پاکستان اپنی آزادی کے 75 ویں برس میں داخل ہورہا ہے، گویا مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان اس وقت جو کچھ بھی ہے، جیسا بھی ہے، دو چار برس کی بات نہیں، پون صدی کا قصہ ہے۔ اس پون صدی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے قوم جشن منا رہی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ جشن کس بات کا؟ کیا اس جشن کا جواز موجود ہے؟ کیا قائداعظم محمد علی جناحؒ اور مصورِ پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے خوابوں کو تعبیر مل گئی؟ ان خوابوں نے حقیقت کا روپ دھار لیا؟ کیا وہ مقاصد حاصل ہوگئے جن کی خاطر تحریکِ پاکستان چلائی گئی تھی؟ وہ جو نعرہ لگایا گیا تھا کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الااللہ‘‘، ’’دستورِ ریاست کیا ہوگا؟ محمدؐ رسول اللہ‘‘ کیا پاکستان اس کا مصداق بن چکا؟ کیا یہ وہی پاکستان ہے، جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی؟ کیا ان قربانیوں کا صلہ ہمیں مل گیا جو 14 اگست 1947ء سے پہلے اور بعد دی گئی تھیں؟ ان تمام سوالوں اور ذہنوں میں کلبلانے والے ان جیسے دیگر بہت سے سوالات کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔ قائداعظم ؒ اور علامہ اقبالؒ کے خواب بلاشبہ ابھی تشنۂ تکمیل ہیں، ہم اُن مقاصد سے ابھی کوسوں دور ہیں جن کی خاطر برصغیر کے مسلمانوں نے لاکھوں جانوں، عزتوں اور عصمتوں کی قربانی دی تھی۔ ہمیں ’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے‘‘ کا پیغام عام کرنا تھا، مگر ہم خود ذات، برادری، علاقے، زبان اور نہ جانے کن کن دیگر تعصبات کا شکار ہوکر رہ گئے۔ ہم کو مضبوط و مستحکم پاکستان کے ذریعے بھارت میں مسلمان اقلیت کا تحفظ کرنا تھا، ہمیں تکمیلِ پاکستان کی خاطر اپنی شہہ رگ جنت نظیر کشمیر کو آزاد کرانا تھا، مگر ہم اپنا دفاع بھی نہ کرسکے، اور اپنے قیام کے ربع صدی بعد ہی اپنا مشرقی بازو جدا کروا بیٹھے۔ ہمارے کشمیری بھائی آج بھی ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ اور ’’ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے‘‘ کے نعرے بلند کرتے اور جان، مال، عزت، آبرو، غرضیکہ ہر طرح کی قربانیاں دیتے ہوئے قائدِ حریت سید علی گیلانی کی بے مثال قیادت میں مدد کے لیے ہماری طرف دیکھ رہے ہیں، مگر ہم اپنی شہہ رگ کو دشمن سے آزاد کرانے کے لیے زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ حالات یقیناً اطمینان کا کوئی پہلو لیے ہوئے ہیں نہ مستقبل قریب میں بظاہر سازگاری کا کوئی امکان روشن نظر آتا ہے، مگر ہمیں اس گھٹا ٹوپ تاریکی کی فضا میں بھی اپنا چراغ جلائے رکھنا ہے، مایوسی کو قریب نہیں پھٹکنے دینا، کہ یہ گناہ ہے۔ اور یہ بھی تو طے ہے کہ ’’گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں… وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے‘‘۔ اپنی تمام ناکامیوں اور نامرادیوں کے باوجود… ذرا غور کیجیے، آج بھی پوری مسلم دنیا میں صرف اور صرف پاکستان ہے جو باطل کے ایوانوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ ربِّ کائنات نے پاکستان کو عجیب حدود اربعہ عطا فرمایا ہے، یہاں کے بسنے والوں کو ایسی بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے کہ عالمِ کفر میں جب بھی کوئی زلزلہ برپا ہوتا ہے، نگاہیں پاکستان ہی کی جانب اٹھتی ہیں۔ سچے، جھوٹے الزامات کا نشانہ اس مملکتِ خداداد ہی کو بنایا جاتا ہے۔کیا کوئی اس امر سے انکار کرسکتا ہے کہ اپنے وقت کی عظیم اور تیزی سے پھیلتی ہوئی عالمی قوت سوویت یونین کو صفحۂ ہستی سے مٹانے اور اُس کے اندر سے کئی مسلمان مملکتوں کو وجود بخشنے میں کلیدی کردار اسی مملکتِ خداداد کا تھا، اور اب جو دنیا کی واحد بڑی طاقت ہونے کی دعویدار ریاست ہائے متحدہ امریکہ زخم چاٹتی ہوئی افغانستان سے ناکام و نامراد پسپائی پر مجبور ہوئی ہے تو ہم مانیں یا نہ مانیں، امریکہ بہادر اس کا ذمہ دار بھی بہرحال اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی کو گردانتا ہے۔ کیا یہ بھی حقیقت نہیں ہے کہ ہم کچھ کریں یا نہ کریں، دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر کوئی آفت آتی ہے، ان پر ظلم روا رکھا جاتا ہے، تو مظلوموں کی امداد طلب نگاہیں پاکستان ہی کی جانب اٹھتی ہیں۔ پوری مسلم دنیا میں نظر دوڑائیے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سوا کہیں جوہری توانائی کے جوہر آپ کو نظر آتے ہیں؟ عروج و زوال، خامیاں، خرابیاں اور غلطیاں، کوتاہیاں اپنی جگہ… مگر امتِ مسلمہ کا قلعہ، آرزوئوں اور امنگوں کا مرکز، دعائوں اور امیدوں کا محور بہرحال اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم مایوسی سے قطع تعلق کرکے امید کا دامن تھامیں، کہ بہت سی دیگر سازشوں کی طرح یہ بھی دشمن ہی کی ایک سازش ہے کہ ہمیں مایوسی سے دوچار کرکے خالقِ کائنات کی رحمتوں سے دور کردے، اور ہماری صلاحیتوں اور توانائیوں کو زنگ آلود اور ناکارہ کردے۔ ہمیں دشمن کی اس سازش سے ہوشیار رہتے ہوئے خود اعتمادی اور ذمہ داری کا دامن مضبوطی سے تھام کر آگے بڑھنا ہوگا۔ اپنے وقتی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر وسیع تر اسلامی، ملّی اور قومی مفادات کی خاطر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔ اللہ کرے اہلِ پاکستان کو زندہ دل اور بیدار مغز قیادت نصیب ہوجائے جو سنجیدگی سے اہلِ وطن کی صلاحیتوں کو درست سمت میں رہنمائی فراہم کرسکے تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان دنیا میں سربلند ہوکر باوقار قوم کی حیثیت سے اپنامقام حاصل کرنے میں کامیاب و کامران ہوگا۔ بقول مصورِ پاکستان علامہ اقبال ؎
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
(حامد ریاض ڈوگر)