوقات کسی مہلک زہر کا مقابلہ بھی ایسے اجزا پر مشتمل دوا سے کیا جاتا ہے جو زہر کو کاٹ کر بے اثر کر دیتی ہے اور اسے تریاق کہا جاتا ہے۔